کیا بہادر لڑکیاں گھر بسا سکتی ہیں؟


ہم میں سے اکثر لوگ ایک شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کا معیار وہ نہیں رہا جو ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اکثر لوگ دھوپ کنارے، دھواں، آنگن ٹیڑھا اور ایسے ان گنت ڈراموں کا تذکرہ کرتے پائے جاتے ہیں اور اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ کاش ڈرامے کا یہ معیار لوٹ آئے۔ ایسی ہی لوگ خود کو یہ کہہ کر تسلی بھی دے لیتے ہیں کہ بھئی بھارت میں ابھی بھی ڈرامے کا معیار ہم سے کمتر ہے۔ کیا ہوا اگر ان کی فلم انڈسٹری اچھی ہے، ہماری ڈرامہ انڈسٹری کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔

مگر حال ہی میں بھارت کے کچھ ڈرامے جیسا کہ Sacred Games، Made in Heaven ایک گھسے پٹے سوپ اوپرا سے بہت بہتر ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں پاکستان میں کچھ ایسے ڈرامے بنائے جا رہے ہیں جنہوں نے یہ باور کروایا ہے کہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری ابھی بھی مکمل طور پر ساس اور بہو کے قبضے میں نہیں آئی۔ اڈاری اور باغی نے جہاں کچھ اہم معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا، وہیں اب چیخ اور انکار جیسے ڈرامے بہت سے ایسے معاشرتی رویوں کو زیر بحث لا رہے ہیں جن پر ہم بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

چیخ اور انکار جیسے ڈرامے ہمارے معاشرے کے ان ٹیبوز پر بات کرہے ہیں جن کو ہم اب تک حقیقت سمجھ کر جیتے آئے ہیں۔ ہماری مائیں آج بھی ہمیں آج بھی یہی ٹیبوز گھول کر پلاتی ہیں۔ شادی کے وقت کوئی سہانے اور اچھے مستقبل کے سپنے دکھانے کی بجائے یہ یاد دہانی کروارہی ہوتی ہیں کہ شادی کے شروع کے کچھ سال مشکل ہوتے ہیں، پریشان نہیں ہونا، کہ میرے ساتھ کچھ انوکھا ہو رہا ہے۔ سب کے ساتھ یہی ہوتاہے، سب کے سسرال والے تنگ کرتے ہیں شروع میں۔

پھر بچے ہو جاتے ہیں اور میاں توجہ کی خیرات آپ کی جھولی میں ڈالنا شروع کر دے گا۔ اور ہاں! دھیان رہے چاہے لڑکے کے گھر والے تمہیں جیتے جی کیوں نہ مار ڈالے، تمہاری ہر خواہش کا گلا کیوں نہ گھونٹ دیں، تمہاری زندگی کے جو پل خوشیوں اوررنگوں سے بھرے ہونے چاہیں، وہ ان میں جتنا مرضی زہر گھول دیں، مگر تم نے اف نہیں کرنی۔ اور شوہر کے سامنے تو بالکل بھی تذکرہ نہیں کرنا، ورنہ تم سے بدگمان ہو جائے گا۔ اور یہ یاد رہے کہ تمہارے اور اپنے گھر والوں کے بیچ، شوہر اپنے گھر والوں کو چنے گا، کیونکہ وہ اس کا خون ہیں۔ شوہر سے یہ توقع کبھی مت لگانا کہ وہ تمہارا ساتھ دے گا۔

اور اگر کبھی لڑکی پھر بھی شکوہ کر دے تو وہ خود سر ہے، گھر بسانے والی نہیں، خاندانی نہیں۔ اس لڑکی سے صاف کہا جاتا ہے کہ تم جیسی لڑکی کو بہو یا بیوی نہیں بنایا جا سکتا۔ تم تو گھر توڑنے والی ہو کیوں کہ تم نے شکوہ کیا ہے، یا ظلم برداشت کرنے سے انکار کیاہے۔ ا ایسی لڑکیاں گھروں میں نہیں لائی جاتیں، باہر سے ہی انہیں خدا حافظ کہا جاتا ہے۔ گھروں میں ایسی لڑکیوں کو لایا جاتا ہے جو صابر اور شاکر ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم صبر سے کام لینے اور ظلم برداشت کرنے میں فرق نہیں کرتے۔ اگر خدا کی رضا پر سرتسلیم خم کرنا صبر ہے تو اسی خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے ظلم برادشت کرکے خدا کے اس فرمان کی بھی نافرمانی کرنا بھی درست نہیں جس میں واضح طور پر ظلم نا سہنے کی تلقین کی گئی ہے۔

مگر چیخ اور انکار نے ان معاشرتی رویوں اور خیالات کے برعکس میاں بیوی کے بندھن کا ایک ایسا رخ پیش کیا ہے جو ہمارے معاشرے میں رائج ہونا چاہیے تھا۔ بجائے اس کے کہ ہم شادی شدہ زندگی سمجھوتہ سمجھ کر گزاریں، ہمیں یہ زندگی ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے گزارنی چاہیے۔ چیخ کی ہیروئن منت جب اپنے دیور کی سچائی جان کر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتی ہے تو اس کا شوہر یہ کہہ کر اس کو طلاق نہیں دے دیتا کہ تم میرے بھائی کو پھانسی پر چڑھانا چاہتی ہو۔ حتی کہ جب منت کے سسرال والے اس کے شوہر سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی اور بہن بھائیوں میں سے کسی ایک کو چنے تو وہ اپنی بیوی کا ساتھ دیتا ہے۔

اسی طرح، انکار بھی ایسا ایک ڈرامہ ہے جو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ اگر کبھی لڑکی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کی زندگی رک نہیں جاتی۔ ماضی کی غلطی اس کا داغ بن کر پوری عمر کے لیے اس کے وجود کا حصہ نہیں بن جاتی بلکہ، وہ اس غلطی کو سدھارنے کی کوشش بھی کر سکتی ہے۔ اور ہاں! ایسی لڑکیوں کی شادیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں ایسی بات پر یاتو گلہ گھونٹ دیتے ہیں یا خواہش۔ ایسی لڑکیوں کے منگیتر یا شوہر اور ان کے گھر والے انصاف کے حصول میں ان کے ساتھ بھی کھڑے ہوئے سکتے ہیں (بغیر کوئی طعنہ دیے ) ۔

ہمارے معاشرے میں میاں بیوی کے تعلق کو ایک نئی جہت دینے کی ضرورت ہے۔ زندگی بھر کے ساتھ کو مجبوری نہ بنائیں۔ ہماری مائیں بہو ڈھونڈنے جاتی ہین تو سب سے پہلے شکل اور پھر عقل دیکھتی ہیں۔ ایک چیز انہیں وافر چاہیے، اور دوسری جتنی کم ہو اتنی اچھی۔ بہو خوش شکل مل جائے اورپھر عقل بھی نہ ہو، اس سے بڑھ کر کیا چاہیے۔ اگر تھوڑہ سا بھی شک ہو جائے کہ لڑکی سوجھ بوجھ اورہمت والی ہے، فورا گھر کی راہ لیں گی۔ انہیں توبیٹے کا گھر بسانا ہے، اور گھر بسانے والی لڑکیاں چیخنا یا انکار کرنا نہیں جانتیں۔ وہ تو بس یہ جانتی ہیں کہ گھر تتلی کا پر ہوتا ہے، اور ہمسفر چاہے جیسا بھی ہو ان کو بس موم کی گڑیا بن کر رہنا ہے۔

مگر جس طرح چیخ اور انکار نے ایک نئی جہت متعارف کرائی ہے، اسی طرح ڈراموں اور میڈیا کے دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے میں یہ بات عام کرنی چاہیے کہ ایسی لڑکی جو اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے، یا ظلم ماننے سے انکاری ہو، وہ بری لڑکی نہیں ہے۔ وہ گھر توڑنے والی لڑکی نہیں ہے۔ وہ ایک بہادر اور باہمت عورت ہے، اور آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو ایک باہمت عورت کا ساتھ ملا ہے۔ اس عورت کی بہادری اور ہمت کو اس کا جرم نہ بنائیں، اس کا ساتھ دیں۔ اس بات کو سمجھیں کہ منت یا ہاجرہ جیسی لڑکیاں بھی گھر بسانے والی اور گھر بنانے والی لڑکیاں ہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ صبر اور ظلم کے درمیان فرق سمجھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).