پنجابی نوجوان کا المیہ


میرا آج کا مضمون پنجابیوں کی اس نوجوان اکثریت کے بارے ہے جن کی عمریں بیس سے چالیس سال کے درمیان ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر پچھلے دس سال سے دوسری قومیتوں کے ساتھ باہمی مکالمے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان میں سے دو چیزیں میں یہاں بیان کرنا چاہوں گا۔

1۔ اپنی مادری زبان کا احترام: اپنی مادری زبان سے لگاؤ جو دوسری قومیتوں میں ہے وہ پنجابیوں میں ویسا نہیں ہے۔ جو اس اکثریت نے خاصی حد تک بھلا رکھا تھا، اب آہستہ آہستہ وا پس آ رہا ہے۔ انگریزی ٹویٹ سے اردو ٹویٹ اور پھر اردو ٹویٹ سے پنجابی ٹویٹ تک کا یہ سفر جاری ہے اور فدوی نے خود مشاہدہ کیا ہے۔

2۔ لیڈرشپ سے جڑنا: ویسے یہ رجحان تو تاریخی ہے کہ پنجابیوں کے یہاں لیڈر شپ کی کمی رہی ہے (لیکن یہ بحث کسی اور طرف نکل جائے گی، جس پر پھر کبھی لکھوں گا)۔ ابھی اس دور حاضر میں اس پنجابی نوجوان نے دو قومیتوں کو اپنے نوجوان لیڈروں سے جڑتے دیکھا ہے۔ ایک تو بلاول ہیں، جن کے ساتھ سندھی جڑ کے کھڑا ہے۔ دوسرا منظور پشتین ہے، جس کے ساتھ پشتون نوجوان ڈٹ کے کھڑا ہے۔ دونوں ہی قومی سیاست میں بھی حاوی ہو رہے ہیں۔ دونوں لیڈر کچھ باتیں ایسی بھی کرتے ہیں، جن کو جمہوریت پسند پنجابی نوجوان پسند بھی کرتے ہیں۔

ایسا لیڈر دور حاضر کی پنجابی نو جوان کو نصیب نہیں ہوا، جس کے ساتھ وہ اپنی عصبیت شیئر کر سکتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ پنجابی نوجوان بلاول یا منظور میں سے کسی کو اپنا لیڈر چن سکتا ہے؟ میری رائے یہ ہے شاید یہ مکمل طور پر ممکن نہ ہو۔ آبادی کے لحاظ سے اکثریت ہونے کے باوجود اگر لیڈر دوسری قومیت سے ہی چننا ہے، تو یہ پنجابی نوجوانوں کے لئے باعث فکر انتخاب ہو گا اور زیادہ پائیدار بھی نہیں ہو گا۔

ایسے حالات میں اگر مریم نواز بھی بلاول اور منظور پشتین کی طرح کھل کر سیاسی اکھاڑے میں آ جاتی ہیں، تو یہ یقینا پنجابی نوجوانوں کے لیے بڑا واضح انتخاب بن جائے گا۔ مریم نواز، جو اپنے والد کے ساتھ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکی ہیں، اس کے ساتھ پنجابی نوجوان کا جڑنا، بلاول یا منظور کی نسبت آسان ہو گا۔

پاکستانی سیاست میں ویسے بھی خاتون نیشنل لیڈر کی شدید کمی ہے۔ مریم نواز نہ صرف یہ خلا پر کر سکتی ہیں، بلکہ اس پنجابی نو جوان کا ایک سہارا بن سکتی ہیں، جو پنجابی بولنا اور لکھنا چاہتا ہے اور قومی سطح پر اپنی نمایندگی، ایک پنجابی لیڈر کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے۔

سرِ دست مریم نواز ہی پنجابیوں میں واحد لیڈر ہیں جو پنجابی یوتھ کے دلوں میں گھر کر سکتی ہیں۔ ان کے علاوہ فی الحال کوئی اور پنجابی لیڈر دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ اگر وہ آگے نہیں آئیں گی تو پنجابی نو جوان تقسیم ہو گا، کچھ بلاول کی طرف جائے گا اور کچھ عمران خان پرویز الہی ٹائپ سیاسی یتیموں میں تقسیم ہو جائے گا۔ جس سے پنجابی شناخت، زبان اور سیاسی نمایندگی دب جائے گی۔

بلاول اور منظور پشتین کی موجودگی میں ایک پنجابی لیڈر بالعموم اور مریم نواز بالخصوص، بہترین سیاسی توازن پیدا کریں گے۔ یہ سیاسی توازن ہی جمہوریت کا حسن ہے، جو ملکی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).