بچپن کا روزہ اور رمضان کی یادیں


خود کو بچپن کے دنوں میں لے گیا، تو دِل میں اِک ہوک سی اٹھی۔ کہاں وہ مستیوں، رنگ رلیوں، بے فکریوں کے شب و روز اور کہاں زندگی کی یہ دوڑ دھوپ۔ پڑھائی، امتحان، امتحان در امتحان، ملازمت کی تلاش۔ بچھڑے احباب، بکھرے رشتے، کرم فرماوں کی کرم فرمائیاں۔ محبتیں، نا راضیاں۔ وفائیں، جفائیں، دغا بازیاں۔ اپنا احوال کیا کہیے کِہ ان گنت یادیں ہیں، جو ایک دوسرے سے آ گلے ملتی، ایسے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے، کِہ کس یاد کا ذکر کروں، کس بات کو چھوڑ چلوں۔

یادوں کے جھروکے سے لگ بھگ بیس بائس برس پیچھے کے ماہ رمضان کا منظر دیکھوں، تو چہار سو سے تلاوت کی پر سوز صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ خوشیوں کا، چہچاہٹوں کا ریلا۔ بہن بھائیوں نیز دیگر احباب کا میلہ۔ ایک طرف نانی اماں دکھائی دیتی ہیں، جو بڑے سے ریحل میں موٹے موٹے حروف والا قران لے کر بیٹھی ہیں۔ ادھر ہم بچوں کی دھما چوکڑی اور اچھل کود جاری ہے۔ کبھی لڑتے، گرتے پڑتے ہیں، تو کبھی قہقہوں کے فوارے چھوٹتے ہیں۔ یاد کے ایک جھروکے سے امی جان قران پڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔ میری نیند کھل چکی ہے اور میں ہوں کہ رو رو کر ہلکان ہوا جاتا ہوں۔ ’’مجھے کیوں نہ اٹھایا، سحری میں؟‘‘ امی لاکھ سمجھائیں کہ بچوں کا روزہ نہیں ہوتا لیکن وہ بچے ہی کیا، جو مان کے دیں۔ ابو نے آ کے گود میں اٹھا لیا۔ سمجھایا، بجھایا اور دیر تک بہلاتے رہے۔

کبھی چچا کے ڈر سے ادھر بھاگ رہے ہیں، تو کبھی اُدھر دروازے کے پیچھے چھپے ہیں۔ کان سننے کو ترس رہے ہیں، کہ وہ  ابھی کہیں گے، ’’جی میاں! درود شریف سنائیے۔ دعائے قنوت سنائیے۔ قنوت نازلہ؟ آیۃ الکرسی؟‘‘ یہ کیا ایک ہی تو غلطی ہوئی! جی ہاں! اب سو مرتبہ انھیں سناؤ۔ یا خدا یہ مر کیوں نہیں جاتے۔

اب سوچتے ہیں تو عجیب سا لگتا ہے، بچپنے کی خواہشیں بھی کیا عجب ہوتی تھیں۔ یہ مرنے کی بد دعا کرنے والا قصہ بھی عجیب ہے۔ شکر ہے سمیع و بصیر کا، کبھی ایسی دعا قبول نہ ہوئی۔ جو خدا کہیں سن لیتا، تو کتنوں کی شفقت سے محروم  رہتے اور کتنے اللہ کے پیارے ہو چکے ہوتے۔

چھوٹے چچا کا بھی یہی احوال تھا۔ کبھی پہاڑا سناؤ، تو کبھی کلمہ۔ کبھی جملوں کی ترکیب کرو، تو کبھی نحوی و صرفی تحلیل۔ اسکول سے چھٹی کیا ملتی، گھر پر ایک مدرسہ کھل جاتا۔ سبھی موقع کی تلاش میں، گھیرے میں لینے کو تیار رہتے۔ ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ سبھی بچے، ہمہ وقت بڑوں کے راڈار پر رہتے۔ اس سے تربیت بھی ہوتی اور سب ایک دوسرے کی نگرانی میں رہتے۔ مشترک خاندانی نظام میں جہاں بہت سی پے چیدگیاں ہیں، وہیں ڈھیروں فائدوں کا انکار ممکن نہیں۔

خیر، گھرسے نجات ملی تو اچھلتے کودتے قریب ہی نانی کے گھر جا بھاگتے۔ جو پوچھتے:
”روزہ رکھے ہو؟“
”ہاں رکھا ہوں۔“
”چل جھوٹے، زرا منہ تو دکھا۔ آآآ کر ۔۔۔ آآآ۔“
خالہ نے جونھی یہ کہا، ان سے لڑ پڑے، پھر تھوڑی دیر بعد ہی خالہ کے ساتھ دوڑ دوڑ کے کام کر رہے ہیں۔ ’’دیکھنا اس میں نمک زیادہ تو نہیں؟ ۔۔۔ اور اس میں شکر کم تو نہیں؟‘‘
تو بھیا ہم نمک بھی چکھ رہے ہیں۔ ماموں کے لیے دُکان پر افطار پہنچا رہے ہیں اور پھر شام کو افطار کے بعد فیرنیاں، مٹھائیاں، جلیبیاں ۔۔۔ آہ! کیا مزے کے دن تھے، کیا خواب سی راتیں تھیں۔

امی سے ضد کر کے روزے رکھتا۔ حالاں کہ وہ ضد کرتیں، بچوں کا روزہ آدھے دن کا ہوتا ہے، لیکن ہم لاٹ صاحب مان کے نہ دیتے۔ یوں تو ہر جگہ اور ہر علاقے کی اپنی اپنی روایات ہیں اور وہی انفرادیت اور خصوصیات اس خطے کے حسن کو دو بالا کرتی ہیں۔ رمضان کا مہینا شروع ہونے سے پیش تر ہی مسجد کے مینار پر کئی بڑے بڑے بانسوں کو جوڑ کر کھڑا کیا جاتا اور رسیوں کی مدد سے باندھ دیا جاتا۔ ان بانسوں میں لال اور ہری بتیاں لگی ہوتیں۔ افطار کا وقت ہونے پر ہری بتی جلتی، جب کہ انتہائے سحری کے وقت لال بتی۔ ہم بچے اس قمقمے کو دیکھنے کے لیے بہت بے قرار رہتے۔ خصوصاََ شام میں ہری بتی جلنے کا بہت بے صبری سے انتظار رہتا تھا، اور جونھی ہری بتی جلتی ایک شور بپا ہوتا ”بتی جل گئی، روزہ کھولو۔“

مجھے یاد پڑتا ہے، جب رمضان کا مہینا آتا، تو پورے علاقے میں ایک جشن کا سا سماں بندھ جاتا۔ حالاں کہ ایسا اب بھی ہوتا ہے لیکن آج کل کی تیز رفتار زندگی میں وہ ٹھیرا ہوا منظر کہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم بچوں میں تلاوت کلام مجید کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ روزانہ کون کتنے پارے پڑھتا ہے، اور یوں اس مقابلے کی بدولت ہم کئی کئی بار قران مجید ختم کر لیا کرتے تھے۔

یوں تو پورے رمضان ہی اچھے اچھے پکوان اور قسم قسم کی ڈشیں بنتیں، پکوان آس پڑوس میں بھجوایا جاتا لیکن جس دن محلے سے باہر یا رشتہ داروں کو افطار بھجوانا ہوتا، اس روز سب دُ پہر ہی سے بھڑ جاتے۔ کیا باجی، کیا امی، حتا کِہ ابو جان بھی مکمل انہماک سے اپنا شوق پورا کرنے  میں جٹ جاتے۔ ابو کو کھانا پکانے اور کھانے کا بہت شوق تھا۔ الحمد للہ آج بھی ویسا ہی ہے۔ پکوڑیاں، پھلواریاں، سموسے، سنگھاڑے، آلو چاپ، انڈا چاپ، گگھنی، چھلکا روٹی، دُھسکا، پوا ٹکیاں اور نہ جانے کیا کیا بنایا جا رہا ہے۔ اب تو فقط ان دنوں کی یادیں باقی ہیں۔ دیہاتوں میں افطار تقسیم کرنے، اور خصوصی طور پر غربا کا خیال رکھنے کا چلن تھا اور ہے، یہ رسم شہروں میں کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ کیا ہے کہ یہاں تو ایک فلیٹ والے کو بازو والے مکین کے بارے میں کچھ نہیں پتا ہوتا۔

انھی دنوں کا واقعہ ہے، جو میرے ضدی پن کی وجہ سے ہوا تھا۔ جس کا نشان اب بھی باقی ہے۔ افطار سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا، امی میرے چھوٹے بھائی (یا بہن، مجھے صحیح سے یاد نہیں) سے دق ہو رہی تھیں۔ میں سامنے ہی تھا، امی نے کہا: ”کچھ نہیں کر رہے ہو تو کم از کم بچے ہی کو باہر لے کر جاو، افطار کے وقت آنا۔“۔ میں غصہ سے بھائی کو لے کر باہر نکلا۔ افطار کا وقت ہو گیا، لیکن میں گھر نہیں لوٹا۔ ابو نے یکے بعد دیگرے گھر کے تقریباََ ہر فرد کو مجھے بلوانے کے لیے بھیجا۔ امی، بھیا، بڑی آپا، اس سے چھوٹی والی آپا، چھوٹا بھائی، چچا، لیکن صاحب، مجال ہے چھوٹے میاں اپنا غصہ چھوڑ دیں۔ میں نے تو جیسے قسم کھا لی تھی، مانا ہی نہیں۔

تھوڑی دیر بعد ابو خود آئے، انتہائی غصے کے عالم میں، اور مجھے ساتھ لے کر گئے، جہاں دسترخوان پر افطاری سجی تھی۔ ابھی ہم اندر گئے ہی تھے کہ اذان ہو گئی۔ میں روزے سے تھا لیکن غصہ کی وجہ سے میں نے کسی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ امی نے کہا ”روزہ مکروہ ہو جائے گا اور دن بھر بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔“ لیکن نہیں۔ سبھوں نے بڑی کوشش کی لیکن نہیں۔ اب بڑے میاں کی باری تھی ان کے ہاتھ میں گلاس تھا۔ انھوں نے کہا اگر تین گننے تک نہ لیا تو گلاس چلا کے مار دوں گا۔

لیکن ہم بھی تو ضدی باپ کے ضدی بیٹے تھے۔ نہ لیا اور پھرگنتی شروع ہوئی۔ ایک، دو، تین ۔۔۔۔ اور یہ کیا ۔۔۔انھوں نے سچ مچ گلاس چلا دیا۔ بھن۔ اسٹیل کا بھاری گلاس تیز دھار اسلحے کی طرح، ناک کے نچلے حصہ کو کاٹتا ہوا نکل گیا۔ خون کا فوارہ پھوٹ نکلا۔ مجھ سے زیادہ امی نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ فوراََ اسپتال لے کر گئے۔ اور علاج معالج شروع ہوا۔ اس سمے مجھ سے زیادہ بڑے میاں کی حالت خراب تھی۔

بعد کو جب چوتھی کلاس میں، مجھے ہاسٹل میں داخل کرایا گیا، تب ایک مدت بعد گھر لوٹنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ خوب آو بھگت ہوتی لیکن جیسے جیسے رمضان ختم ہونے کے دن آتے، اور عید کی گونج سنائی دیتی۔ ہمارے دل پرآ ریاں چلنا شروع ہو جاتیں، کہ اب چھٹیاں ختم ہوتے ہی ہاسٹل وا پس جانا پڑے گا۔ دل کرتا کہ یہ رمضان کا مہینا ختم ہی نہ ہو۔ جیسے جیسے عید قریب آتی جاتی، گھر چھوڑنے اور سب سے جدائی کا غم ستانا شروع کر دیتا۔ کھانا پینا، کچھ بھی اچھا نہ لگتا تھا۔ یاد کرتے کہ پھر مدرسے جانا پڑے گا، اور من ہی من میں کڑھتے کہ پھر وہی تنِ تنہائی ہو گی۔ وہی ستم ہو گا، اور باقی رہ جائیں گی، صرف یادیں۔

(میں محترمہ کو ثر بیگ صاحبہ کا ممنون ہوں، جنھوں نے مجھے رمضان سے جڑی، اپنے بچپن کی یادیں قلم بند کرنے کی تحریک دی)

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah