جمہوریت ہی جدوجہد کی واحد قابل عمل راہ ہے


\"waqas-khan\"

انسان معاشرتی جانور ہے۔ معاشرے کے بنا اس کی بقا ممکن نہیں۔ اور معاشرہ مسلسل ارتقاء پذیر رہتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں گزرا جس میں معاشرے نے رک کر پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا ہو۔ یہ ایک کائناتی سچائی ہے کہ جو قومیں معاشرے کے ارتقائی سفر میں پیچھے رہ جاتی ہیں وہ معاشرے کی نگاہ سے گر کر معدوم ہو جاتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے مشہور مصرع ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کا فقط یہ مفہوم لینا کہ جس کے پاس منہ زور اسلحہ اور ہیبتناک طاقت نہ ہو مارا جائے گا، محدود فکر کا شاخسانہ ہے۔ درحقیقت اقبال مرحوم جس کیفیت کو جرم ضعیفی سے تعبیر کرتے ہیں اس کا مصداق اول معاشرتی و تمدنی ارتقاء میں پیچھے رہ جانے والے طبقات ہیں۔

ارتقاء کا یہ سفر اگرچہ مسلسل جاری رہتا ہے لیکن اس کا رخ متعین کرنے والے صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ارتقائی عمل کو درست راہ پر ڈالنے والے یہ لوگ جب تک سامنے نہیں آتے تب تک معاشرہ باہمی کشمکش کا شکار رہتا ہے۔ بعثت رسالت مآب ﷺ کے دور کا جو نقشہ سیرت نگار کھینچتے ہیں اس میں اسی معاشرتی کشمکش کو جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد اسلامی ادوار میں جس خون ریزی کا ذکر ہمیں تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، مورخین اس کا سبب معاشرے کی باہمی کشمکش کو قرار دیتے ہیں۔ تقریبا سبھی مؤرخین کااس نکتے پر اتفاق ہے کہ اسلام کو بطور نظام جو غلبہ حاصل ہوا تھا اس نے مختلف پس منظر رکھنے والے اقوام و قبائل کو اسلامی سلطنت کا حصہ بنا دیا تھا۔ جو جو قومیں حلقہ اسلام میں داخل ہوتیں وہ اپنے مخصوص ثقافتی پس منظر کے ساتھ داخل ہوتی تھیں۔ جب تک ان اقوام کو حلقہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ میں وسعت قلبی کے ساتھ قبول کیا جاتا رہا تب تک معاشرے کے ارتقائی سفر کا دھارا درست سمت میں بہتا رہا لیکن جب اور جہاں ارتقاء پذیری کے اس عمل کو جبر سے روکنے اور اس کا رخ غیر فطری طریقے سے موڑنے کی کوشش کی گئی تب اور وہاں خون ریزی، نفرت اور فساد نے جنم لیا۔

ارتقاء کا یہ عمل اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ کلیسا اسے خدا کے نام پر بھی روک نہیں پایا بھلے اس نے اندلس میں انکویزیشن کے نام پر ایسی خوفناک سزاؤں کا سہارا ہی کیوں نہ لیا ہو جن کا تصوربھی بھلے چنگے انسان کو پاگل کر سکتا ہے۔ اور یہ کلیہ صرف عیسائیت اور کلیسا نہیں بلکہ تمام آسمانی مذاہب اور زمینی خداؤں کے خلاف کارفرما رہا ہے کہ عبرتناک سزاؤں کا خوف عمل ارتقا کو نہیں روک سکتا ہے۔ انسانی تاریخ اس کی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

بہرحال بحث کا حاصل یہ ہے کہ معاشرے کے ارتقائی سفر کودرست سمت پر ڈالنے والوں کا وجود اگرچہ کمیاب لیکن بے حد ضروری ہوتا ہے۔ سترہویں، اٹھارویں اور انیسویں صدی اس حوالے سے جبین انسانیت کا جھومر بننے لائق ہیں کہ ان صدیوں نے انسانیت کو ایک نہیں کئی ایک ایسے لوگ عطا کیے جنہوں نے معاشرے کو صحیح رخ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سترہویں صدی کے ہیوگو گروٹیس اور تھامس ہابس ہوں ، اٹھارہویں صدی کے روسو اور کانٹ یا انیسویں صدی کا کارل مارکس سبھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے لیکن ہم ان کا نام لیں گے اورنہ ہی انہیں بطور ریفرنس پیش کریں گے کیونکہ اپنے وقت کے شہ دماغ ہونے کے باوجود یہ لوگ جائیں گے جہنم ہی میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس لیے ہم پندرھویں صدی کے عظیم فلسفی ابن خلدون اور اٹھارہویں صدی کے انقلابی مفکر شاہ ولی اللہ دہلوی کا ذکر کرتے ہیں۔ ابن خلدون نے عصبیت اور شاہ ولی اللہ نے عمرانیات کا فلسفہ پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اب عقیدت اور خارجی طاقت کے زور پر حکومتیں اور نظام قائم نہیں کیے جا سکتے۔ اگر آپ قبائلی طرز معاشرت کا حصہ ہیں تو عصبیت کے کندھے پر اور شہری تمدن کا عضو ہیں تو عمرانیات کے بنیادی اصول اکثریت کے سہارے ہی حکومت قائم اور نظام نافذ کر سکتے ہیں۔

لیکن ہمارے ہاں بسم اللہ کے گنبد میں مقید چند قدسی روحوں کا خیال ہے کہ وہ عقیدت و علمیت کے ذریعے مرضی کا نظام نافذ کرنے کی انہونی کر دکھائیں گے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ انیسویں صدی میں سید احمد شہید ؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی غیر متنازع عقیدت کے سہارے اٹھنے والی جدوجہد کی ناکامی سے سبق نہیں سیکھا جاتا۔ انیسویں صدی کے اواخر میں حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ ، مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی ناکامی کو بھی درخور اعتناء نہیں جانا جاتا۔ بیسویں صدی کی تحریک ریشمی رومال کی لازوال جدوجہد کی ناکامی بھی ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بیسویں صدی میں تحریک احیائے خلافت کا ابھرنے سے پہلے ہی بیٹھ جانا بھی انہیں سیکھنے کا سامان مہیا نہیں کرتا۔ حالانکہ مذکورہ مواقع پر وقت کا بہترین علمی سرمایہ اور اعلی پائے کی وہ قیادت استعمال کی گئی تھی جس کی عقیدت میں کسی کو حرف کلام کا یارا نہیں۔

افسوسناک صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان تحریکوں اور پر خلوص محنتوں میں فکری و عملی طور پر شریک ہستیاں اپنی ناکامی کے بعد جمہوری جدوجہد کو واحد اور بہترین حل بتلاتی ہیں اورنہ صرف بتلاتی ہیں بلکہ خود عملی طور پر اس کا یوں حصہ بن جاتی ہیں کہ آج سو سال بعد بھی ان کے پیروکار اسی راہ کے مسافر ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے پاکستان کے چند گنبد نشین ہیں جو نام تو انہی کا بیچتے ہیں لیکن بات ان کی ماننے کو تیار نہیں۔ یہ لوگ چشم بینا اگر رکھتے تو افغانستان کی مار، عراق کی تباہی، مشرق وسطی کی خونریزی اور پاکستان کے سلگتے مسائل سے سبق سیکھتے لیکن

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ارے اللہ کے بندو ! گزشتہ سو سال کی اپنی تاریخ دیکھ لو۔ حصول پاکستان سے لے کر تحریک ختم نبوت کی کامیابی تک جو دو چار کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں تو صرف اور صرف جمہوری جدوجہد سے نصیب ہوئی ہیں وگرنہ تمہارے پاس وقف اور بعض جگہوں پر قبضے کی زمینوں پر بنے مدارس کو وراثت کے طورپر تقسیم کرنے کے سوا ہے ہی کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments