داتا دربار کے باہر خود کش دھماکہ اور فکری مغالطے


بات سادہ ہے اور عام فہم بھی، دہشت گرد بوکھلاہٹ کا شکار ہیں یا کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں؟ اپنے فہمِ اسلام کوپورے عالم انسانیت پر نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ یا انھیں حوروں کی طلب بے قرار کیے ہوئے ہے؟ کیسے اور کس طرح خود کش حملہ آور کی ذہن سازی کی جاتی ہے؟ بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیاں ان دہشت گردوں کو کیوں اور کیسے سپورٹ کرتی ہیں؟ جو اپنے تئیں غزوہ ہند کے مجاہد بنے ہوئے ہیں؟ سب سے اہم یہ کہ افغانستان، جس کی ہمیشہ پاکستان نے مدد کی، وہ کیوں پاکستان مخالف قوتوں کی کمین گاہ ہے؟ یہ سب سوالات بہت اہم ہیں اور ان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

رمضان مبارک اہلِ ایمان کے نزدیک ماہِ مقدس ہے۔ اس کی حرمت اور فضیلت روایات و آیات سے ثابت شدہ ہے۔ اگر کوئی دہشت گرد اس ماہِ مقدس میں بھی بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا کر اپنے لیے ”جنت کی راہ ہموار“ کرنے کے فکری مغالطے کا شکار ہے تواس میں یقینا غلطی اسلام کے نمائندہ افراد، اور تنظیمات کی ہے جو اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے میں ناکام رہے، دہشت گردی کی ”اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ“ سے مذمت و حمایت کرنے والے۔ یہاں تک کہ وہ علما بھی جو پرائیویٹ جہاد کے نفع بخش کاروبار سے منسلک رہے یا ہیں۔

دو رمضان المبارک کی صبح بر صغیر کے معروف صوفی بزرگ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے دربارِ ذی وقار کے گیٹ نمبر دوکے باہر ایک خود کش حملہ آور نے ایلیٹ پولیس کی گاڑی کے سامنے خود کو اڑا دیا۔ اس خود کش حملے کے نتیجے میں 10 افراد شہید اور 30 زخمی ہوئے ہیں، شہید ہونیوالوں میں پولیس اہلکار، ایک پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی کا ملازم اور عام زائرین یا شہری شامل ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کے باعث خود کش حملہ آور کو مزار کے اندر جانے کی گنجائش نہ ملی اور اس نے خود کو مزار کے باہر ہی اڑا لیا، اگر خود کش حملہ آور مزار کے اندر چلا جاتا تو یقینا زیادہ جانی نقصان ہوتا۔ 2010 میں بھی داتا دربار کے صحن میں ایک خود کش حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں 50 افراد شہید اور 200 زخمی ہوئے تھے۔

دو رمضان المبارک کو داتا دربار کے باہر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری کالعدم دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ہو یا کالعدم صوفی محمد کی جماعت شریعت ِ محمدی، یا کالعدم جماعت الاحرار یا کالعدم دہشت گرد تنظیم داعش، ان ساری تنظیموں او ر ان کی ذیلی و پھیلی شاخوں کا فکری رویہ و رحجان ایک ہی ہے۔ جماعت الاحرار نے اس دھماکے کو ”آپریشن شامزئی“ کا نام دیا ہے۔ تنظیم کے ترجمان ڈاکٹر عبدالعزیز یوسف زئی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے، 3 رمضان المبارک 1440 ہجری لکھا ہے، جبکہ انگریزی تاریخ 8 مئی درج ہے۔

سوال یہ ہے کہ حملہ 2 رمضان المبارک کو ہوتا ہے اور حملے کے کچھ دیر بعد جب دہشت گرد تنظیم حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو اپنی کامیابی کے اعلان کے ساتھ تاریخ 3 رمضان المبارک درج کی جاتی ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ یا کتابت کی غلطی نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم نے جہاں سے بیان جاری کیا ممکن ہے وہاں 2 کے بجائے 3 رمضان المبارک ہی ہو؟ اس حملے کے تانے بانے ایک بار پھر افغانستان میں موجود پاکستان مخالف نیٹ ورک سے جا ملتے ہیں۔

مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ سے پہلے اور بعد میں تین ٹیلی فون کالز بھی ریکارڈ کی گئی ہیں۔ کنڑ سے کی گئی کالیں افغان، پشتو، اور ایک ٹوٹی پھوٹی اردو میں ہے۔ تینوں کالز میں جومشترکہ چیز ریکارڈ کی گئی وہ ٹارگٹ پورا کرنے کے الفاظ ہیں۔ یہ کالز تین مختلف افراد کو کی گئیں جو اس وقت داتا دربار کے ارد گرد موجود تھے۔

ان سطور کے شائع ہونے تک سیکیورٹی ادارے اس حملے کے حوالے سے مزید شواہد اکٹھے کر چکے ہوں گے اور ممکن ہے کہ سہولت کاروں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہو۔ لیکن ہمیں اس غلط فہمی یا فکری مغالطے سے نکلنا ہو گا کہ کہ ہم نے دہشت گردی پر پوری طرح قابو پا لیا ہے۔ بے شک آپریشن ضربِ عضب کے مثبت اور کامیاب نتائج سامنے آئے، پاکستان کی فوج، پولیس، لیویز، عام شہریوں اور سیکیورٹی سے متعلقہ تمام اداروں نے بے پناہ قربانیں دی ہیں۔

ہمیں وہ دن یاد ہیں جب ہر روز دہشت گرد کارروائیاں کرتے تھے۔ پھر یہ دن بھی ہم نے اپنی ہمت اور اللہ کی مدد سے پلٹائے کہ دہشت گردوں کو ”ٹارگٹ“ پورا کرنے کے لیے مہینوں لگ جاتے ہیں۔ اے پی ایس کے افسوس ناک واقعہ کے بعد ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا۔ اگر آج بھی اس نیشنل ایکشن پلان کی ترتیب دی گئی شقوں پر من و عن عمل کیا جائے تو دہشت گردی کی جڑیں کاٹ دینے میں ہمیں سہولت ہو گی۔

میرے خیال میں ہم نے دہشت گردی کی بڑی بڑی شاخیں، تو مکمل کاٹ دی ہیں مگر اس نحوست کی دور دور تک پھیلی ہوئی جڑوں کو ابھی کاٹنا باقی ہے۔ خود احتسابی کامرانی کی کنجی ہے۔ دہشت گردوں نے حکمت عملی بدلی ہے۔ اب وہ عجلت کے بجائے انتظار کرتے ہیں اور اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی حکمت ِ عملی کو بدلنا ہو گا۔ کیسے؟ اور کیونکر؟ اس حوالے سے سادہ بات یہی ہے کہ ہر کالعدم جماعت اور دہشت گرد تنظیم کے سہولت کار پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں موجود ہیں۔

جب تک دہشت گردوں کے سہولت کار کسی نہ کسی روپ میں موجود ہیں، خدا نخواستہ ہم اسی طرح کے تکلیف دہ سانحات کا سامنا کرتے رہیں گے۔ جس خود کش حملہ آور نے داتا دربار کو نشانے پر لیا، اس کے نزدیک یہ جگہ شرک کا مرکز ہے۔ ، اور اس ”شرک“ کو سیکیورٹی ادارے تحفظ دے رہے ہیں۔ اس دہشت گرد کے سہولت کار وں کا فکری مغالطہ بھی یہی ہے۔ یہ بہت لغو بات ہے کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کا مذہب بھی ہوتا ہے، اس کا ہدف بھی ہوتا ہے، اس کے سہولت کار بھی ہوتے ہیں اور اسے جنت نشیں ہونے کی بشارت دینے والے مبلغ بھی ہوتے ہیں۔

تب جا کر کوئی کسی مزار، کسی امام بارگاہ، کسی درگاہ، کسی دربار کو اپنے نشانے پر لیتا ہے۔ جب کسی خود کش حملہ آور کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ پاکستانی فورسز کافروں کی ہمنوا ہیں تو خود کش حملہ آور خوشی خوشی ”جنت“ جانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ ہمیں یہ جنگ مسلح محاذ کے ساتھ ساتھ فکری محاذ پر بھی لڑنی ہے اور اس جنگ میں مکمل کامرانی فکری محاذ پر فتح ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان کے اہل ِ ہنر کو اپنے رخشِ قلم سے فکری میدان کی کمان سنبھالتے ہوئے دوٹوک موقف اپنانا چاہیے۔ پاکستان اس جنگ میں انشا اللہ سر خرو ہو گا، مگر نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر من و عن عمل بھی تو ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).