قوم کب آزاد ہوگی؟


میاں وقاص ظہیر

\"Mianیوم آزادی کے دن سوشل میڈیا پر ہجرت کے وقت کی ایک نایاب تصویر نظر آئی، تصویر کیا تھی اپنے اندر پاکستان کی پوری کتھا سموئے ہوئے تھی، جسے میں کافی دیر تک دیکھتا رہا اور اس میں چھپی کہانی تلاش کرتا رہا۔ تصویر کا احوال کچھ اس طرح سے تھا کہ اس میں ایک معمر جوڑا ہے، اماں نے ہاتھ میں گٹھری اٹھا رکھی جبکہ بزرگ نے سر پر صندوق۔ بینائی کمزور ہونے سے اس نے عینک لگائی ہوئی ہے جو دایاں ہاتھ ماتھے پر رکھ کر آنکھ پر سایہ کر کے دیکھ رہے ہیں، تصویر کے پس منظر میں ریلوے لائن بھی نمایاں ہے، جبکہ تصویر پوسٹ کرنے والے نے ایک جانب اس بزرگ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بزرگ کہہ رہے ہیں کہ 69سال پیدل چلتے بیت گئے لیکن پاکستان نہیں آیا۔ ٹھیک ہی تو کہا ہے اس بزرگ نے، کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ قیام پاکستان کے وقت یہاں 20 مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری تھی جن میں سر محمد شفیع، میاں محمد فضل حسین، چودھری سر شہاب الدین، سر سکندر حیات، نواب آف کالا باغ، نواب سر مظفر علی قزلباش، ملک فیروز خان نون، نواب سر اللہ بخش، نواب سر شاہنواز ممدوٹ، سر مخدوم مرید حسین قریشی، نواب مشتاق احمد گورمانی، سر شیر محمد دومیلی، نواب عاشق حسین قریشی و دیگر شامل تھے۔ یہ قیام پاکستان سے قبل بھی انگریزوں کے خوشامدی زر خرید غلام تھے جو قیام پاکستان کے بعد پکی پکائی دیگ پر آ بیٹھے۔ جنہوں نے اقتدار، جاگیروں، الاٹمنٹوں، لائسنسوں اور تجارت پر قبضے کر لئے۔ ان خاندانوں کی تعداد 20 سے بڑھ کر 220 ہوچکی ہے۔ یہی بہروپیئے آج بھی اسی شد و مد کے ساتھ بھیس بدل کر ملک و قوم سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ قائداعظم ایسے ہی نہیں کہتے تھے کہ میں جب بھی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں کھوٹے سکے ہی ہاتھ آتے ہیں۔ میں یہاں قوم پر ایک اور نقطہ واضح کرتا چلوں کہ ہمیں جو ملک ملا وہ مکمل \’پاکستان\’ بھی نہیں تھا۔ چوہدری رحمت علی نے جب لفظ پاکستان تجویز کیا تھا تو اس میں پ سے پنجاب، الف سے افغانی سرحدی صوبہ آج کا خیبرپختونخوا، ک سے کشمیر اور تان سے بلوچستان تھا، یعنی لفظ پاکستان سے ک یعنی کشمیر غائب کر دیا گیا، آپ ہی بتائیں کہ پاکستان آج تک مکمل ہوا ہے؟

یہاں کبھی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگا کر عوام کو بیوقوف بنایا گیا کبھی نظام مصطفیٰ کی تحریک کی صورت حال میں بے گناہ شہریوں کو اپنے مقاصد کے لئے قربان کیا گیا۔ جس میں یہاں کے نام نہاد مولوی ایک طرف بھٹو کے خلاف جلسے جلوس اور ریلیاں نکالتے دوسری جانب مذاکرات کی میز پر وزارتیں مانگتے تھے۔ یہ وہی نوسرباز ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف کے تسلط سے گردن چھڑانے کے جھوٹے خواب دکھا کر عوام کی جیبوں سے ان کی جمع پونجی نکلوائی۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ نہ ہی آج تک عوام کو سکھ کا روٹی کپڑا مکان ملا نہ ملک میں صحیح معنوں میں نظام مصطفیٰ رائج ہوا، نہ ہی قوم کا بچہ بچہ آئی ایم ایف کے چنگل سے خلاصی پا سکا ہے۔ یہ تو ایسے ظالم ہیں کہ انہیں ویلنٹائن ڈے تو منانا یاد رہتا ہے لیکن تحریک پاکستان کے ہیروز کا دن اکثر بھول جاتا ہے۔

ہماری تو نئی نسل بھی ملکی تاریخ سے نا آشنا ہے، ہمارا اردو اور انگلش میڈیم کا تعلیمی نظام ایسا بنا دیا گیا ہے کہ یہاں ویلیم ورڈ ورتھ، ایلمی بورتھ، چرچل، نپولین، ابراہم لنکن تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن ہمارے قومی رہنمائوں، ہمارے شہدا کی تاریخ کا مختصر خلاصہ بھی نہیں بتایا جاتا۔ ملک میں ایک بار پھر قصاص، نجات اور احتساب کے نام سے تحریکوں کا آغاز کیا جا چکا ہے، لیکن ماضی گواہ ہے کہ یہی خاندان پہلے بھی عوام کو ایندھن بنا کر تحریکیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں آج بھی یہ خالص سیاسی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دوغلی سیاست کر رہی ہے، ن لیگ کی بڑھکوں کے مقاصد کیا ہمیں اب بھی نظر نہیں آ رہے، آئی ایم ایف کے بعد چین اور ترکی سے قرض لے ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے تو ابھی تک عوام کو بجلی و گیس بحران سے نہ نکال سکے۔ رہی سہی کسر صحت، صاف پانی اور علاج کی بنیادی سہولیات چھین کر پوری کر دی گئی۔ ایسی صورت حال میں عوام یہ پوچھنے میں تو حق بجانب ہیں کہ رواں سال ہم نے 70 واں یوم آزادی تو منایا، کیا ہمارے کرپٹ، کمیشن خور سیاستدان بتائیں گے کہ قوم ان زر خرید غلاموں سے کب آزاد ہوگی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments