جب جج شہید ہوں گے اور سپریم کورٹ بند ہو جائے گی!


اسی کارروائی کے دوران جسٹس گلزار احمد نے اس بات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ مسلح افواج کے زیر انتظام چلنے والے شادی ہالوں کا منافع شہیدوں کے بچوں اور اہل خاندان کی بہبود پر صرف ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جسٹس گلزار احمد اور اٹارنی جنرل کا مکالمہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ جسٹس گلزار کی طرف سے سرکاری زمین کو الاٹ کرنے کے بارے میں فوج کے اختیار پر کئے گئے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ ہمیں اس کا علم نہیں اور نہ ہی اس کا ریکارڈ موجود ہے‘۔ اس پر جسٹس گلزار نے فرمایا کہ ’ کراچی میں تمام پارک اور کھیل کے میدانوں پر قبضہ کرکے انہیں شہیدوں سے منسوب کردیا گیا ہے۔ شہیدوں کے معاملے میں ہم دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ میں بھی ایک روز شہید ہوجاؤں یا مار دیا جاؤں‘۔ اٹارنی جنرل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرشہیدوں کو اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے تو شہید بننے کے لئے کئی شرائط بھی پورا کرنا پڑتی ہیں‘۔ جسٹس گلزار نے اس وضاحت پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’ آپ کا مطلب ہے کہ میں شہید بھی نہیں ہو سکتا؟ ہم تو پیدا ہی شہید ہونے کے لئے ہوئے ہیں‘۔

جسٹس گلزار احمد کے ان ریمارکس کا زیر بحث معاملہ سے تعلق سمجھنا بعید از قیاس ہے۔ کیا وہ یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جو بھی شخص خواہ وہ سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج ہی کیوں نہ ہو،ملک میں فوج کی من مانی اور بالادستی پر بات کرے گا تو اس کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس تبصرہ کو اگر ملک میں لاپتہ افراد کے تنازع اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے تناظر میں سمجھا جائے تو انسانی حقوق اور اداروں کی سرکشی کے حوالے سے تکلیف دہ صورت سامنے آتی ہے۔ جب سپریم کورٹ کا جج اس پس منظر میں فوج کے ناجائز تصرف کا ذکر کرتے ہوئے اپنے شہید ہونے یا مار دیے جانے کی بات کرتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ جسٹس گلزار احمد کو اس بات کی وضاحت کرنا چاہئے۔

سپریم کورٹ کا جج جب اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ’ہم تو پیدا ہی شہید ہونے کے لئے ہوئے ہیں‘ تو بھی ملک کے موجودہ سماجی و معاشرتی اور سیکورٹی حالات کے تناظر میں اس کے معانی سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں شریعت نافذ کروانے کی خواہش رکھنے والے یا توہین مذہب کی من پسند توجیہ متعارف کروانے اور اس کے مطابق ہر مخالف رائے رکھنے والے کو عبرت کانشان بنانے والے عناصر بھی اپنے عقیدت مندوں سے اسی قسم کی گفتگو کرتے ہیں۔ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے جج کو قانون کے مطابق فیصلے صادر کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی ایسا فقرہ یا رائے قبول نہیں کی جا سکتی جس کی وجہ سے مذہبی انتہا پسندی یا جنونیت کی حوصلہ افزائی کا امکان پیدا ہو۔ بہت سے عناصر ملک کے نوجوانوں کو شہید کے منصب پر فائز ہونے کا فرض یاد دلاتے ہوئے گمراہ کرنے کے کام میں مصروف ہیں۔ کیا یہ قبول کیا جاسکتا ہے کہ عدالتوں کے جج اپنی گفتگو کے دوران اس قسم کے پروپیگنڈا کو جائز قرار دینے کا سبب بنیں؟

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں اس ڈرامائی کارروائی کا پس منظر سپریم کورٹ کا یہ حکم ہے جس کے تحت عدالت شہر کے 1960 کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد چاہتی ہے۔ اس فیصلہ کے مطابق جو عمارتیں بھی اس پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی گئی ہیں انہیں گرایا جائے گا۔ اسی طرح اس فیصلہ کے تحت عسکری و دیگر اداروں کے زیر انتظام چلنے والے شادی ہالوں کو گرانا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ طے کیا گیا ہے کہ یہ سب تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں۔

عدالت کا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی ہو گا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں کراچی جیسے تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر کے معروضی حالات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس فیصلہ پر مکمل عمل درآمد کے نتیجہ میں 500 سے زائد عمارات گرانا پڑیں گی اور متعدد آبادیاں متاثر ہوں گی۔ سوال تو صرف اتنا ہے کہ کیا شہری منصوبہ بندی بھی اب عدالتی فیصلوں کی محتاج ہوگی۔ یا پچاس ساٹھ برس پہلے بنایا گیا ماسٹر پلان کراچی کی موجودہ ضرورتیں پوری کرسکتا ہے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کئے بغیر بے رحمی سے عمارتوں کو گرانے کا حکم صادر کرنا بجائے خود عدالتی دائرہ کار، اختیار اور صوابدید پر سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔

کراچی کی صورت گری ہونی چاہئے لیکن سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنے سوا باقی سب اسٹیک ہولڈرز کو بے ایمان اور بدعنوان قرار دینے کا اختیار بھی نہیں دیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali