پاک ترک اسکول: دوستی کا امتحان


\"salar\"بدقسمتی سے پاکستان میں مجموعی طور پر تعلیم کا شعبہ اس سطح پر ترقی سے محروم رہا ہےجس کسوٹی پر دنیا ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے تعلیم کی تقاضا کرتی ہے جس کے باعث ہمارے ملک میں سرکاری تعلیمی ادارے اقربا پروری کی بدترین منظر کشی کرتے ہیں۔ ہاں البتہ اگر کسی حد تک مذکورہ شعبہ میں کوئی کام ہوتے دکھائی دیتا بھی ہے تو وہ محض شہری علاقوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ چنانچہ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی نہ ہونے کے مترادف ہے۔ ملک میں تو چند ہی ایسے مقامات ہوں گے جہاں بہتر تعلیم کے حصول کے لئے ملک کے پسماندہ علاقوں سے بہت بھاری تعداد میں طلباء کے ہجوم لگے رہتے ہیں اور یہ رجحان اس تاثر کو غلط ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں بسنے والے لوگ خاص طور پر نوجوانوں میں تعلیم حاصل کرنے کی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی حکومتوں کی تعلیم کے شعبہ میں عدم دلچسپی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ حکمرانی ایوان سے منسلک ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کی ترجیحات میں تعلیم شامل ہی نہیں ہے جس کا بھرپور فائدہ نجی اسکولوں کے مالکان نے اٹھایا ہے اور آج ہم اس نہج پر پہنچے ہیں کہ جہاں نجی اسکول کے مالکان اپنی من مانی پر آتے ہیں تو حکومتیں بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے ہاں نجی اسکولوں پر نظر رکھنے کے لئے کوئی ریگیولیٹری اتھارٹی نہیں بن سکی کہ جو اسکول مالکان کے ہتھکنڈوں سے والدین کو آزاد کروا سکے جس کے باعث آئے دن نجی اسکول کے مالکان حکومتی مراسلوں، احکامات و اعلانات کو ٹھکرا دیتے ہیں اور ہم ان حالات کو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔

پاکستان میں مافیا کا راج اس حد تک مضبوط ہے کہ جس کے سامنے گورنر جیسا منصب بھی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔ نجی اسکول مالکان کی ہٹ دھرمی کو دیکھ کر بھی اس بات کا اندازہ لگ ہی جاتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت آج تک اس کے خلاف اقدامات اٹھانے سے گریزاں رہی ہے چاہے وہ مسلم لیگ کی ہو یا پھر پیپلزپارٹی کی لیکن نجی اسکول مالکان کے خلاف قانون سازی کرنے سے حکمرانوں کا قاصر رہنا کہیں اس بات کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہا کہ اس مافیا کے ساتھ بھی حکمرانوں کی گٹھ جوڑ کا کوئی سلسلہ بنا ہوا ہے جس کے باعث حکومت ان کے خلاف مؤثر کارروائی عمل میں لا سکتی ہے نہ تعلیم کے شعبہ میں جدت کے حوالے سے ان کے پاس کوئی پروگرام ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ یہ تو خدا ہی جانے لیکن اس عمل میں پاکستان کے اندر مقامی باشندوں کے ہمراہ بین الاقوامی این جی اوز نے بھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے ہیں۔

ان دنوں پاکستان و ترکی کے سفارتی حلقوں میں پاک ترک اسکول سسٹم کی بندش کی بازگشت بہت عام ہو چکی ہے جس کے بعد ملک کے بیشتر شہروں میں پاک ترک اسکول کی انتظامیہ متحرک ہو گئی ہے۔ یہاں ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان اسکولوں کی متوقع بندش کے چرچے ہونے کے بعد اسکول کے طلباء یا ان کے والدین کی جانب سے کوئی ردِ عمل نہیں آیا تھا۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ اسکول کی طرف سے والدین اور طلباء کو بذدریعہ موبائل فون پیغامات بھیج کر اس بات پر آمادہ کیا گیا تھا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور ہر ممکن فورم پر اس فیصلے کے خلاف اپنا احتجاج رکارڈ کروائیں تاہم اس انتباہ کے بعد بھی والدین کی طرف سے کوئی خاص احتجاج نہیں دکھائی دیا تھا۔ ترک حکومت کے الزامات تو اپنی جگہ لیکن جب تنظیم برائے اسلامی تعاون نے فتح اللہ گولن کی تنظیم کو دہشتگرد قرار دیا تو اس کے بعد فوری طور پر پاک ترک اسکول سسٹم کی جانب سے پاکستان میں اعلامیہ جاری کیا گیا کہ گولن کی تنظیم حزمت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر حقیقت میں بھی ایسا ہے تو پھر اسکول انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد کے کچھ سیکٹرز میں قائم ان کے ہاسٹل نما ہاؤسز میں ماضی میں میلاد کی محافل کے دوران پاکستانی طلباء کو امریکہ سے وڈیو لنک کے ذریعے فتح اللہ گولن جو خطابات کرتے رہے ہیں ان کا جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ بعض اوقات انہی اسکولوں میں طلباء کے درمیان فتح اللہ گولن کے مذہبی کتب بھی تقسیم کئے جا چکے ہیں جن میں سے ذرائع کے مطابق بچوں سے امتحانات بھی لئے جاتے ہیں اور اس تنظیم کا ایک مخصوص فرقہ کی جانب جھکاؤ بھی آج تک سمجھ میں نہیں آسکا۔

دیکھا جائے تو اسکولوں کی داخلہ پالیسی بھی ایک مخصوص طبقہ کے لوگوں کی پہنچ تک ہی محدود ہے جہاں غریب والدین اپنے بچوں کی داخلہ کا سوچ بھی نہیں سکتے تاہم اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ اس اسکول کے واجبات بھی ضرورت سے بہت زیادہ ہیں جن کے مطابق کے جی کلاس کی دو ماہ کی فیس 21000 روپے ہے جبکہ تیسری جماعت کی فیس 23000 روپے ہے جو کہ تقریبن لوئر مڈل کلاس کے والدین کے لئے بھی برداشت کرنا مشکل ہے اور ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب سے ترک حکومت نے گولن اور اس کی تنظیم کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا ہے تب سے ایک تو اسکول انتظامیہ نے فیس کی وصولی کے لئے والدین کو پریشان کرنا شروع کر دیا ہے اور جو والدین کسی مجبوری کے تحت فوری طور پر فیس ادا کرنے سے قاصر ہیں ان کو مختلف وارننگز بھی دی جارہی ہیں جس سے والدین کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ طلباء کی کتب و یونیفارم بھی اکثر و بیشتر اسکول کے علاوہ کہیں سے نہیں ملتے اور اسکول میں انتہائی مہنگے داموں پر فروخت کئے جاتے ہیں۔

ہو سکتا ہے ترک صدر رجب طیب اردگان کے فتح اللہ گولن کے اوپر لگائے گئے الزامات ذاتی بنیادوں پر ہوں جن کا حقیقت سے دور تلک کوئی تعلق نہ ہو جس کے باعث بغیر تحقیقات کے حکومتِ پاکستان کا ان اسکولوں کو بند کرنا ان کے ساتھ زیادتی بھی ہو سکتی ہے۔ ماضی میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں پر کڑی نظر رکھنے کے بھی اعلانات کئے تھے جو دھرے کے دھرے ہی رہ گئے لیکن وقت اس بات کی حکومتِ وقت سے تقاضا کر رہا ہے کہ جو بھی فیصلہ کرے وہ سوچ سمجھ کر اور تحقیقات کے بعد ہی کرے لیکن دوسری جانب یہ بھی بہت ضروری ہے کہ بین الاقوامی تنظیم اور خاص طور پر ایک ایسی تنظیم جس کے اوپر دہشتگردی کے سنگین الزامات ہوں اس پر نہ صرف نظر رکھے بلکہ اپنے طور پر تحقیقات کا بھی آغاز کرے کیونکہ تعلیم ہو، صحت یا پھر غربت کی بڑھتی ہوئی شرح لیکن ان ناموں کے جھانسوں میں اب اس ملک میں مزید کسی آزمائش کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments