ہمارے سوال کا گلا نہ گھونٹا جائے


\"drسانحہ کوئٹہ کے پہلے دن سے آج (دسویں دن) تک سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی آمد جاری ہے۔ یہ ٹولے باجماعت آتے رہے، سانحے کی خوب مذمت کی، لواحقین سے ہمدردی جتائی، شہدا کی روح کی ایصال ثواب کے لئے دعائیں کیں، کوئٹہ اور آس پاس کے کچھ شہدا کی فاتحہ پر بھی گئے، اس سفاکی کے پیچھے متحرک ہاتھ ٹوٹ جانے کی بددعائیں بھی دیں اور کسی حد تک ذمے داری بارڈر سے باہر یا اندر اپنے کسی دیرینہ یا موجودہ سیاسی حریف کے گلے ڈال کر رفو چکر ہو گئے۔ آخری سیاسی ٹولے نے 15 اگست کو اپنا دورہ مکمل کیا۔ لے دے کر ایک ہی انداز سے سب آئے اور چلے گئے۔

البتہ وہ سیاسی زعما اور تنظیمیں جن کے ووٹ بینک کا معاملہ پشتونوں سے آن پڑا ہے جو کہ بلاشبہ اس سانحے سے نسبتاً زیادہ متاثر ہوئی ہیں، انہوں نے کوئٹہ کے اس سانحے کی غیر سطحی چانچ پڑتال کی ضرورت محسوس کی ہے۔ محمود خان اچکزئی نے نظریہ سازش کو رد کرتے ہوئے اندرونی دشمن کی موجودگی کا جس یقین سے اور کھرے الفاظ میں ذکر کیا اس نے پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک مرتبہ پھر ایک عارضی بھونچال پیدا کیا ہے۔ اس معاملے سے اس امر کی خوب وضاحت ہوئی کہ محکوم اور نظر انداز اقوام کے عوامی نمائندوں سمیت اکثر جمہوری پارٹیاں اس طرح کے بیانات کو سیاسی مہم جوئی سمجھتے ہیں، دہشت گردی کو آسمانی اور غیر انسانی مسئلہ سمجھ کر وہ گوشے میں ہی عافیت جانتے ہیں اور جانتے رہیں گے۔

بجز چند عوامی نمائندوں، سول سوسائٹی اور ایک دو صحافیوں کے باقی سب یا تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے یا پھر شیخ رشید کے فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے ان کو غدار ٹھہرایا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جمیعت علما اسلام کے مرکزی رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا شیرانی نے محمود خان اچکزئی سے بھی پہلے جو بیان جاری کیا اس میں سنجیدگی اورسختی دونوں کی حرارت محسوس کی جاسکتی تھی۔ شاید تاریخ میں پہلی دفعہ مولانا فضل الرحمٰن، اچکزئی صاحب کے ساتھ صف میں کھڑے دکھائی دیے (اگرچہ صف سے آگے کھڑا ہونا اپنا حق منصبی سمجھتے ہیں)، ان کو غدار کہلانے والوں کو چپ کرانے کی کوشش کی، اور خود بھی مصلحت کے دبیز پردوں میں وہی کچھ کہہ ڈالا جو محمود خان نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا۔اس قضیے کا غالبا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر عوامی نیشنل پارٹی ہے، جس کی قیادت اور مرکزی نمائندوں نے بھی کھلے بندوں اس سفاکی کی مذمت کی۔

گذشتہ تین دنوں سے کوئٹہ کے اکلوتے پر سہولت ہوٹل میں قیام پذیر ان لیڈران نے جا بجا جو غیر رسمی بات چیت کی ہے اور جس میں سے چند ایک کا موقف سوشل میڈیا پر بھی نشر ہوتا رہا ہے، اس سے اس بات کی امید بڑھ گئی ہے کہ بالاخر وہ مل کر ایوان اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ سے ایک ہی سوال کریں گے۔ یہ سوال بس اتنا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ دہائی میں پاکستان میں صرف پشتونوں ہی کی نسل کشی کیوں کی جا رہی ہے؟ ہندوستانی ایجنسی را کو پشاور اور کوئٹہ سے قریب تو لاہور ہی پڑتا ہے، افغانستان کی ایجنسی ایسے علاقے کیوں کر کھنڈرات میں تبدیل کریں گی جن پر وہ اپنا حق ملکیت جتاتی ہوں۔ اگر یہ ایجنسیاں ہی ذمہ دار ہیں تو پھر ہماری ایجنسیاں کہاں ہیں، ہمارا مدافعتی نظام وہاں ہی کیوں کمزور پڑ جاتا ہے جہاں کوئٹہ یا پشاور کے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، پارکوں اور کھیل کے میدان آجاتے ہیں؟ شاہد ان کا سوالنامہ ایسا ہی ہو لیکن یہ ایسے ہی سولات ہیں جو محمود خان اچکزئی اور مولانا محمد خان شیرانی دونوں قومی اسملی میں اٹھاتے رہے ہیں جس پر انہیں کبھی بھی باقی ماندہ قوم پرست یا مذہبی پارٹیوں کی اعانت نصیب نہیں ہوئی۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سنئیر رہنما نے بھی حالیہ دورے میں یہی کہا ہے کہ آج پشتونوں کی نسل کشی کے سوال کو اٹھانے کی گھڑی آن پہنچی ہے، اس ضمن میں مزید غفلت سیاسی تنظیموں اور قیادت کی ساکھ اور جواز دونوں کے لئے ایک سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔ اگرچہ ان پارٹیوں نے سینکڑوں نوجوان کارکنوں کی قربانی دی ہے، انہیں سیاسی اور سماجی طور پر ہراساں کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے، لیکن پھر بھی ان کھٹن حالات میں ان کی تنظیمی ذمہ داریاں کم نہیں ہوتیں۔

اگر آج یہ سوال نہیں اٹھایا گیا، جبر، سفاکی اور نسل کشی کی استبدادی اور جبری حقیقتیں یوں ہی پشتونوں کی مقدر بنی رہیں، وہ سماجی طور پر غیر ترقی یافتہ اور سیاسی طور پر منقسم رہے تو وہ دن دور نہیں جب یہ حالات ایک اور طرز کی قیادت کو جنم دیں گے جس میں شاید پارلیمانی سیاست یا جمہوری طرز کی ادارہ سازی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ خاکم بدہن! یہ ایک غیر معمولی متشدد اور جارحانہ طرز کی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتا ہے جو کسی بھی متشدد مذہبی جماعت کے استعمال میں آسکتا ہے۔ یا یہ ان بیرونی ہاتھوں میں جا سکتا ہے جن پر بارہا ہر دھماکے اور قتل و غارت گری کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔ آج بس ایک سوال کا سوال ہے، اگر صحیح طرح سے پوچھ لیا جاتا ہے تو جواب کے سرے ملنا شروع ہو جائیں گے۔ بات صرف پشتونوں کی قتل و غارت گری پر نہیں رکے گی، آج اس سوال کا پھر سے اعادہ ہوگا کہ پاکستانی فیڈریشن میں حصے دار تمام محکوم اور نظرانداز قومیتیں جب تک ایک منظم آواز نہیں اٹھاتیں، تب تک اپنا حق ماننے والا یا اپنے بچوں کے قاتل کا نام پوچھنے والا ہر پاکستانی غدار ٹھرایا جائے گا۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے اصل پاسبان شیخ رشید، اوریا مقبول جان، زید حامد، وغیرہ ہی تصور کئے جائیں گے، اور قوم تعبیر کے معراج پر فائز ہو جائے گی، قاتل مقتول کے کسی بھی ممکنہ جارحیت سے بے فکر ہو کر اپنی کارروائی کرتا رہے گا۔

آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے یہی اور اس طرح کے کئی سوالات بھٹکتی ہوئی آتماؤں کی طرح ہمارا پیچھا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہر وہ سوال جس کا تسلی بخش اور سنجیدہ جواب نہیں ملتا ہمارے اجتماعی لاشعور میں بلبلاتا ہوا گھر کر جاتا ہے اور ڈیرا ڈال دیتا ہے، کبھی خواب میں بصیرت کے پردے پر نمودار ہوتا ہے اور ہمیں ڈراتا ہے، کبھی اجتماعی زیادتوں کی صورت میں ہمارے قومی چہرے پر پھوڑا بن کر نکلتا ہے، اور کبھی گدھوں کا گوشت کھلانے کے معاملے میں سر اٹھا لیتے ہیں، اور جب سوال بہت بڑے ہوں، بنیادی نوعیت کے ہوں تو کوئٹہ اور پشاور کے سانحے کی صورت اختیار کرجاتے ہیں جو ہمیں یک گونہ بیگانگیت، عدم تحفظ، شک اور بے یقینی کے نفسیاتی کرب اور روحانی اذیت میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments