بھارتی جیل میں قید پاکستانی قیدیوں کی اندرونی کہانی


پاکستان کا جذبہ خیر سگالی۔ بھارت کو تحفوں میں لاشوں کا نذرانہ

بلوچستان کی ساحلی پٹی سے ماہی گیروں کو شکار سے روک دیا گیا

پاکستان میں ایک سفید پوش طبقہ ماہی گیری ہے جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک نسل در نسل عرصہ دراز سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے اگر بات کی جا ئے اس پیشے سے منسلک افرادکی تو پاکستان میں ماہی گیری سے وابستہ افراد کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ ٹن سے زائد مچھلی پکڑی جاتی ہے جس کی مالیت کا اگر تخمینہ لگایا جائے تو ان بر آ مد شدہ مچھلیوں کی قیمت 12 ارب سے زائد کی بنتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ماہی گیروں کی 10 لاکھ سے زائد آ بادی موجود ہے۔

رواں سال وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اعلان کے بعد حالیہ دنوں میں پاکستان میں خیر سگالی کا ایک نیا جذبہ بیدار ہوا ہے۔ گذشتہ چھ ماہ کے دورانیے میں پاکستان نے 360 بھارتی ماہی گیر رہا کر دیے ہیں پاکستان کے اس اقدام پر بھی بھارت کی جانب سے کسی قسم کا کوئی خاص جواب سامنے نہیں آ سکا ہے البتہ بھارتی حکام کی جانب سمندری حدود کا تعین نہ ہونے پر غلطی سے بھارتی حدود میں داخل ہونے والے 2 ماہی گیروں کی تشدد زدہ لاشیں بھیجی گئیں ہیں۔

اس وقت بھارتی جیل میں قید پاکستان کے 108 ماہی گیر موجود ہیں جن کی رہا ئی سے متعلق حکومتی جانب سے کسی قسم کے کوئی اقدامات نہیں کیا جا سکے ہیں۔ (اگر بات کی جائے گذشتہ پانچ سالوں کی تو 2013 سے 2018 پاکستان کی جانب سے جانب سے بھارت کے 4 ہزار سے سے زائد ماہی گیر رہا کیے گئے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے ان پانچ سالوں میں صرف اور صرف 272 پاکستانی ماہی گیروں کو رہا گیا ہے ) ۔ عمومی طور پر بھارتی جیل میں زندگی کی بازی ہارنے والے ماہی گیروں کو بھارتی حکام کی جانب کئی ماہ تک بھارت میں موجود سرد خانوں میں رکھا جاتا ہے بعد ازاں پاکستان کی جانب سے دستاویزات فراہم کرنے پر ان کی لاشوں کو واہگہ بارڈر سے پاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے۔

پاکستان سے مچھلیاں پکڑتے بھارتی حدود میں داخل ہو نے والے ماہی گیروں کواکثر و بیشتر بھارت کی جانب سے منظر عام پر نہ لانے کے واقعات کئی مرتبہ رونما چکے ہیں جن کی بھارتی تحویل میں موجودگی سے متعلق طویل عرصہ گزر جانے کے بعد پاکستان حکام کو آ گاہ کیا جاتا ہے۔ نیز پاکستان کے جذبہ خیر سگالی کے جواب میں بھارتی جارحیت کی نشاندہی پاکستان پہنچنے والے دو ما ہی گیرجن میں محمد سہیل ولد عبد الرشید، نور الامین ولد مفجل احمد کی تشدد زدہ لاشوں نے کردی ہے پاکستان میں بھارتی قیدیوں کے مد مقابل میں بھارتی جیل میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 20 فیصد پائی جاتی ہے۔

اگر بات کسی جائے سابقہ حکومتوں کی تو سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا وہ واحد دور تھا جب بھارتی جیل میں پاکستان کا ایک بھی ماہی گیر نہیں پایا جاتا تھا بلکہ سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کوسمندری راستوں سے ہی ان کے ملک کے ذمہ داران کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ 2005 میں دونوں ملکوں کے سیکیورٹی خدشات کے باعث نیا نظام نافذ ہوا جس کے تحت سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ماہی گیروں کاسامان اور لانچیں ضبط کی جانے لگیں جس کے بعد بھی پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کو اپنے شعار کا حصہ بناتے ہوئے 2015 میں بھارت کی ضبط کی گئی 57 لانچیں بھارتی حکام کے حوالے کر دیں جس کے بعد بھی بھارت کے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی سامنے نہیں آ سکی ہے اس وقت بھارتی تحویل میں پاکستان کی 132 لانچیں موجود ہیں جن کی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے۔

پاکستان کے بھارت میں قید 108 ماہی گیر موجود ہیں جو غلطی سے سمندری حدود کا تعین نہ ہونے پر بھارت پہنچ گئے ہیں جن میں اسامہ، محمد ز ما، عثمان، عبد الر رشید، محمد عمر، عابد علی، ابراہیم، محمد رضوان، محمد جمیل، عبد الحق، وزیر علی گوپانگ، محمد حسین، شبیر احمد، عبد السلام، محمد ہارون، محمد نواز، صدام، عبد المجید، وحید ڈنو، محمد رفیق، رشید احمد، عبد المجید، محمد یونس، ساجد حسین، محمد اسماعیل، نور افسر محمد، محمد طاہر اللہ، محمد رمضان میر بہار، مبارک چکائی، دیدار، مجید ملاح، اصغر میر بہار، اکبر پڑہری، محمد رمضان میر، نواز ملاح، رستم ملاح، علی بخش، میر بہار، وحید بخش ملاح، علی حسن، علی محمد، حاجی رحمت اللہ، وزیر علی سولنگی، مقبول سولنگی، عثمان، محمد جمن لالو ملاح، میٹھان جٹ، غلام مصطفی، پرویز احمد ملاح و دیگر شامل ہیں۔

دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کی ایک دوسرے کی سمندری حدود میں داخل ہونے سے متعلق قوانین بنا ئے گئے ہیں جس کے تحت ان کے لیے 3 ماہ کی سزا مختص کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی دونوں ملکوں کے مابین آپس کے تعلقات بہتر نہ ہونے کے سبب حکمرانوں کی غفلت کی سزا ماہی گیر ی سے پیشے سے منسلک افراد بھگتنے پر مجبور ہیں جنہیں سزاکی میعاد مکمل ہونے پر بھی طویل عرصے تک جیلوں میں قید میں رکھا جاتا ہے۔

پاکستان میں ماہی گیری کے دوران غلطی اور سمت کا تعین نہ ہونے کے پیش نظر بھارت کی حدود میں داخل ہونے کے زیادہ تر واقعات کے ٹی کی بندرگاہ پر پیش آ تے ہیں جس سے متعلق ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر مچھلیاں بلوچستان کے ساحلوں پر پائی جاتی ہیں تاہم سی پیک منصوبوں کی سخت سیکورٹی اور بلوچستان کے ساحل گوادر، پسنی اور اوڑماڑہ کے باشندوں کے سمندروں پر قبضے کے باعث ان سے بلوچستان کے ساحلوں پر شکار کے لیے ایک خطیر رقم کا تقاضہ کیا جاتا ہے جنہیں وہ دینے سے قاصر ہیں۔ اس بنا ء پر ماہی گیروں کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی آ بادی کے ٹی کی بندرگاہ کا رخ کرتی ہے جس کے پیشِ نظر اکثر و بیشتر ماہی گیرغلطی سے سمت کا تعین نہ ہونے پربھارت پہنچ جاتے ہیں۔

کی ٹی بندرگار سے بھارتی حدود میں داخل ہونے والے اور پانچ سال تک بھارتی جیل میں قید کی سزا کاٹنے کے بعد پاکستان واپس آ نے والے ماہی گیر عامر حسین کا کہنا تھاکہ 2013 کی ایک شام جب میں اپنے بیٹے شبیر احمد سمیت 7 ساتھیوں کے ہمراہ کھلے سمندر میں ماہی گیری مصروف تھی تو اچانک انہیں دوسری سمت سے آ نے والی پاکستانی لانچ نے مدد کے لیے پکارا جس کی مدد کی نیت سے قریب جاتے ہیں انہیں بھارتی نیوی کی جانب سے پکڑلیا گیا تھا اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد بھارت منتقل کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی نیوی کی جانب سے انہیں سمندر کے جس احاطے سے گرفتار کیا گیا وہ پاکستان کے زمرے میں آ نے والا حصہ تھا جہاں بھارتی نیوی کی جانب سے پاکستانی نیوی کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں گرفتار کیا گیا عامر حسین نے مزید بتایا کہ جس پاکستان لانچ کی جانب سے انہیں اشارہ دیا گیا تھا اس میں بھارتی تحویل میں لیے گئے پاکستانی ماہی گیر پہلے سے ہی موجود تھے جس کا فائدہ بھارتی نیوی کی جانب سے دھوکے کی صورت میں اٹھایا گیا بعد ازاں انہیں 2018 میں رہا کر دیا گیا لیکن بھارتی پالیسی کے کے مطابق ایک خاندان کے دو فرد کو رہا نہ کرنے پر آ ج بھی ان کا بیٹا شبیر حسین بھارتی جیل میں بنا کسی جرم قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔

جیل میں گزارے ہوئے ایام سے متعلق ماہی گیر عامر حسین کا کہنا تھا کہ بھارت میں دن کے تینوں اوقات انتہائی کم مقدار میں کھانا دیا جاتا ہے جبکہ ایک فرد کے مطابق زیادہ کھانے کا تقاضہ کرنے پر ان سے بد سلوکی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا کا ان کا مزید کہنا تھا بھارتی جیل حکام کی جانب سے کھانے میں کچھ ایسی اشیا ء کی ملاوٹ بھی کی جاتی تھی جس سے ان کا ذہن مسلسل سویا رہنے کے ساتھ ساتھ پورے دن ایک سکتا طاری رہتا تھا۔

بھارتی جیل سے متعلق عامر حسین کا اہم انکشافات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارت کی جیل میں پاکستانی ماہی گیروں کی الگ بیرک موجود ہے یہ بات کہنا قطعی درست نہیں بھارتی جیل میں ماہی گیر ایک دوسرے کے تشدد سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ آ ج پاکستانی ماہی گیروں کی بھیجی جانے والی لاشیں بھارتی اوچھے ہتھکنڈوں اور غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان کے جذبہ خیر سگالی کے جواب میں بھارت کی جانب سے منفی جوابات ملنے پر جہاں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں وہیں چیئر مین فشر مینز کوآپریٹو سو سائٹی عبد البر کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان کی کاوشوں کے باعث متعدد ماہی گیر بھارتی قید سے رہائی پانے کے بعد اپنے وطن میں آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں بھارتی حکام کی جانب سے 2 پاکستانی ماہی گیروں کی لاشوں کی وطن واپسی میں بھی ایف سی ایس کے چیئر مین کا کردار ابھر کر سامنے آ یا ہے نیز ان کی جانب دونوں ماہی گیروں کے خاندانوں کی ما لی امدادکی گئی ہے جس کی بنیادی ذمہ داری حکومت نمائندوں پر عائد ہوتی تھی۔

ایف سی ایس کا عملہ بھارتی جیل میں قید پاکستا نی ما ہی گیروں کی وطن واپسی کے لیے دن رات کو شاں ہے اور ہر وہ ممکن اقدامات اٹھانے میں مصروف ہے جس کے ذریعے بھارتی تحویل میں موجود پاکستانی ما ہی گیروں کی رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بحفاظت وطن واپسی کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ وہ عید اپنے پیاروں کے ہمراہ منا سکیں۔

پاکستان وزراتِ خارجہ کا ماہی گیروں کی بھارتی تحویل پرکردار نہایت مایوس کن دکھا ئی دیتا ہے۔ ایک جانب جہاں پاکستان جذبہ خیر کی خیر سگالی کی نیت ملک میں دہشتگردی کی نیت سے داخل ہونے بھارتی پائلٹ ابھی نندن سمیت پاکستان کی سمندری حدود میں غلطی سے داخل ہونے والے ماہی گیروں کو پے در پے سہی سلامت رہا کرنے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے تو دوسری جانب سے بھارتی حکام جذبہ خیر سگالی کے جواب میں مسلسل لاشوں کے تحفے بھیجنے میں مصروف ہے۔

ایک جانب جہاں پاکستان کے جذبہ خیر سگالی کے اقدام کو بین الاقوا می سطح پر پذیرائی حاصل ہو رہی ہے تو دوسری جانب سے بھارت کو ان تمام تر حلقوں سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارتی تحویل میں موجود پاکستانی ماہی گیروں کے اہلخانہ آ ج بھی بھارت کے جذبہ خیر سگالی کے منتظر دکھا ئی دیتے ہیں اور پاکستانی حکام کے ایسے اقدام کا انتظار کر رہے ہیں جس کے ذریعے ان تمام ماہی گیروں کو بحفاظت وطن واپس لایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).