حکومت چلانے اور باتیں بنانے میں فرق ہے!


فلم نیا پاکستان کے رائیٹر، پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور اداکار اب بھی بضد ہیں کہ وطن عزیز میں گذشتہ نو ماہ سے نظم اجتماعی کے نام پر بد نظمی، آپا دھاپی، معاشی زبوں حالی، بے ترتیبی، اقربا پروری، دھونس، دھاندلی، گالم گلوچ، سیاسی مخالفین کی کردار کشی، بے یقینی، نفسانفسی، مہنگائی، بے روزگاری اور ابتری کا جو سلسلہ چل رہا ہے عوام اس پر حکومت کی تہمت دھریں اور صوبائی و وفاقی اداروں کی بدترین کارکردگی کو حکومت کے چلنے سے تعبیر کیا جائے۔

اس حکومت اور اس کے چلنے پر ہمیں ایک مختصر لطیفہ یاد آیا ہے۔ ایک غیر تربیت یافتہ شخص نے ایک شخص پر اپنی کار چڑھا دی۔ اسے زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ جب آپ کو پتہ تھا کہ ایک اناڑی گاڑی چلا رہا یے تو آپ سڑک چھوڑ کر دور ہٹ جاتے۔ اس پر زخمی شخص نے کراہتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! میں تو پارک میں لیٹا ہوا تھا۔

کپتان صاحب کی حکومت بھی اگر اسے حکومت کہا جاسکتا ہے تو ایسے ہی چلائی جا رہی ہے جیسے وہ شخص کار چلا رہا تھا۔ ویسے جس طرح کابینہ سے عوام کے منتخب نمائندوں کو فارغ کر کے کپتان کو اطلاع دیے بغیر ہی عالمی مالیاتی اداروں کے بزرجمہروں کو کلیدی عہدوں پر متمکن کیا جا رہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ مرزا غالب نے یہ مصرع عمرانی حکومت کے بارے میں ہی کہا تھا کہ: ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

ویسے تاریخ اقوام عالم میں آج تک کسی مخلص، منتخب، محب وطن، عوام دوست، ہمدرد، بے لوث اور صحیح الدماغ حکمران نے خواہ وہ نمائشی اور فرمائشی ہی کیوں نہ ہو یہ بڑھک نہیں ماری کہ کارِ حکمرانی آسان ہے۔ سب جانتے ہیں فلم نئے پاکستان کی ٹیم نے اس حکومت کو لانے کے لیے جو کاری گری، صناعی اور ہنر مندی دکھانے کی کو کوشش کی تھی وہ شروع دن سے ہی ہر ایک پر واضح ہو گئی تھی۔ انجم عقیل، حنیف عباسی اور قمر الاسلام پر نیب کو چھوڑ کر اسد عمر، شیخ رشید اور چودھری نثار جیسے مہروں کو جس طرح جتوایا گیا، اس فراڈ اور فریب کی قلعی بھی کھلتی جارہی ہے۔

کپتان اور اس کے حامیوں کو یہ زعم ہے کہ ان کی حکومت چل رہی ہے حالانکہ ڈرائیونگ سیٹ پر خلائی و ماورائی طاقتیں براجمان ہیں۔ اس سے پہلے بھی ان طاقتوں کی عملداری کم یا زیادہ ضرور رہی ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ ان کے بارے میں تاثر صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق تھا۔ مگر اس بار یہ طاقتیں غیبی قوتوں کے ساتھ مل کر یوں کھل کھیلی ہیں کہ ہر ایک کے لبوں پر جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے والا مصرع ہے۔

کپتان جو موقع بے موقع ریاست مدینہ کی گردان کرتے نہیں تھکتے، ذرا اس ریاست کے ”حکمرانوں“ کی سیرت و کردار کا بھی تھوڑا مطالعہ کر لیں۔ کون چار سو کنال کے محل میں فروکش تھا اور چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے کتنے جہازوں یا اڑن طشتریوں پر سفر کرتا تھا؟ کپتان کو حضرت عمر فاروق رض کا وہ وہ مشہور اور دلگداز قول یاد نہیں کہ جس میں انہوں نے دریائے فرات کے کنارے ایک بھوکے پیاسے کتے کی موت کی جواب دہی بھی خود پر فرض کر لی تھی۔

کپتان اور نہ سہی سانحہ ساہیوال میں یتیم ہونے والی ننھی بچیوں کو ہی انصاف دلوا دیں جو اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑے پریشان چہروں کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے باہر مظلومیت کی تصویر بنی بیٹھی ہیں۔ کپتان صاحب! یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ آپ حکومت چلا رہے ہیں۔ فی الحال تو صرف آپ کی زبان بلکہ بد زبانی چل رہی ہے۔ جس طرح آپ حکومت چلانے کی بے ڈھنگی اور غیر منطقی کوشش کر رہے ہیں ایسے تو کوئی پرچون کی دکان نہیں چلاتا۔ ریڑھی بان اور ٹھیلے والے بھی اس سے بہتر کام چلا لیتے ہیں۔

آپ سے تو کام چلانا بھی نہیں آتا، حکومت چلانا تو دور کی بات ہے۔ موصوف نے اپنے سر پرستوں سے مل کر پورے ملک کو بھی گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم سمجھ کر چلانے کی بھونڈی کوشش کی مگر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس کی قیادت میں ورلڈ کپ کی حادثاتی جیت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ورلڈ کپ تو اور بھی بہت سے ملک جیتے ہیں مگر ان میں سے کسی ملک کو اتنی بھیانک اور خوفناک سزا نہیں ملی۔ کپتان کی ہائی جیک حکومت اور اس کے ہالی موالیوں کے اسے چلانے کا یہی طور رہا تو یقین کریں عوامی غیظ و غضب کے ہاتھوں اس کا چل چلاؤ بہت قریب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).