خزانہ سنبھالنے کمپنی بہادر کا ریزیڈنٹ آ گیا


بعض واقعات تاریخ کا دھارا موڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد برسوں نہیں بلکہ بسا اوقات صدیوں تلک حالات انہی واقعات کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت گزری ہے کہ اگر وہ انگریزوں کے خلاف اپنوں کی بیوفائی کے سبب سے شکست نہ کھا جاتے تو ناصرف کے برصغیر کی تاریخ دوسری طرح تحریر کی جاتی بلکہ عالمی منظر نامہ بھی کچھ اور ہی ہوتا۔

جنگ پلاسی میں کامیابی کے بعد جہاں انگریز برصغیر میں اپنے قدم مضبوطی سے جمانے لگ گئے وہیں پر انہوں نے اس خطے کی سماجی حرکیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اقتدار کو قائم کرنے اور دوام بخشنے کی غرض سے ایک نیا عہدہ تخلیق کیا اور اس عہدے کا نام ریذیڈنٹ رکھا گیا۔ ریذیڈنٹ کی قانونی پوزیشن کو ایک سفارتکار کی تھی مگر یہ صرف کتابوں میں ہی لکھا ہوا تھا۔ جیسے ہمارے ہاں آئین میں سول بالا دستی لکھی ہوئی ہے۔ بہرحال انگریزوں نے برصغیر کے تمام حصوں پر براہ راست حکمرانی کی بجائے دیسی ریاستیں بھی قائم رہنے دیں اور قانون کے اعتبار سے یہ دیسی حکمران، حکمران ہی تھے مگر ان کے ساتھ اپنا ریذیڈنٹ بھی مقرر کر دیا۔

خیال رہے کہ یہ ریذیڈنٹ صرف چھوٹی ریاستوں تک بھی موجود نہیں تھا بلکہ یہ دہلی میں مغل دربار کے شکست و ریخت کے وقت دربار کا حصہ بھی تھا۔ اور 1957 ؁ء سے کہیں پہلے یہ دہلی دربار میں آ چکا تھا۔ ریذیڈنٹ کے اختیارات مختلف ریاستوں میں مختلف تھے مگر ہر ریاست میں مالی امور میں اس کی رائے حتمی ہوتی تھی۔ اور وہ ریاست کی معاشی حالت کا عملاً فیصلہ کرتا تھا۔ جب مالی امور میں وہ بالا دست تھا تو اس کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ دیگر امور میں بھی فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جائے۔

اس ریاست کی خارجہ پالیسی سے لے کر اس کی فوج کتنی ہو گی کیسی ہو گی اور ہو گی بھی کہ نہیں یہ تمام امور بھی اس کے مرہون منت ہوتے تھے۔ ریذیڈنٹ کے ہمراہ اور ریذیڈنٹ کے بغیر ریاست میں کیا فرق تھا اس کو سمجھنے کی غرض سے ریاست میسور کو سمجھنے سے سب سمجھ آ جائے گا۔

ٹیپو سلطان ؒ کے زمانے تک ریاست میسور انگریزوں سے برسر پیکار تھی اور اپنی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھے ہوئے تھی۔ مگر جب 1799 ؁ء میں ٹیپو سلطانؒ کی شہادت ہو گئی تو اس وقت انگریزوں نے ریاست میسور کو ختم نہیں کیا بلکہ وڈیار خاندان کے فرد کو دوبارہ راج گدی پر بٹھا دیا۔ ساتھ ساتھ ریذیڈنٹ بھی تعینات کر دیا۔ ریاست میسور 1947 ؁ء تک قائم رہی مگر درمیان میں جب انگریزوں نے ضروری سمجھا تو 50 سال کے لئے براہ راست قبضہ بھی کر لیا اور پھر جب ضرورت محسوس کی تو انہوں نے وڈیار خاندان کو دوبارہ راجہ بنا دیا۔

کہاں ٹیپو سلطانؒ تک کا دور اور کہاں یہ تماشے۔ حالانکہ ریاست موجود تھی مگر صرف نام نہاد۔ اس دور میں ایسا نہیں تھا کہ برصغیر کے مقامی حکمران یورپی افراد کی صلاحیتوں کے فائدہ اٹھانے کو کوئی اچھوت سمجھے ہوئے تھے مگر جو حکمران آزاد تھے وہ ان کو ایک صرف تجربہ کار کے طور پر ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ جیسے ٹیپو سلطانؒ کے دربار میں فرانسیسی موجود تھے۔ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی افواج کی یورپی افواج کی طرز پر تشکیل کے لئے فرانسیسی جرنل کی خدمات لی تھیں۔

خدمات لینے میں اور خود خادم بن جانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کسی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے مگر اگر یہ فائدہ اس وقت اٹھانے کا اقدام اٹھایا جائے جب یہ صاف نظر آ رہا ہو کہ جن افراد کو تعینات کیا گیا ہے وہ دراصل ان قوتوں کی خواہش پر تعینات کیا گیا ہے کہ جو پاکستان کے معاشی معاملات کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں اور اگر معاشی معاملات کسی کے قبضے میں ہوں گے تو آزاد خارجہ پالیسی سے لے کر عسکری قوت کی آزادی تک سب پر سوالیہ نشان قائم ہو جائے گا۔

حکومت کی معاشی ٹیم کی حالیہ تبدیلی اس بات کا تو بالکل واضح اعلان تھا کہ معاشی معاملات میں حکومت کوئی کارکردگی تو کیا دکھا پاتی مگر اس سے اتنا بھی نہ ہوا کہ وہ سابق حکومت کی معاشی کارکردگی کے حاصل کیے گئے ثمرات کو ہی محفوظ رکھ پاتی۔ مگر اس ٹیم کی تبدیلی کے ساتھ ہی گورنر اسٹیٹ بینک جس شخصیت کو مقرر کیا گیا ہے ان کے متعلق خبریں یہاں تک ہیں کہ وہ پاکستان کی شہریت کو بھی ترک کر چکے تھے اور عجلت میں اس عہدے پر تعیناتی کی غرض سے ان کا قومی شناختی کارڈ جاری کرنا پڑا۔

جولائی 2017 ؁ء کے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ملک میں جو بدترین سیاسی عدم استحکام قائم ہوا اس کا لازمی نتیجہ معاشی بدحالی کی صورت میں سامنے آنا تھا جو آ گیا۔ ایسی صورت میں خود کشی کے ارادے پر یو ٹرن لیتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی جانا تھا۔ اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان چین کے معاشی معاملات تک رسائی اور ان میں روڑے اٹکانے کی خواہش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ پاک چین معاملات کسی صورت ان سے ڈسکس نہیں ہونے چاہیے تھے۔

مگر اس دوران ڈسکس کرنے یا نہ کرنے سے بھی بڑا قدام اٹھا لیا گیا کہ آئی ایم ایف کے ہی ایک ملازم کو اسٹیٹ بینک کا مقرر کر دیا گیا۔ یعنی تمام مالی معاملات کا سب سے بڑا افسر مقرر کر دیا گیا۔ ان حالات میں جب ان کے ہی ادارے سے مذاکرات جاری تھے۔ ”یعنی ایک نئی طرح کا ریذیڈنٹ“ ممکن ہے کہ کوئی ماضی کی مثال پیش کر دے کہ تب بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر کیا کبھی ان جیسے حالات میں بھی ادھر سے فرد لیا گیا۔

ابھی ٹیپو سلطانؒ اور رنجیت کی فرانسیسی جرنیلوں کی خدمات لینے کی بات کی تھی۔ خدمات قابل فہم تھی کیونکہ یہ دونوں فرانس سے مقابلہ نہیں کر رہے تھے۔ آئی ایم ایف سے مقابلہ کرتے ہوئے اسی کے جرنیل کو مالی امور کا سب سے بڑا افسر تعینات کر دینا بلکہ ان کا خود تعینات کروا لینا سب سمجھ میں آتا ہے۔ یہ صورتحال اگر اسی طرح قائم رہی تو ایسی صورت میں کسی بڑے حادثے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ سی پیک؟ کیونکہ ریذیڈنٹ کی وفاداری ریاست سے نہیں بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).