فنکار ماؤں کی طرح ہوتے ہیں


ہما دلاور صاحبہ !

میں نے آپ کا ادبی محبت نامہ کئی دفعہ پڑھا۔ پہلی بار پڑھا تو مسکرایا ‘دوسری بار پڑھا تو ہنسا‘ تیسری بار پڑھا تو رویا اور پھر کافی دیر تک روتا ہنستا رہا۔ پہلے سوچا کہ یہ مزاح ہے‘ پھر سوچا کہ یہ طنز ہے‘ پھر سوچا کہ یہ کامیڈی ہے‘ پھر سوچا کہ یہ ٹریجڈی ہے۔ پھر سوچا کہ شاید یہ دانائی ہے‘ پھر سوچا کہ یہ شایہ یہ دیوانگی ہے۔ پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں ٹیجڈی اور کامیڈی ‘دانائی اور دیوانگی آپس میں گلے ملتے ہیں۔

مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ آپ کے اندر حسِ طرافت اتنا WELL DEVELOPED ہے کہ آپ HUMOR, SARCASM AND SATIRE کو یکجا کر دیں گی اور یہ بھی اندازہ نہ تھا کہ آپ CREATIVITY, INSANITY AND SPIRITUALITY کے رازوں سے اس قدر واقف ہیں۔

 آپ کے پہلے ادبی محبت نامے سے ہی مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ آپ سے ان موضوعات پر تفصیلی تبادلہِ خیال ہو سکتا ہے اور ادبی محبت ناموں کا سلسلہ طویل ہو سکتا ہے۔

 آپ بخوبی جانتی ہیں کہ کہ ایک ARTIST, HUMANIST AND PSYCHOTHERAPIST ہونے کے ناطے میرے لیے CREATIVITY ایک سنجیدہ موضوع ہے۔ وہ ادیب اور شاعر‘ فنکار اور دانشور جنہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں ملتا وہ دکھی ہو جاتے ہیں اور بعض تو ذہنی توازن کھو دیتے ہیں۔ عباس تابش کا شعر ہے

سکوتِ دہر رگوں میں اتر گیا ہوتا

اگر میں شعر نہ کہتا تو مر گیا ہوتا

جینون فنکار کے لیے تخلیقی اظہار کا مسئلہ تضیعِ اوقات کا مسئلہ نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔

جس طرح ایک بچہ چلنے سے پہلے بار بار گرتا ہے اور بار بار اٹھتا ہے اسی طرح ایک لکھاری لکھتا ہے پھر مٹاتا ہے پھر لکھتا ہے پھر مٹاتا ہے بالآخر ایک فن پارہ تخلیق کرتا ہے

عارفؔ عبدالمتین کا شعر ہے

معراج پر ہے کربِ گوارا دماغ کا

تخلیق ہو رہا ہے سخنور کے ہاں سخن

میرا موقف ہے کہ ماں کے دردِ زہ کی طرح

IT IS PAINFUL BUT IT IS WORTH IT

میں ایسے بہت سے ادیب شاعر‘ فنکار اور دانشور جانتا ہوں جن کی تخلیق کبھی مکمل نہ ہوئی۔ ان کے پاس بہت سے ادھورے افسانے اور ناول’ فلمیں اور کتابیں میز کی درازوں میں موجود ہیں۔کیونکہ انہیں CREATIVE MISCARRIAGES ہو گئیں۔ بعض تو کوئی تخلیق مکمل کرنے سے پہلے ہی CREATIVE MENOPAUSE کا شکار ہو گئے۔ آخر اس کی وجہ؟

یا تو انہیں ایسا ماحول نہیں ملا کہ ان کی فنی تربیت ہو سکے

یا ان میں خود اعتمادی نہ تھی

یہ ان کے دوست رشتہ دار شدت پسند نقاد تھے

اور یا ان کی شخصیت اتنی PERFECTIONIST تھی کہ وہ اپنی تخلیقات کے بارے میں سوچتے تھے IT IS GOOD BUT NOT GOOD ENOUGH

میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے ارد گرد ادبی دوستوں کا حلقہ بنائیں جو آپ سے مخلص بھی ہو ہمدرد بھی ہو اور آپ کو تخلیقی مشورے بھی دے سکے۔

میں نے آپ کی نثری نظمیں بھی سنی ہیں اور آپ کا ’درویشوں کے ڈیرے‘ پر تبصرہ بھی پڑھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ کا ذہن ایک فرج ہے تو اس میں ہر قسم کا گوشت اور سبزیاں موجود ہیں۔ آپ نے صرف یہ فیصلہ نہیں کیا کہ مینو کیا ہے آپ نے اپنے قارئین اور مداحین کو کیا ڈش پیش کرنی ہے۔ جب آپ اپنے ادبی مینو کا فیصلہ کر لیں گی تو مسئلہ حل ہونے کا امکان واضح ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے یہ ادبی محبت نامے آپ کی مدد کریں۔

میں نے پچھلے چالیس برس میں اپنے قارئین کے لیے ایک LITERARY BUFFET تیار کر لیا ہے جس میں غزلیں بھی ہیں‘ نظمیں بھی‘ افسانے بھی ہیں‘ مقالے بھی‘ تراجم بھی ہی‘ انٹرویو بھی۔ لوگ ان سے محظوظ ہوتے ہیں اور بار بار آتے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا سے بھی استفادہ کیا ہے اور ’ہم سب‘ کے کالم اور یو ٹیوب کی پروگرام اس کی ایک مثال ہیں۔ میرا ادبی اور فنی بفے اب بین الاقوامی ہو گیا ہے۔

مجھے پوری امید ہے کہ اگر آپ نے ادبی محبت ناموں کا سلسلہ جاری رکھا تو آپ کا LABOUR PAIN آہستہ آہستہ CREATIVE EUPHORIA میں بدل جائے گا۔ مجھ سے ملنے کے بعد اب آپ CREATIVE LABOUR ROOM میں داخل ہو چکی ہیں اور اب آپ فیملی آف دی ہارٹ کی فعال ممبر بن چکی ہیں۔ یہ تو ابتدا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

                Your Literary midwife

خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail