عورت کے چست کپڑے اور مرد کا شیطان


ایک خاتون کا کہنا ہے کہ اگر کپڑے مسئلہ ہیں تو برقعے والی کے ساتھ جنسی زیادتی کیوں کی جاتی ہے۔

جبکہ میرا خیال ہے کہ اصل مسئلہ کپڑے ہی ہیں۔ جب ایک مرد چست کپڑوں والی لڑکی کو دیکھے گا، تو اس کے دل میں برے خیالات ہی جنم لیں گے۔ مزید یہ اس مرد کے ارادے پر منحصر ہے کہ وہ اپنے خیالات سے پیچھا چھڑوا لے یا پھر وہ اس کے دل و دماغ میں پل کر مضبوط ہوتے رہیں۔

اگر ایک ہوس زدہ مرد کسی لڑکی کو غیر مناسب کپڑوں میں دیکھ کر اپنی ہوس پر قابو پا بھی لے، تو جب اس کو ہوس قابو سے باہر ہونے لگے گی تو وہ میسر آنے والی کسی بھی لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنا دے گا۔ ایسے واقعے میں اس معصوم لڑکی کے کپڑوں کا یقیناً کوئی قصور نہیں، قصور تو اس لڑکی کا ہے جس کے نامناسب کپڑے دیکھ کر اس مرد کے دماغ میں غیر اخلاقی خیالات نے جنم لیا تھا۔

یعنی لڑکی کے حلیے کا قصور تو ہے، مگر ضروری نہیں ہے کی جس لڑکی کا قصور ہو، زیادتی کا نشانہ اسے ہی بنایا جائے۔

میں یہ نہیں کہہ رہی کہ چست کپڑوں والی لڑکی کو اپنے آس پاس دیکھ کر ہی مرد ہوس زدہ ہوتا ہے۔ بلکہ ڈراموں اور فلموں میں بھی دعوتِ نظارہ دیتی ہوئی لڑکیوں کو دیکھ کر مرد میں شر کی یہ طاقت سر اٹھا سکتی ہے۔ فلموں اور ڈراموں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی مواد دیکھنا بھی اسی ضمرے میں آتا ہے۔

یعنی کسی لڑکی کے نامناسب کپڑوں کو دیکھ کر مرد میں ہوس کی ایک آگ جنم لیتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ لڑکی اس مرد کے سامنے موجود ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے اس کو اپنے موبائل پر دیکھا ہو۔ یعنی، ہو سکتا ہے کہ مرد کے لیے ممکن نہ ہو کہ وہ اس لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکے۔ ایسے میں جب وہ مرد اپنی اس ہوس کو قابو میں نہیں رکھ پاتا، تو وہ اس کو پورا کرنے کے ممکن ذرائع پر نظر دوڑاتا ہے۔ اور ایسے شخص کے لیے آسان ہوتا ہے کہ وہ کسی جوان لڑکی کو بہلانے پھسلانے کے بجائے، کسی چھوٹی لڑکی کو اپنی درندگی کا نشانہ بنا لے۔

مختصر یہ کہ کسی لڑکی کے تنگ کپڑوں کی سزا، کسی اور لڑکی کے زیادتی کر کے اسے دے دی جاتی ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں تمام غیر اخلاقی مواد والی ویب سائٹس کو بلاک کیا جائے اور تمام فحش فلموں اور ڈراموں پر پابندی لگائی جائے تاکہ ہمارے ملک کا وہ جاہل طبقہ، جو ایسی چیزیں دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے، اس کو راہ راست پر لایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).