خرم نواز گنڈا پور باپ نہیں تھا


رافع کو کس بنا پر نکالا گیا؟

رافع سرور ابلاغیات کی 5th  سمیسٹر کی طالبہ تھی،5th  سمیسٹر کے مڈ ٹرم امتحانات کے بعد رافع کی والدہ اچانک بیمار ہو گئیں اور نوبت آپریشن تک آن پہنچی۔ رافع جو کہ اپنی والدہ کا واحد سہارا تھی اس کو مجبوراً اپنی ماں کی دیکھ بھال کے لیے اسپتال رکنا پڑا اور یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ اسے یونیورسٹی میں اطلاع دینے تک کا بھی موقع نہیں ملا۔ اس اثناء میں رافع نے اپنی ساتھی طالبات کے ذریعے مس روبینہ سعید کو بروقت مطلع کر دیا جس پر مس روبینہ کا کہنا تھا کہ کوئی مسئلہ نہیں، بس مجھ سے ایک بار مل لے آ کر۔ اب چونکہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ کوئی مسئلہ نہیں سو رافع سرور اپنی والدہ کے علاج معالجے سے فارغ ہو کر پہلی فرصت میں یونیورسٹی پہنچ گئی جہاں مس روبینہ سعید نے سرے سے اس کو پہنچاننے سے ہی انکار کر دیا ___

واضح رہے کہ رافع سرور جن 4 ہفتوں میں غیر حاضر رہی اس میں 2 ہفتے اسپورٹس مقابلوں کے تھے جس میں کلاسز نہیں ہوئیں لیکن جب انسان کے برے دن آئے ہوں تو کیا ہو سکتا ہے۔ رافع سرور سے 5th  سمیسٹر کی فیس جو کہ تقریباً 45 ہزار ہے وہ لے لی گئی اور اس کو فائنل ٹرم کے امتحانات دینے سے یہ کہتے ہوئے روک دیا گیا کہ جی آپ نے تو غیر حاضریوں کی اطلاع ہی نہیں دی اور شارٹ اٹینڈینس کی بنا پر آپ امتحانات میں بیٹھنے کی اہل نہیں ہیں۔

حالانکہ ساری کلاس گواہ ہے کہ طالبات مس روبینہ کو رافع سرور کی مجبوری کا بار بار بتاتی رہیں اور یہ بات مس روبینہ سعید کے نوٹس میں تھی لیکن مس روبینہ سعید ہیں کہ ان سے بات کر لیں تو ان کا ایک پاؤں زمین پر اور دوسرا آسمان پر ہوتا ہے۔ نہ بات سننا پسند فرماتی ہیں نہ بات کرنا محض ہائی بلڈ پریشر، ایک بات خود کر کے اگلے ہی لمحے منہ پر ہی اس سے مکر جاتی ہیں۔ بہرحال انہوں نے بات سننے سے صاف انکار کر دیا اور ٹال مٹول کرتی رہیں۔ مختلف حیلے بہانے کر کے فائنل ٹرم کے امتحانات نہیں دینے دیے۔

اس کے بعد انتظامیہ نے یقین دہانی کروائی کہ آپ کا 5th  سمیسٹر فریز کر دیتے ہیں اور آپ کے 5th  سمیسٹر والی فیس 6th سمیسٹر میں کلیئر ہو جائے گی اور آپ 5th  سمیسٹر بعد میں جونیئرز کے ساتھ کلیئر کر لیجیے گا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کو رافع کے چہرے سے نفرت تھی کہ وہ اعلیٰ حضرت خرم نواز گنڈا پور صاحب کی شان میں گستاخی کی مرتکب ہوئی تھی لہٰذا اس کو نشان عبرت بھی تو بنانا تھا۔ اور بس پھر یہی ہوا۔ اللہ اللہ کر کے 6th  سمیسٹر کی کلاسز شروع ہوئیں اور رافع سرور کو بھری کلاس میں سے ذلیل کر کے نکال دیا گیا اور مسلسل دباؤ ڈالا جانے لگا کہ آپ کی اس یونیورسٹی میں کوئی جگہ نہیں اب آپ مائیگریشن کروا کے چلی جائیں ہم آپ کو کسی صورت نہیں رکھ سکتے۔ کوئی صورت نکالنے کا کہا تو بتایا گیا کہ جی ہم5th  سمیسٹر آفر ہی نہیں کرتے۔

منہاج یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر شاہد سرویا صاحب سے مختلف حوالوں سے بات کی تو وہ بھی بے بس نظر آئے اور ہاتھ کھڑے کر دیے کہ معاملہ میری دسترس سے باہر ہے حالانکہ خرم نواز گنڈا پور صاحب والے معاملے کا علم ہونے سے پہلے تک ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈگری تو ضرور مکمل کروائیں گے۔

رافع سرور کو مکمل ذلیل کیا گیا۔ وہ بےچاری تن تنہا لاہور جیسے شہر میں گھر والوں کی شفقت سے دور بہتیرے ہاتھ پاؤں مارتی رہی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ کبھی ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر کبھی فلاں سرکاری محکمے کے چکر کبھی فلاں یونیورسٹی کبھی فلاں یونیورسٹی وہ تو ایک ماہ میں خوار ہو کر رہ گئی۔ لڑکی باہمت اور بلند حوصلہ تھی تو لڑتی رہی۔ کوئی اور ہوتی تو کب کی لوٹ چکی ہوتی۔

تعلیم رافع کا حق ہے لیکن اس سے یہ حق چھین لیا گیا ہے۔ کیا آپ اپنے بچوں کو کسی ایسی یونیورسٹی میں پڑھانا چاہیں گے جس کے وائس چانسلرز تک محض کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتے ہوں؟ جس یونیورسٹی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس تک کو پروفیشنلزم کی الف ب نہ آتی ہو؟ جو یونیورسٹی آپ کے بچوں کی صلاحیتوں کی دشمن ہو؟ جس یونیورسٹی کا نظام محض تعلقات بچاؤ پالیسی پر چل رہا ہو؟ جس یونیورسٹی میں بغیر کسی مستند وجہ کے طلبا کو نکال باہر پھینکا جائے؟ جس یونیورسٹی کی انتظامیہ طلباء کے لیے تعصب اور نفرت جیسے جذبات رکھتی ہو؟ نہیں نا؟ سو ہمیں من حیث القوم منہاج یونیورسٹی جیسے تنگ نظر اور محدود فکر کی حامل انتظامیہ پر مشتمل سطحی اداروں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تا کہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں رافع سرور کی طرح یوں ذلیل و خوار نہ ہوں۔

منصور علی خان کے شو میں جا کر اپنا اور اپنی ساتھی طالبات کا دفاع کرنا اور جھوٹے پراپیگنڈے کا جواب دینا رافع سرور کا واحد قصور ہے جس کی بنا پر منہاج یونیورسٹی جیسے ادارے نے اس سے حق تعلیم ہی چھین لیا۔ واقعے کے بعد بھلے ہی منہاجی بھائی خرم نواز گنڈا پور صاحب کو بچیوں کا باپ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر وقت نے بتا دیا ہے کہ خرم نواز گنڈا پور جیسے باپ ہونے کے دعویدار انسان دراصل انسان بھی کھوکھلے قسم کے ہوتے ہیں، باپ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2