یار اس کی ماں بڑی سیکسی ہے!


اس مضمون کے عنوان والا جملہ مجھے ہمیشہ مدر ڈے پر اس لئے یاد آتا ہے کہ اس دن لوگ اپنی ماؤں کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے لئے پیار بھرے جملے کہتے ہیں۔ تو جب ان اچھے فقروں کی بیچ ایسا جملہ سننے کو ملے تو پھر؟ کسی کی ماں کے بارے ایسا جملہ؟ کیا یہ الفاظ قابل اعتراض نہیں ہیں؟ کوئی ہماری ماں کے بارے ایسا کہے تو کیسا لگے گا؟ ٹھیک یہی سوالات میرے ذہن میں بھی فوری آئے تھے جب میں نے اپنے سامنے بیٹھے ایک بانکے سجیلے نوجوان سے سنے تھے۔ تبھی میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں پتا ہے کہ اس جملہ کا مطلب کیا ہے؟ تو اس نے مسکراتے ہوے کہا کہ جب مجھے لوگ کہتے تھے تب مجھے واقعی نہیں پتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے مگر جب پتا چلا تو تب بھی برا نہیں لگا سر، کہ میری ماں واقعی ایسی تھی۔

تو صاحبو کچھ برس پہلے مجھ سے حالِ دل بیان کرنے آنے والا یہ لڑکا وقاص ( فرضی نام ) مجھے زندگی کے اس رخ سے روشناس کروا رہا تھا جس کے کرب کو سہنا واقعی آسان نہیں تھا مگر اس کے ذمہ دار شاید ہم سب ہیں۔ خاص طور پر ہم مرد ذات۔ دہرا چہرہ رکھنے والے۔ مجبور و کمزور عورت کو اپنا آسان شکار سمجھنے والے۔ میں یہ سب کیوں سوچنے پر مجبور ہوا، اس کے لئے ذرا وقاص کی کچھ باتیں پڑھیے۔

یہ تو سر مجھے بعد میں پتا چلا کہ لوگ مجھے “دلال” کیوں کہتے ہیں۔ اچھا میں آپ کو باتیں تب کی بتا رہا ہوں جب میں سیون کلاس میں تھا۔ میں اپنی امی کے ساتھ ایک محلے میں کرایہ کے گھر میں رہتا تھا۔ تب مجھے بس اتنا علم تھا کہ میری امی طلاق یافتہ ہیں۔ یہ طلاق کیا ہوتی ہے یہ بھی بعد میں پتا چلا۔ تب ایک دکان دار کے پاس ادھار پر سودا لینے جاتا تھا تو وہ مجھے پیار کرتا، چومتا تھا۔ جو اکثر اپنے ساتھ بیٹھے ایک شخص کو کہتا تھا کہ اس کی ماں بڑی سیکسی ہے۔ طلاق ہوئی ہے۔ گھر میں ہی کپڑے سیتی، بچوں کو پڑھاتی ہے۔ اور پتا نہیں کیا کچھ کہتا۔ مگر مجھے ان دونوں کے چہروں کو دیکھ کر اندازہ ہو جاتا تھا کہ یہ سب اچھی باتیں نہیں کہتے۔ ایسی باتیں جو میں گھر جا کر امی کو نہیں بتا سکتا تھا۔

پھر مجھے محلے والے کے بچوں ساتھ کھیلتے، مختلف دکانوں سے ادھار پر سودا لیتے، ہمسایوں کے گھر آتے جاتے اپنے بارے میں سب پتا چلتا گیا۔ وہ سب باتیں جو میری ماں مجھے نہیں بتاتی تھی، وہ دوسرے لوگوں نے بتائیں۔ کیسے میری ماں نے پیار کی شادی کی، گھر والوں کو چھوڑ کر شوہر پر اعتماد کیا، کیسے میرا باپ کسی عربی ملک میں چلا گیا، پھر طلاق، یہ، وہ، غرض کہ اتنی ساری عجیب باتیں کہ جن کی سچائی کو میں پرکھ نہیں سکتا تھا۔ کس سے پوچھتا ؟ ہم دونوں ماں بیٹا تو پتا نہیں کیوں ایک دوسرے سے شرماتے رہتے تھے۔

ایسے ہی وقت گزرتا گیا سر۔ اپنی طلاق یافتہ ماں کے بارے میں مختلف عجیب جملوں والی باتیں سنتا، مسکراتا اور اپنی زندگی میں مست رہتا۔ صبح گورنمنٹ اسکول میں جاتا، شام کھیل میں گزر جاتی یا ادھار سودا لانے یا پھر ہمسایوں کی آنٹیوں کے کام کرتے۔ رات کو ماں کے پاس تھوڑا وقت گزرتا جس میں وہ پتا نہیں کس سے موبائل پر کبھی میسج کرتے اور کبھی کال کرتے وقت گزارتی اور میں چپ چاپ چھت پر آ کر اپنی تنہائی کے ساتھ باتیں کرتا، چاند ستاروں کو اپنا ہمراز بناتے ان گنت سوال پوچھتا۔

اور پھر ایک دن میری ماں نے دوسری شادی کر لی۔ اس شادی سے کچھ عرصہ پہلے محلے کے دکان داروں سے جو کچھ سننا پڑا وہ آپ چھوڑیں اور سمجھ جائیں۔ میرا نیا ابو ہمیں اس علاقہ سے اٹھا کر کسی اور جگہ لے آیا۔ میں بس خوش تھا کہ محلہ بدلا، ادھار لانے سے جان چھوٹی، لوگوں کے اپنی ماں بارے اور اپنے بارے غلط ریمارکس سننا بند ہوا۔

ایسے ہی میں بڑا ہو گیا۔ اور پڑھنے کے لئے اس بڑے شہر آ گیا اور اپنی لائف میں گم ہو گیا بس۔ اکیڈمی پڑھاتے، کال سینٹر میں کام کرتے، اپنا خرچ خود اٹھاتا ہوں۔ گھر بات ہوتی ہے ماں سے۔ وہ بھی خوش ہے۔ دو بہنیں ہیں میری اب سر۔ سب ٹھیک چل رہا ہے۔ بس اندر بہت کچھ دبا ہوا میرے، بہت باتیں، بہت غبار بس وہی نکالنے آپ کے پاس چلا آیا۔

تو صاحبو اور پتا نہیں کیا کچھ کہتا رہا وہ، اس پورے دن میں میرے ساتھ کبھی روتے، کبھی لپٹتے۔ میں تو بس سوچتا ہی رہا کہ ہمارے ارد گرد کیسے کیسے کردار بکھرے ہوے ہیں۔ کیسی کیسی عجیب کہانیاں۔ سنگل مدر ہونے کی مشکلات۔ لوگوں کے رویے۔ پتا نہیں وقاص جیسے کتنے بچے ایسے حالات سے گزرتے ہوں گے۔ ان کے ذہنوں میں بن جانے والے انمٹ نقوش۔ اور پتا نہیں کیا کیا۔ ہر مدر ڈے پر وہ باہمت و معصوم وقاص بہت یاد آتا۔ اللّه کسی بچے اور ماں کو بھی ایسے حالات کی آزمائش سے دو چار نہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).