کیا مسلمانوں کا مذہبی مسائل پر بحث کرنا تعمیری شغل ہے؟


ویسے تو یہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے کہ مسلمان خواہ ایک ہی مسلک کے کیوں نہ ہوں، دو خانوں۔ 1۔ دقیانوسی بنیاد پرست اور 2۔ روشن خیال لبرل میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں اپنے کو برتر اور دوسرے کو کمتر ثابت کرنے میں توانائی صرف کرتے رہتے ہیں۔ دونوں میں کبھی تال میل نہیں بیٹھا اور اس طرح مسلم سماج کے دل و دماغ میں تعمیری سوچ پنپنے کی جگہ غیر ضروری موضوعات جگہ لیتے رہے۔ ایک طبقہ دینی تو دوسرا طبقہ دنیوی کے بینر تلے سماج میں سرایت ہے۔

عام مسلمان مذہبی معاملات میں۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر۔ دست و گریباں ہوتے رہتے ہیں۔ معمولی فروعی اختلافات اور مسلک کے موضوعات پر توانائی صرف کرتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا وہ ان مسائل کو پس پشت ڈال کر سماج میں بہتری لانے کے لئے کوشاں ہوتے۔ ایک دوسرے کو معاشی اور سماجی ترقی کے لئے رہنمائی کرتے تعلیم صحت تجارت اور ملازمت کے میدان میں معاون بنتے۔

کیا آپ نے ہندوؤں سکھوں جینیوں پارسیوں اور عیسائیوں کو ان کے ٹائم لائن پر اس طرح کی بحث میں الجھتے دیکھا ہے؟ سکھوں کی مذہبی قیادت نے بتایا کہ پانچ کاف کیس کڑا کچھا کرپان اور کنگھا مذہبی شعائر ہیں تمام سکھوں نے سر تسلیم خم کیا اور دنیا بھر میں، خواہ وہاں کا ماحول اور لباس کچھ بھی ہو، ان مذہبی شعائر پر بلا اعتراض اور عذر کاربند ہوتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس دور میں جبکہ نت نئے اسلحے ہر سائز اور فعالیت کے مہیا ہیں تو کرپان ہی کیوں؟ یا یہ کہ ہر فرد بشر کو سیکورٹی مہیا کرانا سلطنت ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے تو ہم اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ ایک علامتی اسلحہ سے مسلح کیوں رہیں؟

کوئی یہ نہیں کہتا کہ امریکہ کنڈا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مقیم شہریوں اور مہاجرین کا لباس عام پینٹ شرٹ کوٹ اور جیکٹ ہوتے ہیں ایسے میں سر پر دستار باندھنا بہت عجیب لگتا ہے اس لئے گورو جی کوئی تاویل شرعی حیلہ کرکے اس سے نجات دلائیں فقہ کی کتابوں میں کوئی تو چور دروازہ ہوگا وہ بتائیں۔ جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ بعض مولوی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے پاس جائیں تو وہ فورا کوئی راستہ شرعی حیلہ بتا دیں گے کہ اسے اس طرح نہیں اس طرح کرلو چھٹکارا مل جائے گا۔

وہ کہیں گے الدین یسر۔ دین آسان ہے۔ زکوٰۃ دینے کا ارادہ نہیں ہے تو مولوی صاحب کے پاس پہنچ جائیں کہ کوئی راستہ بتائیں۔ وہ بتائیں گے کہ اضافی مال پر حولان حول یعنی سال پورا ہونے پر ہی زکوٰۃ ہے۔ سال مکمل ہونے سے قبل چند دنوں کے لئے ملکیت کسی اور کی طرف منتقل کر دو۔ علامہ یوسف القرضاوی سے بعض عرب خواتین ٹی وی پر سوال و جواب کے دوران زکوٰۃ کے بارے میں پوچھ رہی تھیں علامہ نے جو مسئلہ تھا وہ بتا دیا تو ایک خاتون نے کہا کہ فلاں عالم نے تو ایسا بتایا تو علامہ نے ڈانٹا کہ مولویوں کو پھنسانا چاہتی ہے کہ کوئی نہ کوئی مولوی تو یہ بتا دے گا کہ تم پر زکوۃ واجب نہیں ہے اور اس طرح کل قیامت کے روز تمہاری گردن نہیں مولوی کی گردن پکڑی جائے گی۔ یاد رکھو اللہ کے پاس تمہاری عبادات نہیں نیت پہنچتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ تم نے جس طرح توڑ مروڑ کر سوال کیا اس عالم نے اسی کے تحت تمہارے سوال کا جواب دیا۔ میرے پاس جو سوال تم نے کیا میں نے اس کا جواب دیا۔

کتنے کم ظرف ہیں ہم لوگ جو اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے وہ ہماری نیت اور سوچ کو بھی جانتا ہے اور اس نے تو قرآن کریم میں واضح لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ اس کے پاس ہماری نیت پہنچتی ہے نا کہ قربانی کا خون یا گوشت۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم اپنی توانائی دوسری قوموں کی طرح تعمیری کام میں صرف کرتے۔ سماج کے لئے نہیں تو خود اپنے لئے۔ ایک شخص کی مالی اور سماجی بہتری پورے معاشرے کی بہتری ہوسکتی ہے اس لئے کہ معاشرہ فرد سے بنتا ہے۔ اگر ہر شخص تعلیم یافتہ تندرست تجارت یا ملازمت سے وابستہ ہوگا تو یہ بھی بہت بڑا contribution ہوگا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم میں سے ہر وہ شخص جسے تعلیم صحت تجارت اور ملازمت سے واقفیت ہے وہ اپنے دوسرے بھائی کی رہنمائی کرتا۔ اس کا خاطر خواہ اثر ہوتا ہے۔ معلومات کو share کرنے اور عوام کو mobilize کرنے کا کام صرف انتخابی سیاست اور انتخابات کے دنوں میں ہی کیوں؟ تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے خاتمے کے لئے کیوں نہیں؟

عام لوگوں، مسلم اور غیر مسلموں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ مسلم سماج کو مولویوں نے بندھک بنا لیا ہے! تو بات صاف ہے کہ مولوی حضرات یا دینی قیادت مسلمانوں کے غریب اور محروم طبقوں میں، خواہ معمولی ہی سہی، رفاہی کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بات سنی جاتی ہے اور یہ ایک فطری شئی ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ ملتے ہیں ان کے مسائل سنتے ہیں اور حسب استطاعت اور اختصاص ان کے درد کا مداوا بنتے ہیں وہ ان کے دلوں سے قریب ہوتے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کا روشن خیال طبقہ ( استثنات کے ساتھ) کبھی ان کی خبر گیری نہیں کرتا ان کی ڈکشنری میں محروم اور پسماندگان کے لیے solidarity نہیں ہے۔ کبھی عوام سے جڑتے نہیں کسی موضوع پر ان کا interaction نہیں ہوتا کبھی ملی اداروں میں کسی مسئلے پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے لیکن یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ جدید تعلیم یافتہ ہیں اس لئے قیادت کے حقدار وہی ہیں۔ وہ مساجد اور مدارس پر تنقید تو کرتے ہیں مگر ان میں اصلاح لانے کے لئے کوئی لائحہ عمل لے کر مساجد اور مدارس کے ذمے داروں کے ساتھ نہیں بیٹھتے۔

مدارس اور مساجد کے متولی اور مہتمم حضرات بعض مسائل پر محدود علم رکھتے ہیں انہیں بھی چاہیے کہ جن لوگوں کا اختصاص ہے ان کو اپنی کمیٹیوں اور شوری میں شامل کریں۔ یہ عذر کہ وہ لوگ عالم دین نہیں ہیں اس لئے شامل نہیں کیے جا سکتے، غیر مناسب بلکہ نا قابل قبول ہے۔ بعض روشن خیال ملی اور دینی امور خاص طور پر تعلیم اور علماء کے سلسلے میں ماضی کے خول میں جیتے ہیں۔ وہ ماضی میں کہی ہوئی باتوں کا بیانیہ rhetoric چلاتے رہتے ہیں حال میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں اس سے یا تو واقف نہیں ہوتے یا دانستہ اس طرح کے بیانیہ کے ذریعے فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ علماء نے سر سید کی مخالفت کی انگریزی تعلیم کی مخالفت کی وہ آزادی نسواں اور تعلیم نسواں کی راہ میں رکاوٹ بننے ہیں، پردہ اور چہار دیواری۔ ۔ یہ باتیں ماضی کی ہیں اسے ماضی میں دفن کر دی گئیں۔ آج کی حقیقت یہ ہے امام مؤذن مدرس اور علماء کے بچے اور بچیاں مین اسٹریم ایجوکیشن میں نام روشن کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).