اصلی فواد چوہدری؟ نقلی فواد چوہدری؟


زمانہ جہالت کی بات ہے اس لئے رابعہ نے اس واقعہ کو لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ زمانہ جہالت اس لئے کہ صحافت میں خبر کی تازگی اہمیت رکھتی ہے۔ دو ماہ قبل کا واقعہ زمانہ جہالت کی تاریخ میں شامل ہو جاتا ہے۔

لیکن زمانہ جہالت سے نکلے تو پتاچلا ابھی مستقبل کا دور دور تک نشان نہیں۔ سو واقعہ کا بیان رمز سے خالی نہیں۔ لہذا رابعہ الرَبّا ء نے فیصلہ کیا کہ اس سے قبل کہ منسٹری پھر سے بدلے، سب کچھ لکھ دیا جائے۔ کیونکہ بزدلی باذات خود گناہ ہے۔

یہ بات ہے نواپریل دو ہزار انیس کی۔ رابعہ ابھی والد صاحب کے جانے کے بعد اس حقیقت کے ساتھ جنگ میں تھی لہذا فون کا گلا دبا دیا کرتی تھی۔ کیونکہ خوشی کے سب ساتھی ہو تے ہیں۔ غم میں ساتھ، صرف ساتھی ہو تے ہیں۔

اسلام آبادکے اہم سرکاری ادارے سے محمد علی صاحب کا فون آتا ہے اور آئے ہی چلا جاتا ہے۔ کئی گھنٹے وہ کوشش کرتے رہے مگر ان کی رابعہ سے بات نا ہو سکی۔ تو انہو ں نے ایک میسج چھوڑ دیا کہ ”ضروری بات ہے۔ کال کر لیجیے گا“ رابعہ نے یہ میسج بھی شام چار بجے پڑھا۔ تو علی صاحب کو فون کر لیا۔ ان سے معذرت کی۔ تو کہنے لگے اللہ کے ہر کا م میں مصلحت ہو تی ہے۔ کوئی بات نہیں۔ لیکن بات دلچسپ ہے۔

رابعہ مسکرانا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے اندر کی میڈیکل سائنس ونفسی سائنس ایک نقطہ سکت پہ ٹھہرے ہو ئے تھے۔

علی صاحب بتانے لگے

ہوا کچھ یو ں کہ ہمیں فواد چوہدری صاحب کا فون آیا اور کہا گیا کہ فوری طور پہ چند اچھے لکھنے والوں کی فہرست بتائی جائے۔ علی نے وقت کا تقاضا کیا مگر حکومت کو بہت جلدی تھی۔ انہو ں نے کہا کہ نہیں ابھی فون پہ ہی ان رائٹرز کے نام اور نما یا ں کا م بتا ولکھوادیا جائے۔ خیر کوئی دس مصنفین کے کوائف لے لئے گئے۔ ان میں رابعہ الرَباء کا نام بھی شامل تھا۔ جلد ہی علی صاحب کو ان میں سے چند نام منتخب کر کے بتا دیے گئے۔

فون نمبرز کا بھی تبا دلہ ہو گیا۔ حسن اتفاق ان منتخب اراکین میں بھی رابعہ الرَبّا ء کانام تھا۔ کوئی سرکاری غیر سرکاری لکھت پڑھت کا معاملہ نا ہوا۔ سب سر کاری کا م مو بائل نمبر پہ زبانی کلامی ہو رہا تھا۔ اس کے علا وہ علی صاحب سے بھی کچھ ایسے سرکاری کاموں کے حوالے سے سوال کیے گئے کہ ان کو بھی کسی طرح کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہوا۔ یوں بھی فواد چوہدری ان کے دفتر کبھی کبھار آتے ہی تھے۔ یہ ادارہ ان کی منسٹری کے انڈر تھا۔

خیر علی صاحب نے فواد چوہدری کا نمبر رابعہ کو دیا اور کہا کہ ان کو فون کر لے۔ آج تو شام ہو چلی تھی۔ رابعہ نے سو چا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ کل کر وں گی۔ اب ان سر کاری لو گو ں کا خوف، دنیا میں خوف خدا پہ فوقیت لے گیا ہے۔ سو سنبھل کر چلنا مناسب ہے۔

رابعہ نے اگلے روز اس دیے گئے نمبرپہ فون کیا۔ تو جو صاحب بولے ان کی آوازاور لہجہ مطلو بہ نام کے مطابق نہیں تھا۔ رابعہ نے اپنا تعارف علی صاحب کے حوالے سے کروایا، انہو ں نے رابعہ سے بہت احترام سے بات کی۔ اور فوراً پہچان لیا رابعہ لاہور سے۔ ان کی مزید معلو مات سے قبل ہی رابعہ نے کہہ دیا ”آپ کی آوازبدلی بدلی ہے، جو ہم ٹی وی پہ سنتے ہیں۔ ویسی نہیں ہے؟ “ تو کہنے لگے وہ تو ریکارڈنگ ہو تی ہے۔ اور رابعہ نے بے ساختہ کہہ دیا ”پھر بھی لہجے تو نہیں بدلنے چاہیں؟ “ انہو ں نے فوراً معذرت کی اور کہا کہ ابھی وہ کسی میٹنگ میں ہیں۔ کچھ دیر بعد کا ل کریں گے،

رابعہ نے سوچا ”لو جی گل مکی“ (بات ختم ہوئی)

مگر نہیں آدھ گھنٹے بعد اسی نمبر سے فون آیا۔ اور ایک صاحب نے کہا ”یہ فواد چوہدری صاحب سے بات کیجئے“
اب کی بار لہجہ و لب اس ریکاڈنگ والی آواز سے مماثل تھا۔ ”جی بہن کیسی ہیں آپ؟ “

اللہ کا شکر ہے۔
انتھالوجی کے علاوہ آپ کا کیا کیا کام ہے؟ ”

رابعہ نے سب بتایا۔ ”ہم سب“ کا بھی بتایا۔

” آپ کا گھر اپنا ہے“
”جی“

”پرسنل گاڑی ہے؟ “
” جی“

” پرسنل جاب ہے؟ “
” نہیں مگر مجھے کرنی بھی نہیں۔ “

”آپ کا سورس آف انکم کیا ہے؟ “
” وہی جو روایتی مشرقی گھرانو ں کا ہو تا ہے۔ باپ بھائی“

” آپ شادی شدہ ہیں؟ “
” نہیں یہ حادثہ بھی نہیں ہوا“

”مگر یہ سب ذاتی سوالات ہیں۔ جن سے کسی حکو مت کا کوئی تعلق نہیں۔ حکومت مصنفین کو جب اپروچ کرتی ہے تو دومقاصد ہو تے ہیں۔ انعام یا قلم کی لین دین۔ جس میں ذاتی سوالات نہیں پو چھے جاتے۔ میں نے بہت اچھے ادارو ں کے ساتھ کا م کیا ہے کسی نے کوئی ذاتی سوال کبھی نہیں کیا۔ یو ں بھی میں قلم کی قیمت نہیں لگا نا چاہتی“

”نہیں بہن ہمیں یہ معلو مات ہو نگی تو ہی ہم آ پ کی کوئی مدد کر سکیں گے“
”اچھا تو میں اپنی بہن کے لئے کیا کر سکتا ہو ں؟ “
” لاہور کا پا نی صاف کروا دیجئے“

” بہن یہ تو پچھلی حکومت کا خراب کیا ہوا کام ہے۔ خیر میں دو تین دن میں سوچ کر اپنی بہن کو فون کرو ں گاکہ ہم اپنی بہن کے لئے کیا کر سکتے ہیں“

اس کے بعد دونوں بہن بھائی میں اخلاقی سلام دعا بہت تہذیب کے ساتھ ہو ئی۔

تب رابعہ کو تجسس ہوا کہ باقی اچھے لکھنے والو ں سے ان کی کیا بات ہو ئی تو اس نے اپنے عمران سیریز کے جاسوسوں سے رابطہ کیا۔ تو پتا چلا سب سے سوال یہی تھے۔ جن مصنیفین نے ”اعتبار محبت“ کر لیا تھا۔ بھائی لوگ ان کے ساتھرابطے میں تھے۔

خیر اس کے بعد یک دم منظر نا مہ بدلا۔ اور وزاتیں ختم کرہو گئیں۔ رابعہ کی کہا نی حال سے زمانہ جہالت میں چلی گئی۔ کیونکہ وہ اس لمحے کسی طور بھی لکھنے کے قابل نہیں تھی۔

ایک بار پھر خبر تازہ ہو ئی کہ فواد بھائی سائنس اور ٹکنالو جی پہ چھا گئے ہیں۔

تو فواد بھائی بات کچھ یو ں ہے کہ آج کل دو فوادہی چھائے ہوئے ہیں۔ ایک فواد چوہدری دوسرا فواد خان۔

افواد خان تو خیر ایسا بھائی ہے کہ دو چار لفافے و ڈبے پکڑتا ہے بہنو ں کو دیتا ہے اور کہتا ہے ”جیتو پاکستان“ بس اس کی کہانی اتنی سی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اصل فواد چوہدری کو ن ہے؟ اور نقلی کو ن ساہے؟ رمضان ہے تو نفلی کون ہے؟
فواد بھائی اب آپ کی بہن آ پ اتنا تو کہہ ہی سکتی ہے کہ میرے بھائی کامحکمہ کم از کم لیباٹری ٹیسٹ تو کروا سکتا ہے۔

آپ اپنی بہن کے لئے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ ملک میں فواد چوہدری کی نقلی ملاوٹ پہ کنٹرول کر سکیں۔
آپ کی اس بارے میں کیا حکمت عملی ہو گی۔ آپ کی بہن منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).