کار ساز: غافر شہزاد کے افسانے


\"nasirفن تعمیر، غافر شہزاد کا پیشہ ہے، مگر اس فن سے ان کی دل چسپی پیشہ ورانہ سطح تک محدود نہیں۔ پیشہ ورانہ دل چسپی کی بھی اپنی اہمیت ہے، کیوں کہ اس کے بغیر پیشے کے تیکنیکی مسائل پر ماہرانہ دست رس حاصل نہیں ہوسکتی۔ لیکن فن تعمیر کی روح میں تیکنیکی مسائل کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ فن تعمیر کو بنیادی فن قرار دیا گیا ہے، جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ دیگر فنون کا سرچشمہ ہے، اور دیگر فنون کو اپنی گود میں جگہ دیتا ہے؛ مثلاً مصوری، خطاطی، شاعری، غنا۔ گوئٹے نے فن  تعمیر کو منجمد موسیقی کہا تھا (گوئٹے کے علاوہ یہ قول شیلنگ اور شلیگل سے بھی منسوب ہے)؛ اس میں اتنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ منجمد ضرور ہے، خاموش اور مردہ نہیں ہے؛ ہم فن تعمیر کی موسیقی سن سکتے ہیں، وہ موسیقی جو تہذیب کے سر تال سے مرتب ہوتی ہے۔ ایک عظیم عمارت، ایک نظم کی طرح ایک شخص کا کارنامہ ہوسکتی ہے، مگرنظم کے برعکس، عمارت میں شخصی خصوصیات نہیں، تہذیبی خصوصیات ہوتی ہیں؛ فن تعمیر تہذیب کی روح کو پیش کرتا ہے۔ غافر شہزاد، فن تعمیر کی روح یا نئی اصطلاح میں اس کی شعریات سے بھی گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اس بنا پر انھوں نے فن تعمیر اور جنوبی ایشیا میں فن تعمیر کی تاریخ کے حوالے سے کئی کتب اردو میں تصنیف کی ہیں۔ تاہم وہ فن تعمیر سے پیشہ ورانہ اور علمی دل چسپی ہی نہیں رکھتے، جمالیاتی اور تخلیقی دل چسپی بھی رکھتے ہیں۔ وہ قدیم عمارتی شاہکاروں، مساجد، میناروں، مزارات کی موسیقی کو سنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارساز کے دوایک افسانوں کو چھوڑ کر ہر افسانے میں عمارت ایک کردار کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ عمارت سازی اور بیانیے کے فن میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ ہر عمارت کی ایک کہانی ہے، اور اس کہانی کا مرکزی کردار خود عمارت ہے، اور ہر کہانی عمارت کی مانند تعمیر کی جاتی ہے۔

 غافر شہزاد نے برصغیر میں ابتدائی مسلم عہد، مغل عہد یعنی قبل نو آبادیاتی عہد، نو آبادیاتی عہد اور مابعد نو آبادیاتی عہد کی عمارات کی کہانیاں لکھی ہیں۔ البتہ زیادہ تر عمارات لاہور کی ہیں۔ ان میں مرقد سید ہجویر، عا لمگیری مسجد، لاہور ہائی کورٹ کی عمارت اور مینار پاکستان شامل ہیں۔ دیگر کہانیوں میں عمارتیں ایک اہم کردار کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاً’ کارساز‘، ’سمتوں کے اسیر‘’، آب شفا، خاک شفا‘میں۔ اوّل الذکر چاروں افسانوں میں عمارتیں ہی بیان کنندہ ہیں؛ وہ اپنی زبانی اپنی آپ بیتی بیان کرتی ہیں۔ غافر شہزاد نے ان کی آپ بیتی کو آپ بیتی ہی رہنے دیا ہے، افسانہ نہیں بننے دیا۔ اس بات کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ان آپ بیتیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے، ان میں افسانوی فنتاسی اورافسانوی حیرت کی توقع نہ رکھی جائے۔ ہرچند یہ عمارتیں خود پر گزرنے والے واقعات و سانحات کا بیان کرتے ہوئے افسانوی پیرایہ اختیار کرتی ہیں، مگریہ پیرایہ درست تاریخی حقائق کو چھپانے، بدلنے یا مسخ کرنے کا مرتکب نہیں ہوتا۔ غافر شہزاد نے کہیں عمارتوں کے مخصوص عمارتی تشخص کا خیال رکھا ہے تو کہیں عمارتوں کو انسانوں کی مانند سمجھا ہے۔ ’میں ہوں مسجد عالمگیر‘ کی ابتدا ہی اس سطر سے ہوتی ہے کہ ”ہم عمارتیں بھی انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ہماری استقامت بھی زمین کی مضبوطی سے وابستہ ہے“۔ یعنی انسان اپنی زمین کی پیداوار ہیں، اور عمارتیں اپنی تہذیب کا مظہر ہیں، اور غافر شہزاد کی نظر میں تہذیب کی جڑیں زمین میں ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ تہذیبی مظاہر کا مطالعہ کرتے ہوئے، ایک قسم کی رومانوی قدامت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں؛ ان کی نظر میں جو شے جس قدر قدیم ہوتی ہے، اسی قدر عظیم، مقدس، پاکیزہ اور مثالی ہوتی ہے؛یعنی جو شے ہماری معاصر حسیت سے جس قدر اجنبی ومختلف ہو، وہ اسی قدر قابلِ تقلید ہے۔ غافر شہزاد کا نقطہ ءنظر دوسرا ہے۔

غافر شہزاد ہر عمارت کی اصل شکل و ہیئت کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں کہ جسے عمارت کی جمالیات کہا جاتا ہے، وہ اس کی اصل \"ghafferشکل و ہیئت میں ہے، اور جہاں قدیم عمارتوں کی بیرونی یا اندرونی ہیئت میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کی جاتی ہے توغافر شہزاد اسے عمارت کی جمالیاتی ہیئت میں در اندازی پر محمول کرتے ہیں، اور اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مثلاً ’دولخت ‘میں لاہور ہائی کورٹ کی عمارت کی کہانی ہے، جسے جدید کاری اور نئے زمانے کی ضرورتوں کے نام پر اسے اندر سے بد ل دیا گیا ہے۔ غافر شہزاد کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے یہ اقتباس دیکھیے:

مجھ تک آنے والے سبھی میری طرح دو لخت ہیں۔ باہر سے کچھ، اندر سے کچھ۔ باہرسے قدیمی، روایتی، اندرسے جدید اور ماڈرن، اور جدید عہد میں انصاف ملتا نہیں، خریدا جاتا ہے۔ کہیں خرید و فروخت کے اس کھیل کے اسباب میں میرے اندرون کی جدیدیت تو کسی سطح پر شامل نہیں؟

اگر ہم دولخت کی جگہ دوغلیت یا Hybridityکا لفظ استعمال کریں تو شاید اس صورتِ حال کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں، جسے اس افسانے میں پیش کیاگیا ہے۔ یہ عمارت نو آبادیاتی عہد میں تعمیر کی گئی تھی، لہٰذا اس کی کہانی نوآبادیاتی باشندوں کی کہانی سے مختلف نہیں۔ جن لوگوں نے اس عمارت کو جدید بنانے کی کوشش کی، انھیںنو آبادیاتی دوغلیت(Colonial Hybridity) ورثے میں ملی تھی۔ افسانہ نگار جنھیں دو لخت کَہ رہا ہے، وہ اصل میں ثقافتی اور نفسیاتی دوغلیت کا شکار ہیں۔ یعنی وہ قدیم وجدیدکی ایک انوکھی کش مکش میں مبتلا ہیں؛کبھی ان کا جھکاﺅ قدیم کی طرف ہوتا ہے، اور کبھی جدید کی طرف، اور بعض اوقات وہ ایک ہی وقت میں قدامت و جدیدیت کے دو جذبی میلان کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ کبھی جدیدیت کو قدامت کی منطق سے ردّکرتے ہیں، اور کبھی جدیدیت کی منطق سے جدیدیت کو نشانہ ءطنز بناتے ہیں؛حقیقتاً وہ نہ پیچھے لوٹ سکتے ہیں، نہ آگے بڑھ سکتے ہیں؛وہ ایک غیر فیصلہ کن کش مکش، اور متذبذب کھینچا تانی کی حالت میں مبتلا ہیں۔

 غافر شہزاد نے ان عمارتوں کی کہانیاں لکھتے ہوئے، ردّنو آبادیاتی نقطہ ءنظر اختیار کیاہے۔ قبل نو آبادیاتی عہد کی عظیم عمارتوں کے بیانیے اپنی زبان میں لکھنا، اور اپنے تناظر میں لکھنا ایک ردّنو آبادیاتی رویہ ہے۔ یہ رویہ ہمیں مسجد عالمگیری کے بیانیے میں بہ طور خاص نظر آتاہے۔ سترھویں صدی میں تعمیر ہونے والی اس مسجد پر بہت کڑا وقت گزرا؛ سکھوں اور انگریزوں کے دور میں۔ سکھ عہد میں یہاں گھوڑے اور انگریز عہد میں بھاری بوٹوں والے فوجی دندناتے تھے۔ ایک صدی تک یہ مسجد اذان سے محروم رہی۔ سر سکند حیات نے مسلمان زمینداروں پر ٹیکس لگا کر رقم جمع کی اور بیس سال کے عرصے میں اس کی قدیم ہیئت بحال ہوئی۔ نو آبادیاتی عہد میں مغرب کی عظیم الشان ترقی کا کبیری بیانیہ گھڑا گیا، جس کے مطابق مغرب سائنس، عقلیت، تعلیم، ترقی کی علامت تھا، جب کہ مشرق مذہب و اساطیر، جہالت، پس ماندگی کا حامل تھا۔ اس بیانیے کا جوابی بیانیہ غافر شہزاد نے مسجد کی زبانی پیش کیا ہے۔ ۹۲اکتوبر ۹۰۰۲ءکو ہیلری کلنٹن نے اس مسجد کا دورہ بھی کیا۔ مسجد، ہیلری سے، جو سفید مغربی دنیا کی نمائندہ ہے، گفتگو کرتی ہے:

میں نے اسے[ہیلری کلنٹن کو] بتایا:” جب تمھارے ملک کی تیرہ ریاستیں آزادی کا اعلان کررہی تھیں، اس وقت میری تعمیرکو چار سال گزر \"carsaaz\"چکے تھے“۔ ہیلری کو یقین نہ آیا۔ میں نے پھر ایک ایک لفظ دہرایا۔ ”میری تعمیر کو چار سال گزر چکے تھے، جب تمھارے امریکا کی تیرہ ریاستوں نے ۷۷۶۱ءکو اعلان آزادی کیا۔ جب لندن کا سینٹ پال کیتھڈرل بناتو اس وقت میری عمر ایک سو ستائیس برس تھی، اور جب امریکا کا واشنگٹن ڈی سی کا گنبد تعمیر ہوا، میرے گنبدوں کی عمر ایک سو پینتیس بر س ہوچکی تھی اور ہاں جب میری تعمیر ہوئی اس وقت کے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے زیر تصرف رقبہ موجودہ امریکا کی تمام ریاستوں کا ایک تہائی تھا اور یہاں اس وقت لوگوں کی آبادی موجودہ امریکا کی آبادی کا نصف تھی“۔

اس گفتگو میں سفید، مغربی دنیا کے دعووں کا جواب پیش کیا گیا ہے۔ ردّنو آبادیاتی مطالعات میں جب اس قسم کے جوابی بیانیے وضع کیے جاتے ہیں تو بنیاد پرستانہ دائیں بازو کی فکر کے حاوی ہونے کا امکان ہوتا ہے؛یہ فکر، قبل نو آبادیاتی عہد کو مثالی عہد بنا کر پیش کرتی ہے، اور اس پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی راہ مسدود کرتی ہے۔ غافر شہزاد ’بنیاد پرستانہ دائیں بازو‘ کی فکر کے اسیر نہیں ہوتے۔ وہ اگر استعمار کاروں کے دعووں کے تضاد کی نشان دہی کرتے ہیں تو مغل مسلمانوں کے ملوکانہ رویوں کاذکربھی کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں”یہ بات بہت عجیب ہے کہ ایسی عالیشان اور پروقار مسجد کے ماہر فن تعمیر کا کہیں نام محفوظ نہیں“۔ اگرچہ وہ اس کی ایک توجیہ یہ کرتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ نام کے لیے کام نہیں کرتے تھے، لیکن اگر بادشاہ کا نام مسجد سے وابستہ ہوسکتا ہے تو اس کا تخیل پیش کرنے والے کا کیوں نہیں؟اسی طرح’ سمتوں کے اسیر‘ میں کہانی کا مرکزی کردار، اے جے پی کہتاہے:” یہ مسجد مجھے اس لیے بھی عزیز ہے کہ اس کے بنانے والے اسی دھرتی کے لوگ تھے، وگرنہ بادشاہی مسجد لاہور تو غیر ملکی کاری گروں اور غیر ملکی مغل بادشاہوں نے ملتان کے کسانوں سے فصلوں کا خراج لے کر تعمیر کروائی“۔

عمارتوں کے بیانیوں میں غافر شہزاد کا نقطہ ءنظر ’عوامی، ترقی پسندانہ ‘ہے۔ یعنی انھوں نے ایک نہایت مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ عمارت، تہذیبی مظہر ہے؛ہر عمارت اس جمالیات کی حامل ہوتی ہے، جو اس کی اصلی شکل وہیئت نے اسے دی تھی۔ اس طرح کسی بھی عمارت کا بیانیہ، اس کی اصلی شکل و ہیئت کے تحفظ کی آرزو لیے ہوئے ہوتا ہے، اور یہی آرزو احیا پسندی، قدامت پرستی، دائیں بازو کی مذہبی، تہذیبی فکر کی طرف آدمی کو ہانک کر لے جاتی ہے۔ دوسری طرف عوامی، ترقی پسندانہ نقطہ ءنظر، ان سب رویوں پر تنقید کرتا ہے جو احیا پسندی اور قدامت پسندی سے عبارت ہیں۔ غافر شہزاد کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے بیانیوں میں عمارتوں کی اوّلین تہذیبی جمالیات کا تحفظ بھی چاہتے ہیں، اور دائیں بازو کی احیا پسند مذہبی، تہذیبی فکر سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ وہ اس مشکل کو محسوس کرتے اور ا س کا سامنا کرتے ہیں۔ چناں چہ جہاں بھی وہ دیکھتے ہیں کہ عمارتوں کی عوامی، ترقی پسند جمالیات میں مذہبی آئیڈیالوجی مداخلت کررہی ہے، وہ اس پر تنقید کرتے ہیں۔ ’من کہ مینار پاکستان‘ کا یہ اقتباس دیکھیے:

میرا جو ڈیزائن ابتدائی طور پر تیار کیا گیا تھا، اس میں صدر پاکستان نے دو تبدیلیاں کیں۔ پہلی یہ کہ میری چوٹی پر ایک گنبد دار اسٹرکچر کا اضافہ کردیا گیا۔ اس وقت کی عسکری آمریت نے گویا ایک عوامی یادگار کو اسلامی ٹوپی پہنا کر مسلمان کردیا تھا۔ یہ سبز گنبد آج بھی میرے سر پرہے، جس کا بظاہر کوئی بصری وجمالیاتی تعلق یا مشابہت میرے باقی وجود سے نہیںبنتی۔

 غافر شہزاد کو مینار پاکستان کی تعمیر میں مذہبی آئیڈیالوجی کی شمولیت پر جمالیاتی اور نظریاتی دونوں زاویوں سے اعتراض ہے۔ وہ جنوبی ایشیائی عمارات کے مﺅرخ کے طورپر جانتے ہیں کہ قبل نو آبادیاتی عہد میں عمارتوں میں تہذیبی عنصر شامل ہوتا تھا، مگر قیام پاکستان کے بعد نظریاتی، مذہبی عنصر شامل ہوگیا۔ (اس ضمن میں وہ مینار پاکستان اور فیصل مسجد کا ذکر کرتے ہیں)۔ ویسے عمارتوں کے علاوہ ملک کے آئین میں، ادب میں، نصابات میں، میڈیا میں ہرجگہ یہ نظریاتی، مذہبی عنصر شامل ہوا۔ طالبان سے لے کر القاعدہ و داعش کی نظریاتی بنیادیں تلاش کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بہ ہر کیف غافر شہزا، مینار پاکستان کی زبانی بیان کرتے ہیں:” میں جب بھی مسجد عالمگیر کی جانب دیکھتا ہوں تو اس کے گنبدوں اور میناروں کی چوٹیوں پر مجھے گنبد خضریٰ کا عکس نہ تو شکل و شباہت میں اور نہ ہی رنگ میں نظر آتا ہے۔ مغلوں نے ہندوستان میں سارے مذاہب کے ماننے والوں کو ایک چھت تلے لاکر ڈھائی سو سال حکومت کی تھی، مگر انگریزی عہد میں ہندواور مسلمان کی اعتقادی تفریق کا پرچم اتنا بلند کردیا گیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے اپنے الگ ملک کا مطالبہ پیش کردیا“۔ غافرشہزاد، مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے پر سوال نہیں اٹھاتے ؛وہ سوال اٹھاتے ہیںکسی بھی گروہ کے اس اشرافی، اجارہ دارانہ کردارپر جو دیگر گروہوں کو خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہو۔

 یہی عوامی، ترقی پسندانہ نقطہ ءنظر انھیں مزارات، اور ان سے وابستہ اعتقادی فضا کی کہانیاں لکھنے کی تحریک دیتا ہے۔ تمام عوامی، ترقی پسند ادیبوں، دانش وروں کو اس وقت ایک آزامائش سے گزرنا پڑتا ہے، جب وہ عوام کے اعتقادی معاملات کو موضوع بناتے ہیں۔ اعتقادی معاملات، معاشی معاملات سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ معاشی پس ماندگی کی حقیقت اور سبب کو سمجھنا آسان ہے، مگر اعتقادات کے سلسلے میں پس ماندگی کا تصور قائم کرنا آسان نہیں۔ چناں چہ روشن خیال دانش ور عموماً عوام کی اعتقادی دنیا میں مداخلت سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام اور دانش وروں میں مغائرت جنم لیتی ہے۔ یہ موضوع ہمیں غافر شہزاد کے بعض افسانوں میں ملتا ہے۔ انھیںاپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائی کے سلسلے میں پنجاب کے مزارات پہ جانا پڑتا ہے۔ وہ مزارات پر ایک زائر کے طور پر نہیں، ایک ماہر فن تعمیر کے طور پر جاتے ہیں؛بایں ہمہ وہ مزارات کے فن تعمیر کے تیکنیکی مسائل کے ساتھ ساتھ وہاں کی ثقافتی، عتقادی زندگی کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ چند کہانیاں اسی مطالعے کا ثمر محسوس ہوتی ہیں۔ ان کہانیوں میں کا بیان کنندہ، اور کہیں کہیں کبیری کردار ایک ماہر فن تعمیرہے۔ اس ضمن میں ’آب شفا، خاک شفا‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ یہ افسانہ بہاول پور کے نواح میں واقع حضرت سائیں نوراللہ کی درگاہ کی اعتقادی فضا کا بیانیہ ہے۔ سائیں نوراللہ کا مزار بستی کے درمیان ایک اونچی جگہ پہ تھا، مگر رفتہ رفتہ ارد گرد کے گھر وںاور گلیوں کی سطحیں بلند ہوتی گئیں ؛اس بنا پر بارش کا پانی سائیں کے مزار کے احاطے میں جمع ہوجاتا۔ لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ مزار کی گیلی چکنی مٹی شفابخش ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار کو محکمہءاوقاف کی طرف سے یہاں بھیجا گیا ہے تاکہ وہ مزار سے پانی کی نکاسی کا انتظام کرے۔ وہاں پہنچ کے اسے احساس ہوا کہ یہ کام آسان نہیں۔ اس کے علم میں یہ بات آئی کہ” تالاب کے پانی اور گیلی چکنی مٹی سے شفا یابی پر لوگوں کا یقین تھا اور اس یقین سے[پر؟] درگاہ کی سالانہ آمدنی کا کلی انحصار تھا“۔ اس کے لیے اصل مشکل یہی تھی کہ اسے نکاسی آب کا ایک ایسا طریقہ وضع کرنا تھا کہ لوگوں کے اعتقاد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اسے جلد یہ بات سمجھ آ گئی کہ درگاہ کی آمدنی کا سارا انحصار لوگوں کے اعتقاد پرہے، اس لیے آمدنی کی فکر کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے یہ آسان تھا کہ وہ درگاہ کے اندر پانی کا پمپ لگانے کی تجویز دیتا، مگر اس سے عقیدت مندوں کے شدید ردّعمل کا خطرہ تھا۔ اعتقاد کو ٹھیس لگنے سے لوگ کس قدر غم وغصہ کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، اس سے وہ بے خبر نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ عوامی ردّ عمل سے خوف زدہ تھا، وگرنہ اسے ان کہانیوں سے کوئی سروکار نہیں تھا، جن کے مطابق سائیں کی درگاہ کو صرف اللہ کا نور ہی منور کرتا ہے، بجلی کی روشنی نہیں، اور اسی لیے انھیں نوراللہ کہا جاتا تھا۔ افسانے کا بیان کنندہ خود کو روشن خیال کہتا ہے، اور عوام کے اعتقادات کو ضعیف الاعتقادی کا نام دیتا ہے۔ بہ ظاہر یہ چھوٹی سی بات ہمیں ایک بڑے سماجی مسئلے کی لم تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ روشن خیال طبقے کی عوام سے مغائرت وبیگانگیت، ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اقلیتی روشن خیال طبقہ، عوام کے اعتقادات میں جذباتی شرکت نہیں کرتا، مگر انھی اعتقادات کی جذباتی قوت سے خوفزدہ رہتا ہے۔ اس خوف کے سبب وہ عوام کے اعتقادات کو روشن خیالی سے بدلنے کی کوشش کرنے کے بجائے، اپنی ذہانت اور تدبیر کو انھیں برقرار رکھنے میں صرف کرتا ہے، اور اس عمل کے پیچھے خوف کارفرما ہوتا ہے۔ یہ خوف عقل کی طاقت پر عدم یقین اور جذبے کی طاقت پر اندھے یقین کا پیدا کردہ ہے۔

 بالآخروہ ایک ایسا طریقہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ جس سے مزار کے احاطے میں جمع ہونے والا پانی بھی نکالنے کا انتظام ہوجاتا ہے، اور عوام کی عقیدت کو بھی زک نہیں پہنچتی۔ کسی زمانے میں وہاں ایک کنواں تھا، وہ اسے بستی کے لوہار کی مدد سے فعال کردیتا ہے۔ لوگ اس کی تعبیر یہ کرتے ہیں کہ سائیں نے اپنی قدیمی کرامت بحال کروالی ہے۔ چوں کہ لوہار نے کنواں فعال کیا، اس لیے وہ بھی عوام کی عقیدت کا مرکز بن گیا۔ لوگ جیتے جی، اس کے ہاتھ چومتے اور مرنے کے بعد اس کا مزار بنا اور سائیں نوراللہ کے ساتھ اس پر بھی عقیدت کے پھول چڑھائے جانے لگے، اور دعائیں مانگی جانے لگیں۔ افسانے کے بیان کنندہ کو اس بات کا افسوس ہے کہ اس کہانی میں کہیں اس کا نام نہیں تھا، حالاں کہ اس نے کنواں فعال کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہاں ایک بار پھرہم اس بیگانگیت کو محسوس کرتے ہیں، جو عوام اور روشن خیال طبقے کے درمیان موجود ہے، لیکن اس بار بیگانگیت کا مظاہرہ عوام کی طرف سے ہوتا ہے۔ عوام اپنے اعتقاد میں اپنی بستی کے لوہار کو تو شامل کرلیتے ہیں، مگر ایک بڑے شہر سے آئے روشن خیال ماہر فن تعمیر کو نہیں۔ علاوہ بریں یہ افسانہ عوام کے اعتقاد یا ضعیف الاعتقادی کے وجود میں آنے کی حرکیات کو ایک نیم طنزیہ پیرائے میں پیش کرتا ہے۔

 اعتقاد کی حرکیات، افسانے ’کارساز‘ کا موضوع ہے، مگر اس میں افسانہ نگار کا پیرایہ سریت آمیز ہے۔ یہ افسانہ ایک ایسے مکان، اور اس کے مکین کی کہانی پیش کرتا ہے، جسے حضرت شاہ کمال الدین ؒکے جنوب میں تعمیر کیا گیاتھا۔ یہ مکان احمد کے لیے بہ طور خاص تعمیر کیا گیا تھا، اور اس کا نقشہ محکمے کے ہیڈ ڈرافٹسمین نے تیار کیا تھا۔ اس طرح مکان کی کہانی چار کرداروں کے گرد گھومتی ہے: مزار، مکان، احمد اور ہیڈ ڈرافٹسمین۔ احمد کو حضرت شاہ کمال الدین ؒ کے مزار کے قریب رہنے کے سبب، اپنے مکان کے محفوظ ہونے کا یقین رہتا ہے، اور اسے ایک سبز پوش بزرگ نظر آتے ہیں، رات کو، دن کو، چلتے پھرتے ہوئے۔ ہیڈ ڈرافٹسمین نے مکان کا نقشہ تیار کرتے ہوئے یہ خواہش دل میں پال کی تھی کہ اسے ایک دن، یہ مکان الاٹ ہوجائے گا۔ وہ احمد کی اگلے گریڈ میں ترقی کے بعد، اس سے کہتا ہے کہ وہ اس کے لیے یہ مکان خالی کردے، مگر وہ آمادہ نہیں ہوتا۔ ایک رات ہیڈڈرافٹسمین کو دل کا دورہ پڑتا ہے؛اس کی بیٹی احمد کے گھر دوڑی ہوئی آتی ہے، گھنٹی بجاتی ہے، دروازہ پیٹتی ہے، مگر احمد کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ اس وقت سبز پوش بزرگ کو خواب میں یہ کہتے ہوئے سنتا ہے کہ اپنا بوجھ خود اٹھاﺅ۔ یہاں وہ ژنگ کی اصطلاح میں ہم وقتیت یعنی Synchronicityکے تجربے سے گزرتا ہے؛ ہیڈڈرافٹسمین اور سبز پوش بزرگ ایک ہی وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ ان واقعات میں نامحسوس انداز میں ربط تلاش کرتا ہے، اور ہیڈڈرافٹسمین کی نعش سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کرروتا ہے؛ یہ بات معرض التوا میں رہتی ہے کہ وہ ہیڈ ڈرافٹسمین کی موت کا خود کو ذمہ دار سمجھ کررورہا ہے، یا سبز پوش بزرگ کے چھوڑ جانے پر۔ اس مجموعے کا یہ واحد افسانہ ہے جس میں واقعہ وفنتاسی کی سرحدیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں؛ افسانہ نگار نے حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ، ایک نوع کی سریت کو واقعے اور اسلوب دونوں میں شامل کیا ہے۔ جب کہ باقی سب افسانوں میںغافر شہزاد کا اسلوب حقیقت نگاری پر مبنی ہے۔

حقیقت نگاری کا اسلوب، حقیقت کے ایک خاص تصور سے پیدا ہوتا ہے۔ حقیقت:نفسیاتی، تاریخی، سماجی، اشتراکی، جادوئی، تشکیلی ہوسکتی ہے، اور اسی بنا پر حقیقت نگاری کے اسلوب میں بھی نفسیاتی، تاریخی، سماجی، اشتراکی، جادوئی، تشکیلی عناصر شامل ہو تے ہیں۔ غافر شہزاد حقیقت کا تاریخی اور سماجی تصور رکھتے ہیں۔ تاریخی حقیقت کا تعلق اگر ماضی سے ہے تو سماجی حقیقت، معاصر عہد سے متعلق ہے۔ دوسرے لفظوں میں تاریخی حقیقت ہی سماجی حقیقت کو جنم دیتی ہے۔ غافر شہزاد نے عمارتوں کی کہانیوں میں تو تاریخی حقیقت کالحاظ رکھا ہے، مگر دیگر افسانوں کی بنیاد، جن کا موضوع لاہور کی شہری، ثقافتی، سماجی، ادبی زندگی ہے، سماجی حقیقت نگاری پر رکھی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ان افسانوں میں تاریخی اور سماجی حقیقت کا فرق تو پیش نظر رکھتے ہیں، مگر بنیادی اہمیت سماج کی معاصر صورت حال کو دیتے ہیں۔ اس ضمن میں اہم افسانہ ’لمحہ ءموجود میں تحلیل شخص‘ ہے۔ افسانے میں ان سب دانش وروں کو لمحہ موجود میں تحلیل ہوکر ماضی کے کردار قرار دیا گیا ہے، جو معاصر عہد کی حقیقی سماجی صورت حال میں شریک نہیں۔ افسانے میں الحمراکی چندثقافتی اور ادبی تقریبات کے حوالے سے یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ آج کے دانش ور ماضی کے ادب کا ذکر کرتے ہوئے، حال سے بیگانہ ءمحض معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی یہ بیگانگی فلسفیانہ نوعیت کی نہیں، بلکہ اس کارپوریٹ کلچر کی پیدا کردہ ہے، جس کا مقصد اشرافیہ کو تفریح مہیا کرکے دولت کماناہے۔ افسانے کے بیان کنندہ کی اس رائے سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ منٹو کے ’نیا قانون‘، ’کالی شلوار‘، ’موذیل‘اور’ٹھنڈا گوشت‘ قصہ پارینہ ہوگئے ہیں۔ تسلیم کہ ان افسانوں کاجغرافیائی منظر نامہ بلاشبہ بدل گیا ہے، مگر ان میںمذکور واقعات اور کرداروں کی نفسی صورتِ حال آج بھی معنی خیز ہے۔ بایں ہمہ افسانے کے بیان کنندہ کا یہ سوال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا: ” کیا ہم مردہ پرست ہوگئے ہیں، ہماراماضی جومردہ ہوچکا ہے، اس کی پرستش کرکے ہم لمحہ موجود کے لیے کون سا نسخہ کیمیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟“ بیان کنندہ کے لیے یہ سوال محض دانش ورانہ نہیں، وجودی نوعیت کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سوال اس کے ذہن کو انگیخت کرنے یا پریشان کرنے کے بجائے، اس کے وجود کو تحلیل کر ڈالتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments