کبوتر کیسے اُڑ گیا جمیل نقش؟


جمیل نقش کے اسلوب کی ایک خاص صفت جس کا احساس وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا گیا، یہ تھی کہ ان کی لائن بہت مضبوط ہوتی تھی۔ خط اس طرح کھینچتے تھے کہ محض ایک لکیر سے سارے خط و خال اجاگر ہو جاتے تھے۔ چُست جسم کی بندش جس کی ایک ایک مچھلی پھڑک رہی ہے۔ گولائیاں واضح ہیں اور دائرے مکمل۔ میں نے ان دنوں اناٹومی پڑھنا شروع کی تو ان کی اس صفت کا احساس پوری شدّت کے ساتھ ہوا۔ جسم کے سارے پٹّھے واضح۔ میں نے اپنے اس حیرت کا ان سے ذکر کیا تو ہنس کر بتایا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ انھوں نے باقاعدہ ماڈلز سے مصوری سیکھی ہے۔ تربیت حاصل کی ہے۔ اسی لیے تو ان کے یہاں لکیر بول اٹھتی ہے۔

اسی زمانے میں ان کی شہرت پھیلی تو آہستہ آہستہ ان کا نام صادقین، علی امام، بشیر مرزا، احمد پرویز اور سنگ تراش شاہد سجاد کے ساتھ لیا جانے لگا۔ان کی بدولت مصوری اور جدید فن کا نیا باب وا ہوگیا۔ اس وقت یہ لکھنے بیٹھا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ سارے باکمال لوگ اسی شہر میں موجود تھے، فن کو نئی شناخت دے رہے تھے اور زندگی کو فن کے نئے معنی۔ مگر پھر اس ملک اور اس شہر پر پیمبری وقت آیا، تاش کے پتّوں کی طرح سب بکھر کر رہ گئے۔

محفلوں کی صاحب سلامت، چند بار کی ملاقاتیں، ان کی زندگی کے رنگ ڈھنگ جو کُھلی کتاب کی طرح تھے___ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جمیل نقش مائونٹ اولمپس کی چوٹیوں میں منڈلانے والے بادلوں میں گم ہوگئے۔ ان کی تصویریں باقاعدگی سے نظر آتی تھیں۔ اور کبوتر جو ان کے دستخط کی حیثیت رکھتے تھے۔

پھر ایک ذہین اور باصلاحیت نوجوان سے تعارف ہوا جس کی بدولت جمیل نقش سے میرا تعلق بدل گیا، اس میں احترام کی تہہ دوہری ہوگئی۔

’’ان کا نام شیزان ہے۔۔۔‘‘ ان کی ٹیم کے کسی شخص نے تعارف کرایا۔

ایک نیم مسکراہٹ کے ساتھ اس نے تصحیح کی۔ ’’میرا نام سیزان ہے۔ آپ نے صحیح پہچان لیا۔ اس مصوّر کے نام پر میرے والد نے نام رکھا تھا۔۔۔‘‘

پھر پتہ چلا کہ فرانسیسی مصوّر سیزان کے نام پر اپنے بیٹے کا نام رکھنے والے کوئی اور نہیں جمیل نقش ہیں۔ جمیل نقش سے نہیں، ان کے بیٹے سے ملنا جلنا بڑھ گیا کیونکہ وہ ماہر تعمیرات تھے اور انھوں نے ہمارے لیے مکان کا نقشہ بنایا۔ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں ایک مصوّر کی نفاست عیاں تھی اور مکان کی بیرونی چھت، دیوار، منڈیر میں اقلیدس کا سا تناسب نظر آتا تھا۔ جیسے تصویر اپنے مصوّر کا نام بول اٹھتی ہے اسی طرح کوئی پوچھتا تھا تو ہم بڑے فخر سے بتاتے کہ سیزان ہیں اور کیوں نہ ہو، جمیل نقش کے بیٹے ہیں۔

لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ مکان کا نقشہ کچھ کہتا ہے اور کہانی کسی اور رُخ چل پڑتی ہے۔ ڈیفنس کے علاقے میں گندے پانی کی نکاسی کا ناقص انتظام جس کی وجہ سے گٹر اُبلنے لگے اور دونوں طرف بن جانے والے اونچے مکانوں کی وجہ سے روشنی کی کمی بھی اس مکان کا حصّہ بن گئی۔ اب وہ مکان بھی خوابوں، خیالوں میں نظر آتا ہے اور میں اس کے در و دیوار کے آس پاس بھٹکتا رہتا ہوں۔ اپنے عزیز دوست اور معاصر شاعر کاشف غائر کا شعر حافظے میں جاگ اٹھتا ہے:

کون سمجھا ہے بام و در کا دکھ

یوں تو افراد گھر میں اتنے ہیں

پھر یہ شعر جل کر بجھ جاتا ہے۔ گھر کی بات بھائی جون ایلیا کی یاد دلاتی ہے__

گھر تو ایسا کہاں کا تھا لیکن

دربدر ہیں تو یاد آتا ہے

گھر بھی یاد آیا اور گھر کے حوالے بھی یاد آئے۔

سیزان نقش مکان بناتے رہے مگر اس کے ساتھ انھوں نے ایک کام ایسا کیا جو ان کی طرف سے اپنے والد کے لیے خراجِ تحسین بھی ہے اور ان کے نام کی یادگار بھی۔ انھوں نے اپنی والد کی ہزاروں تصویروں میں سے انتخاب کرکے جمیل نقش میوزیم بنا دیا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ خوش قسمتی سے میں اس میوزیم کی افتتاحی تقریب میں شریک تھا۔

اپنے دفتر کی دیواروں میں وسعت پیدا کرکے ان کو نگار خانہ بنا دیا جہاں دو منزلہ عمارت تصویروں سے مزین ہے۔ ایک فن کار کی زندگی بھر کی ریاضت کی نمائندگی کرنے والی تصویریں اپنے اندر ایک جہانِ خط و خال میں جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں اس جگہ کی تشہیر جان بوجھ کر نہیں کی گئی ورنہ بعض لوگ تصویروں میں بھی اعتراض نکال لیتے ہیں۔

تصویروں کے اس ذخیرے میں وقت کا احساس جیسے رُک جاتا ہے۔ بس دیکھتے رہیے اور دامنِ دل میں بھر لیجیے۔ ہاں، میں ان کبوتروں کو کیسے بھول جائوں جو میں نے وہاں سے حاصل کیے تھے۔ جمیل نقش کے مخصوص اندازمیں بیٹھے ہوئے یہ کبوتر اس میوزیم سے ملحق چھوٹی سی دکان سے ملے۔ تصویر خریدنا تو ہمارے لیے ممکن نہیں تھا مگر مٹّی گارے کے یہ کبوتر وقت کے ابدی سکون میں گم متھن سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس وقت میں جس میں ہمارا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا مگر جمیل نقش کی کاریگری کے انداز اس کبوتر کی طرح زندہ ہیں جو اُڑنے کے لیے پرتول رہا ہے۔ جہانگیر کے سامنے سے کبوتر اڑ گیا مگر جمیل نقش کی تصویر والا کبوتر اپنا نقش ثبت کر چکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2