لاشوں پر سیاست کرنے والے کم ظرف گدھ


قمر زماں کائرہ صاحب کے جواں سال برخودار کی ناگہانی موت پر ہر دردِ دل رکھنے والا آدمی اشک بار ہے۔ میری اہلیہ اسامہ کی موت کی خبر سن کر کئی بار فرط جذبات سے آنسو بہا چکی ہیں۔ بچے بھی ملول و مغموم ہیں۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر قمر زمان کائرہ بلا شبہ ان سنجیدہ و فہمیدہ سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جو پارٹی وابستگی سے بالا تقریباً تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی مسئلے پر ان کا تجزیہ نہایت منطقی، مربوط، صائب اور حسب حال ہوتا ہے۔

وہ شدت پسند سیاسی مخالفین کی تبرہ بازی، کھوکھلی بلند آہنگی اور سب و شتم کے باوجود کبھی اپنی زبان کو گالم گلوچ سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ سیاسی زندگی کے علاوہ وہ ذاتی اور مجلسی زندگی میں بھی روایتی رکھ رکھاؤ، مروت، لحاظ، وقار، بردباری، رواداری اور نرم خوئی جیسی صفات سے متصف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مخالفین بھی دل سے ان کی عزت کرتے ہیں۔ سب نے دیکھا کہ انہوں نے نوجوان بیٹے کی موت کی اندوہناک خبر سن کر بھی تحمل، برداشت اور صبر و استقبلال کا مثالی مظاہرہ کیا تھا۔

ان کے جواں سال بیٹے کی مرگِ ناگہانی پر ہر کوئی ان سے تعزیت کر رہا ہے۔ دکھ و کرب کی اس گھڑی میں سب لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سیاسی مخالفین بھی اپنے تمام اختلافات بھلا کر ان سے ہمدردی کر رہے ہیں۔ میاں محمد بخش نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ کسی دشمن کے مرنے پر جشنِ طرب نہیں منانا چاہیے کیونکہ ایک دن ہمارے دوستوں نے بھی یہاں سے کوچ کر جانا ہے۔ مگر افسوس کہ جب قمر زمان اور ان کا غمزدہ خاندان جواں مرگ لخت جگر کا جنازہ کاندھے پر اٹھائے بھاری قدموں اور بوجھل دل کے ساتھ قبرستان کی طرف جارہا ہے تو ایسے میں کچھ عاقبت نا اندیش، بے حیا، سنگ دل، کم ظرف، بے حس اور بے مروت پڑھے لکھے سیاسی مخالفین سب و شتم اور گالم گلوچ کرکے اپنی اوقات دکھا رہے ہیں۔

کئی نام نہاد تعلیم یافتہ سپوتوں نے قمر زمان کے بیٹے کی موت پر گھٹیا سیاست بازی کی بد ترین مثال قائم کی۔ ایسا کرنے والوں میں زیادہ لوگ وہ ہیں جن کی تربیت کپتان صاحب کے بیانات کے زیر اثر ہوئی ہے اور جنہوں نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور بعد ازاں موت پر اپنے گھٹیا بیانوں کے ذریعے ننگ آدمیت کا ثبوت دیا تھا۔ حالانکہ ہمارے ہاں ایسے موقعوں پر بہت اجلی اور اعلٰی ظرف روایات کا اعادہ ہوتا رہا ہے۔

کون اس بات سے آگاہ نہیں کہ جنرل ضیا الحق نے بھٹو خاندان کو کس طرح انتقام کا نشانہ بنایاتھا۔ بھٹو کو ناکردہ جرم کی پاداش میں پھانسی دی۔ بچوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر جھوٹے کیس بنا کرانہیں جگہ جگہ رسوا کیا گیا مگر جب یہی جنرل صاحب ہوائی جہاز کے حادثے میں چل بسے تو محترمہ نے اپنی مشرقی اور خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جذباتی اور منتقم بیان بازی کے بجائے صرف اتنا کہا کہ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ ان کی تربیت بھی اگر بھٹو کے بجائے کسی نام نہاد کپتان نے کی ہوتی تو وہ بھی اس موقعے پر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بہت کچھ کہہ سکتی تھیں مگر اس سے ان کی اپنی باوقار شخصیت ہلکی ہو جاتی۔

آج قمر زمان صاحب کے بیٹے کی جواں مرگ پر انہیں لوگوں کے سیاسی وارث کم ظرفی، بے حسی، سفاکی اور زہرناکی کا گھٹیا ترین مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ سیاسی گدھ ہیں جو لاشوں پر سیاست چمکا کر ننگ انسانیت اوربہیمیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ کیا آج کپتان صاحب یقیناً اپنی اس سیاسی اولاد کی میراث پر فخر کر رہے ہوں گے جس نے ملک میں ایسی گھٹیا، پست، نفرت آمیز اور انسانی اقدار سے گری ہوئی سیاست بازی کی بنیاد رکھی ہے؟ اللہ تعالٰی سیاسی اختلاف کو بدترین دشمنی بنانے والے ایسے لوگوں کو اس طرح کے روح فرسا سانحات سے محفوظ رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).