اسرائیل کی ریاست: آہنی عزم کے اکہتر برس مکمل


ہمارے محلے کی چھوٹی سی مسجد میں بیٹھے قاری صاحب بڑے بڑے خواب دیکھا کرتے تھے اللہ غریق رحمت کرے پوری امت کا درد دل میں سمائے ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں اللہ کے گھر کی خدمت کے عوض انہیں پانسو ماہوار ملتے تھے اور سر بکف و سربلندی کے دعویٰ کے ناتے جمعرات اور گیارویں کا ختم بھی نہ آتا تھا مگر ان سب مشکلات کے باوجود اس وقت بھی اپنے لڑکے کو اعلیٰ کوالٹی کے ”امریکی بادام“ کھلاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ لونڈا جوان ہوکر ثانی صلاح الدین ایوبی بنے گا اور ایک ہزار بادام کھا کر یروشلم فتح کرنے جائے گا۔

چودہ مئی کو اسرائیل کا اکہترواں یوم آزادی منایا گیا تو قاری صاحب یاد آئے ان کا لڑکا یروشلم تو نہ جا سکا مگر پہلے اپنے والد کی سائیکل پر پوش علاقوں کے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے جاتا تھا اب سنا ہے کہ گھر پر ڈالرز کے عوض بچوں کو آن لائن قرآن کریم پڑھاتا ہے اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھ کر صیہونی ریاست کو بد دعائیں دینے لگتا ہے۔

”ظالم قابض اسرائیلی لاکھوں فلسطنیوں کے قاتل یہودی، ظالم یہودی بیت المقدس پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں“۔ کم و پیش یہی جذبات پوری امت مسلمہ کے ہیں اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری گالیوں، لعنتوں، بائیکاٹ کی دھمکیوں، تیس سے پچاس کلومیٹر رینج رکھنے والے ننھے منے القسام راکٹوں اور فلسطینیوں کی لہراتی کلاشنکوفوں سے اسرائیل کا خاتمہ اور فلسطین آزاد ہوجائے گا مگر یقین جانیے ہم غلطی پر ہیں اور قوموں کے عروج و زوال سے نا آشنا ہیں۔

اسرائیل یہودیوں کی دو ہزار سالہ محنت اور پھر سے یروشلم پہنچے کے عزم اور لاکھوں قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ خود سوچئے اگر ایسی قوم کو اگر شکست دینی ہے تو اس کے لئے امت مسلمہ کی تیاری کتنی ہے۔ ہم میں عزم و ہمت اور جذبہ و جنون کتنا ہے اور سب سے بڑھ کر کیا بحیثیت امت ہم ایک بھی یا نہیں۔ علماء حق فرماتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ سے جنگیں نہیں جیتی جاتیں یہ سب تار عنکبوت کی مانند کی ہیں اصل قوت جذبہ اور عزم و یقین ہوتا ہے۔ ہم ان کی بات تسلیم کرتے ہیں اور اسرائیلی جنگی طاقت ایک طرف رکھ کر ایک نظر اس پرعزم قوم کی تاریخ پر ڈالتے ہیں اور پھر اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہیں

چودہ مئی کے ایک گرم اور خشک دن عرب کی فضاوں نے ایک عجب منظر دیکھا، جب دنیا بھر سے لٹے پٹے آئے ہوئے لوگ جن میں بوڑھے جوان مرد خواتین بچے سب ہی شامل تھے جن کی بولی الگ، رہن سہن کے طریقے جدا، رنگت میں واضح فرق ہونے کے باوجود وہ ایک قوم بن چکے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے کاندھوں پر صدیوں سے دنیا بھر کی ذلتوں کا بوجھ لدا تھا۔ مگر پھر بھی آنکھوں میں ایک خواب تھا اور دلوں میں یروشلم سے محبت کا طوفان موجزن تھا۔ پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا جن ان باہمت لوگوں کی آنکھوں میں بسا خواب حقیقت بن گیا اور دل کی بات زباں پر آکر حقیقت بن گئی اور دو ہزار سال بعد دنیا کی پہلی یہودی ریاست کا دنیا میں ایک بار پھر سے ظہور ہوا۔

مگر دنیا کے نقشے پر نووارد یہودی ریاست کے قیام کے پہلے ہی روز اس کے ہمسائیہ ممالک مصر شام اردن عراق، لبنان عرب لیگ اور عرب جہادی لشکروں نے چاروں سمت سے اس پر حملہ کردیا اور یہ جنگ کم و پیش ایک سال تک جاری رہی اور اس میں متحدہ عرب فوجوں کو شکست فاش ہوئی۔ 1967 کی جنگ میں بھی عرب فوجیں برباد ہوئیں اور چھ روز میں ہی غیور عرب ہمت و حوصلہ کے ساتھ مشرقی یروشلم بھی کھو بیٹھے۔ اس کے بعد بھی چھوٹے بڑے معرکوں میں جب حق و باطل ٹکرائے۔

”باطل“ کا ہمت و جذبہ ہی غالب رہا۔ ذہنی پسماندگی کا شکار، ملوکیت کے دلدادہ، قبائلی عصبیتوں میں گھرے فرسودہ حال عرب نہ بلند حوصلہ اور جدید تعلیم و ہنر سے آراستہ ذہنوں کو شکست دے سکتے تھے اور نہ ہی دے سکے اور یوں اسرائیل آج بھی عرب کے سینے میں ایک خنجر کی مانند پیوست ہوا نظر آتا ہے او یہ خنجر عربوں کے سینے میں تب تک رہے گا جب تک عرب اپنے آمروں اور بادشاہوں کے تخت نہیں اچھال دیتے۔ اپنی روایتی عصبیت اور غرور چھوڑ کر دنیا میں سر اٹھا کر جینا اور قدم سے قدم ملا کر چلنا نہیں سیکھ لیتے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے آبا کی کتابیں تلاش کرنے کے ساتھ جدید علوم سے بہرہ مند نہیں ہوجاتے تب تک اس آہنی عزم کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).