جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں ہو گی؟


May 19, 2019
یہ سوال کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع ہو گی یا نہیں، ذرا قبل از وقت ہے کیونکہ فی الحال زیادہ بڑا کھڑاک جون میں پیش کیا جانے والا بجٹ ہے جو عوام پر مزید مہنگائی بم گرانے والا ہے لیکن پچھلے دس ماہ کی کڑیاں ملائیں تو جواب آسان ہو جائے گا۔

آپ کو یاد ہو گا کچھ ہفتے پہلے خان صاحب نے کے پی کے میں تقریر کرتے ہوئے بڑے اضطراب سے کہا تھا کہ ابھی ان کی حکومت کو بنے دس ماہ ہوئے ہیں پھر گرانے کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں۔ میڈیا نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ شاید اپوزیشن کی طرف اشارہ ہے حالانکہ خان صاحب اپوزیشن کی بیان بازی کے ساتھ تو وہ سلوک کرتے ہیں جو بد زبان اور لڑاکا عورت غریب محلے داروں کے ساتھ کرتی ہے۔ خان صاحب کا ملتجیانہ انداز عوام یا اپوزیشن کے لئے نہیں ہوتا بلکہ بڑے صاحب کی طرف ہوتا ہے۔

اسی طرح آپ کو یاد ہو گا کہ اسد عمر کو خزانے سے فارغ کرنے سے دو دن پہلے انہوں نے اسد عمر سے کہا کہ قوم کو اس کی ضرورت ہے۔ ہم سب میں وہ خبر چھپی بھی تھی لیکن ایکا ایکی اسد عمر صاحب بے چارے اپر ہنزہ کے ایک سو گیارہ سیڑھیوں والے گلیشیر بریز کے نیچے دریا میں ٹانگیں لٹکائے نظر آ ئے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ خان صاحب تو خارجی امور کو چھیڑ ہی نہیں رہے تھے بلکہ کہتے تھے کہ وہ تین ماہ سے پہلے کوئی دورہ ہی نہیں کریں گے اور پھر سعودی عرب جانا پڑ گیا۔ ادھر وہ سعودی عرب گئے ادھر رزاق داءود کے ایک احمقانہ بیان پر کہ چین کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کریں گے، لینے کے دینے پڑ گئے۔

جنرل صاحب خود بھی چین گئے اور خان صاحب کو بھی جانا پڑا۔ سادہ سی بات تھی جب معاہدے ہو گئے تو نظر ثانی آپ نے اپنے شہادت کی انگلی پر لعاب دہن لگانے کے لئے کرنی ہے۔ ایم او یوز پر تو نظر ثانی کی جا سکتی ہے لیکن معاہدوں پر نہیں۔ پھر اداروں کے سربراہان کی تبدیلی کا معاملہ آ یا تو خان صاحب نے ان لوگوں میں عہدے بانٹے جن کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی حالانکہ یہ وہی خان صاحب ہیں جنہوں نے فواد چوہدری سے کہا تھا کہ اگر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے تو ہم پی اے سی کا چیئرمین اپنا بندہ کیوں نہ لگائیں اور فواد چوہدری کو اس بات پر ڈانٹ پٹ گئی تھی کہ روایت کیا ہوتی ہے۔ ہم نئی روایت قائم کر دیں گے اپنا بندہ لگا کر، لیکن چئیر مین شہباز شریف ہی بنے (رانا تنویر سے پہلے)۔

یاد رکھئے خاں صاحب کو پارٹی کے اندر بیوقوف بنانے والے بہت ہیں لیکن وہ بیوقوف بنانے والے کسی اور شاہ کے وفادار بھی ہیں۔ یہ وفا کا دم بھرنے والے وہی چند بڑبولے ہیں جو خاں صاحب کی کسی بھی کامیابی کو ان کے کھاتے میں نہیں جانے دیتے مثلاً کرتار سنگھ بارڑر کھلا تو شاہ محمود نے اسے خان صاحب کی گگلی کہہ کر سارا کریڈٹ الٹ دیا اور اگر پی ایس ایل کے کامیاب میچز کروائے تو شیخ رشید نے اسے سیکیورٹی فورسز کا کریڈٹ کہہ دیا۔ جب مہنگائی کرنے والے مشکل فیصلے پر پوری پارٹی بڑی ڈھٹائی سے خاں صاحب کا دفاع کر رہی ہے، شیخ رشید نے مان لیا کہ مہنگائی ہو رہی ہے اور وجہ معاشی پالیسی کی کمزوری ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ڈالر کے اتار چڑھاؤ خاں صاحب کو ٹی وی والے بتاتے ہیں یعنی اگر بجلی نہ ہو تو خان صاحب کے لئے سب اچھا چل رہا ہو لیکن کمال ہے خان صاحب کو کسی نے بتانے کی زحمت ہی نہیں کی حالانکہ بڑے صاحب کو پتہ تھا۔ آپ حیران ہونگے کہ ان سب باتوں کا جنرل صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع سے کیا تعلق ہے۔ بہت گہرا تعلق ہے۔ خان صاحب کے اردگرد اب بڑے صاحب کے ہی آدمی ہیں جو ٹربل شوٹنگ کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ کل ہی شبر زیدی نے کہا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں اور خوف کے ماحول میں سرمایہ نہیں آتا۔

چئیرمین نیب پر پہلے ہی سوال اٹھ رہے ہیں اور اس پوری صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوں جوں ناکامیاں بڑھیں گی ادارے آپس میں مزید الجھیں گے۔ ناکامیوں کا سلسلہ تو پہلے سے ہی شروع ہے لیکن ایمنسٹی سکیم اور بجٹ ان ناکامیوں میں مزید شدت پیدا کریں گے۔ ایک امید تھی کہ خاں صاحب اٹھارہویں ترمیم کو واپس کروا کے پیسہ صوبوں سے لے لیں گے اور وفاق کو دیں گے اور وفاق کو پہلے ہی پتہ ہے کہ کس ادارے کو بجٹ کی ہر وقت ضرورت ہے۔ یہاں بھی خان صاحب ناکام ہو گئے۔

 ترکی، انڈونیشیا، ایران، سعودی عرب، چین کے دورے کئے لیکن سب نے دور ہی سے سلام کر کے اپنی اپنی گجریلے کی پلیٹ دوسری طرف کر لی اور خان صاحب بے چارے میٹھے چاول کھانے کو ترسنے والا منہ بنا کر رہ گئے۔ آپ حیران ہیں کہ ان سب ناکامیوں، محرومیوں کا جنرل صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع سے آخر کیا تعلق ہے۔ بہت گہرا تعلق ہے۔ اپ کو یاد ہو گا ایک اہم میٹنگ میں خان صاحب کے دائیں بائیں بڑے صاحب کے آدمی بیٹھ گئے تھے جنہوں نے چوہدری سرور سمیت چند۔ لوگوں کی کرپشن کی فائلیں کھولی تھیں اور خان صاحب کے چہیتے ناراض نند کی طرح منہ بسورے باہر پھرتے رہے۔

آپ کو ڈیم فنڈ ہر ہیجان انگیزی بھی یاد ہوگی اور شاید یہ بھی پتہ ہو کہ مہمند ڈیم کے سنگ بنیاد پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار خان صاحب کی مرضی کے خلاف لائے گئے تھے۔ پھر کریڈٹ بکھیر دیا گیا۔ خان صاحب کو ایک ناکام، کند ذہن، غبی اور غیر مقبول سیاستدان ثابت کرنے کے لئے محل کے اندر ہی لوگ موجود ہیں گو کہ خاں صاحب خود بھی سیاسی خودکشی کی کوئی ترکیب ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

ادھر مریم اور بلاول افطار پارٹی میں اکٹھے ہو رہے ہیں اور شاید کوئی تحریک چلانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ تحریک کا تو پتہ نہیں البتہ زرداری صاحب کی گلو خلاصی ہو جائے گی گو کہ شیخ رشید ہمیشہ کی طرح ” ٹیوے” لگا رہے ہیں کہ زرداری کچھ دے دیں گے لیکن نواز اور شہباز نہیں دیں گے۔ عمران خان کہتے رہے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا اور شیخ صاحب کہہ رہے ہیں کہ این آر او مانگا جا رہا ہے۔

اب بات یہ ہے کہ آپ این آر و دیں یا نہ دیں جب اپوزیشن شور و غوغا کرے گی تو شہباز شریف بھی واپس آجائیں گے۔ دندناتے بھی پھریں گے۔ مریم بی بی کی تقریریں بھی جوبن پر ہوں گی اور مہنگائی بھی اور یہ سب کچھ اگلے دو سے تین ماہ میں ہونے جا رہا ہے جب مدت ملازمت کا معاملہ بھی زیر غور ہو گا۔ خاں صاحب اتنے تیز نہیں ہیں کہ جنرل صاحب کا کہیں باہر کنٹریکٹ بھی ہونے دیں اور خود ہی ممیاتے ممیاتے اس کی خبر بھی بریک کر دیں ( جیسا کہ راحیل شریف کے ساتھ ہوا)۔

ڈالر ایک سو پچھتر کو چھو رہا ہو گا، ہسپتالوں کی نج کاری پر احتجاج ہو رہے ہوں گے، گیس اور بجلی کی قیمتوں پر واویلا ہو رہا ہوگا، کوئی دن ایسا نہیں ہو گا جب اپوزیشن بائیکاٹ اور احتجاجی سیاست کی دھمکی نہیں دے رہی ہو گی۔ چین کو پاکستان میں بدنام ہونے کرنے پر تشویش ہو گی، امریکی ایران چپقلش میں پاکستان کا بظاہر غیرجانبدارانہ کردار سعودی عرب کو کھٹک رہا ہوگا اور خان صاحب سے کہا جا رہا ہو گا کہ پوری صورتحال کو بارگینگ چپ کے طور پر استعمال کریں لیکن خان صاحب کوئی جوہری فائدہ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہونگے۔ پچاس لاکھ میں سے جتنے گھر بنیں گے ان کی لاگت عام آدمی کی استطاعت سے بہت زیادہ ہو گی۔ بے روزگاری منہ پھاڑے کھڑی ہوگی۔ سمندر سے تیل کا خواب پہلے ہی چکنا چور ہو چکا ہے۔ ایسے میں قوم کے وسیع تر مفاد میں جنرل صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع دی جائے گی اور آپ جانتے ہیں زمانہ ان کے ساتھ، بڑے صاحب جن کے ساتھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).