بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور وزیر اعظم عمران خان


دخترِ مشرق بے نظیر بھٹو مرحومہ جب وزیر اعظم تھیں تو اس وقت ان کے مخالفین ایک شعر سناتے تھے جو کچھ یوں تھا:
جن سے آنچل بھی دوپٹے کا نہ سنبھالا جائے
ان سے کیا خاک مرے وطن کی حفاظت ہوگی

بی بی مرحومہ سے تو مخالفین کے مطابق صرف دوپٹے کا آنچل نہیں سنبھلا تھا موجودہ حکومت سے تو بہت کچھ مثلاً زبان، معیشت، پارٹی، ڈالر، قیمتیں، وزارتیں، اخراجات، وعدے، کچھ بھی سنبھالا نہیں جا رہا۔

بی بی مرحومہ تو سخت حزب اختلاف، نامہربان ہیئتِ مقتدرہ، مخالفانہ مذہبی پروپیگنڈے، احتجاجی تحریک اور اپنے ہی صدر کی سازشوں کے باوجود مقابلہ کرتی رہیں اور اپنی پارٹی، شوہر اور حکومت کو کنٹرول کیے رہیں جبکہ نواز شریف صاحب نے بھی اندرونی و بیرونی اور سیاسی و معاشی محاذوں پر مشکلات اور سخت نامساعد حالات کا جوان مردی سے مقابلہ کیا اور معیشت کو ٹھیک کرنے میں کامیاب رہے۔

محترم وزیر اعظم صاحب! اب جب ملک کی طاقتور اور فیصلہ کن طاقتیں آپ کے ساتھ ہیں، حزب اختلاف بھی آپ کی اشتعال انگیز تقاریر اور ان سے رابطے اور تعلقاتِ کار بنانے میں سردمہری کے باوجود صبر سے کام لے رہا ہے اور اس نے آپ کی حکومت کے لیے ابھی تک اُن مشکلات کا عشر عشیر بھی پیدا نہیں کیا جو آپ نے سابق حکومت کے دوران پیدا کیں تھیں تو ابھی تک آپ کی کارکردگی مایوس کن کیوں ہے؟ آپ کیوں ڈیلیور نہیں کر پا رہے؟

بی بی مرحومہ کو سیکورٹی رسک اور غدار کہا گیا۔ ان کی حکومت میں ان کے بھائی کو ساتھیوں سمیت دن دہاڑے قتل کیا گیا۔ وہ وزیر اعظم تھیں لیکن انہوں نے ظلم کرنے والے کا نام لیے بغیر فقط یہ کہا تھا ”اؤ بندے خدا سے ڈر! “ جبکہ نواز شریف کو بھی وزیراعظم ہوکر بھی اپنے ماتحتوں کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا اور دھرنوں اور سازشوں کا سامنا رہا لیکن سمجھ نہیں آ رہا آپ کیوں اشتعال اور ہیجان کے شکار ہیں؟

آپ اکثر دعویٰ کرتے تھے /ہیں کہ آپ کسی سے نہیں ڈرتے، جھوٹ نہیں بولتے، بدعنوان لوگوں کو برداشت نہیں کرتے اور جو کوئی کارکردگی نہیں دکھائے گا یا جرم کرے گا تو اسے پارٹی اور وزارت سے فارغ کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔ امید کی جارہی تھی کہ آپ بے لاگ احتساب کریں گے اور قانون و اصول کی راہ میں کسی کا بھی لحاظ نہیں کریں گے لیکن سانحہ ساہیوال ہو یا احسن سلیم گجر اور پولیس ڈی پی او کا معاملہ، اسلام آباد آئی جی پی کا تبادلہ ہو یا آپ کے قریبی بندوں کی نا اہلی پر عدالتی فیصلہ کے بعد بھی پارٹی و حکومت کے امور میں اُن کا اثر و رسوخ، ہر معاملے میں آپ نے قانون، اصول اور انصاف کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پر سوالیہ نشان ہی کھڑے کیے ہیں۔ الٹا اپنے وعدوں اور فیصلوں سے یوٹرن کو آپ نے مثالی قیادت کی نشانی قرار دیا۔

میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو مرحومہ پر اگر اپنے دوستوں کو نوازنے کا الزام آپ لگاتے تھے اور یہ برا کام تھا تو اب آپ کیوں اپنے سارے دوستوں کو ایک ایک کرکے مشیر بنا اور کلیدی عہدوں پر بٹھا رہے ہیں؟

نواز شریف کو جن باتوں پر ”ایجنٹ، غدار اور مودی کا یار“ ہونے کے طعنے آپ دیتے رہے اب وہی باتیں آپ بھی واضح طور پر کر رہے ہیں لیکن کیا وہ بھی آپ کو وہی طعنے دے رہے؟ آخر آپ کب تک الزامات، اشتعال انگیز گفتگو، مبالغہ آرائی، خود توصیفی اور اپنے مخالفین کو شیطانِ مجسم ثابت کرنے کا طرزعمل جاری رکھیں گے؟

اگر آپ سمجھتے ہیں سابقہ حکمرانوں کو کوسنے اور انہیں ملک کی تمام مشکلات کا ذمہ دار قرار دینے سے ملکی معیشت بہتر اور قوم خوشحال ہو سکتی ہے تو پھر ہم سب بھی یہی کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگر اس سے تو مسئلے حل نہیں ہوتے۔

حکمران قوم کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہ باتیں کم اور کام زیادہ کرے تو بہتر۔ اور بولے بھی تول کر۔ یہ تو مناسب نہیں کہ باہر جاکر اپنے ملک کے نظام میں بدعنوانی کا رونا رو کر سرمایہ کاروں کو بدظن کیا جائے یا اپنے سرزمین کو دہشت گردی کا برآمد کنندہ قرار دیا جائے۔

سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے پرامن ماحول اور سیاسی استحکام لازمی عوامل ہیں۔ جب احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کی ”کرپشن“ پکڑنے کے لیے ہی آپ سارے ادارے اور وسائل وقف کریں، ان کو بدنام کرنے اور اشتعال دلانے کا عمل جاری رکھیں اور اُن سے ہاتھ ملانے اور رابطہ کرنے کو بھی اپنی توہین سمجھیں تو سیاسی استحکام کیسے آئے گا؟

ریاست قوم کی ماں اور حکمران باپ ہوتا ہے۔ اپنے بچوں پر رحم کیجیے۔ سب کو ساتھ بٹھا کر قوم کو درپیش مشکلات کے حل کا لائحہ عمل بنا لیں۔

1۔ عام معافی کا اعلان کریں اور احتساب کا عمل روک دیں۔

2۔ یا پھر اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر بے لاگ احتساب شروع کریں۔ آغاز اپنے یا اپنے خاندان اور ساتھیوں پر عائد جرمانے یا واجب الادا ٹیکس ادا کرنے سے کریں۔

3۔ حزب اختلاف کو شیطانِ مجسم ثابت کرنے کا طرزعمل چھوڑ دیں۔ ان سے مثالی تعلقات نہیں تو تعلقات کار تو قائم کرلیں۔

4۔ سیاست کو گالی اور دشمنی نہ بنائیں۔ تعصبات اور دشمنی پالنے والے کبھی شاد نہیں ہوئے۔ ملک میں باہمی احترام، درگزر، مشاورت، میل ملاپ اوراشتراک و تعاون سے ہی ماحول خوشگوار اور مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

5۔ پارٹی اور ملک میں جمہوریت اور آئین وقانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ قوم امید بھری نظروں سے آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).