احترامِ رمضان کو وبالِ جان نہ بنائیں


مان لیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، مان لیا کہ کوئی نظریہ پاکستان بھی تھا، مان لیا کہ قراردادِ مقاصد بھی برصغیر میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے بہت ضروری تھی۔ مان لیا کہ اس ملک کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے، جن کی ایک غالب اکثریت روزہ رکھتی ہے۔ لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے پرچم میں ایک سفید رنگ بھی ہے۔ ریاست اور شہری انتظامیہ اس بات کا ادراک کیوں نہیں کرتی کہ بڑے شہروں میں دوسرے شہروں سے آکر کام کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے، جن کا گھر بار یہاں نہیں ہوتا، جن کے کھانے پینے کا واحد ذریعہ ہوٹل اور ڈھابے ہوتے ہیں۔

یہ سفید رنگ جو پرچم کے ایک چوتھائی حصے پر مشتمل ہے۔ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ رنگ ایک چوتھائی یعنی پچیس فیصد کیوں ہے؟ جب کہ غیر مسلم پوری آبادی کا قریب تین فیصد ہیں۔ جب پرچم بنا، اس وقت ملک کی تقریباً اٹھائیس فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی، جن میں عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی اور یہودی شامل تھے۔ کبھی ریاست نے اس بات پر غور کیا کہ ایسے کیا حالات ہوئے کہ یہ لوگ ملک چھوڑ گئے۔ پارسی کاروباری طبقہ کراچی کی معیشت کی شہ رگ تھا، اسے ہم نے مار بھگایا، اب معدودے چند پارسی خاندان ہیں۔

لاہور میں ہندوؤں اور سکھوں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی جو آہستہ آہستہ ملک چھوڑ گئی۔ اور تو اور آپ کے پہلے وزیر قانون جوگندرناتھ منڈل، جو قائد اعظم کا انتخاب تھے، وہ بھی قرارداد مقاصد کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر کچھ تو غلطی کی ہو گی ریاست اور معاشرے نے؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنا بند کر دیں، اور اگر نہیں کر سکتے تو کیوں نہیں ایک ہی دفعہ پرچم سے سفید رنگ ختم کر دیتے؟

کیا اس ملک میں 1981 سے پہلے رمضان کا احترام نہیں ہوتا تھا؟ جب منافقت کے عظیم مینار، المعروف ضیا الحق نے دیگر قوانین کے نفاذ کے ساتھ احترامِ رمضان کا آرڈیننس بھی نافذ کر دیا۔ کیا اس سے پہلے ہوٹل کھلے عام کھانا بیچتے تھے؟ یا لوگ روزہ داروں کا مذاق اڑاتے تھے؟ ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ رمضان کے مہینے میں چھوٹے ہوٹلوں والے گرداگرد کوئی قنات تنبو یا پردہ لگا دیتے تھے۔ ویڈیو سنٹرز والے فلموں کے پوسٹرز پر اخبار چپکا دیتے۔ جو روزہ نہیں رکھتا تھا وہ بیچارہ ویسے ہی شرمندہ شرمندہ پھرتا اور کچھ کھانے پینے کے لئے خفیہ جگہ ڈھونڈتا رہتا۔ اس نام نہاد آرڈیننس سے پہلے رمضان کا احترام زیادہ تھا۔

اب کیا صورتحال ہے۔ کھانے پینے کے ہوٹل رمضان کا مہینہ بند رہتے ہیں۔ اِلا یہ کہ آج کل سحری اور با الخصوص افطاری ہوٹلوں میں کرنے کا فیشن چل نکلا ہے۔ لیکن عام آدمی کہاں جائے؟ اب ایک مزدور ہے جو کسی دوسرے شہر سے لاہور میں کام کرنے کے لئے آیا ہے، اس کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ روزہ نہیں رکھ سکتا۔ اب اس کے لئے صبح اور دوپہر کو کھانا کھانے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ اگر کوئی ہے تو وہاں سے کھانا مہنگا ملتا ہے۔

فرض کیجئے ایک ستر سالہ بزرگ ملتان سے لاہور کسی مقدمے کی پیروی کے لئے آتے ہیں۔ شوگر کے مریض ہیں۔ دورانِ سفر روزہ رکھنا فرض نہیں، شوگر کی بیماری بھی اجازت نہیں دیتی۔ دوپہر کا وقت ہے، شوگر لیول لو ہو رہا ہے۔ اب ان کے لئے آپ کے شہر میں کھانے کی کیا آپشنز ہیں؟ برسوں پہلے ایک بزرگ میاں بیوی کا ذکر سنا۔ دونوں اکیلے رہتے، نہ کوئی بال بچہ نہ کوئی آگے پیچھے۔ خاتون بیمار رہتیں، فالج کی مریضہ تھیں۔ بڑے میاں صبح شام قریبی ہوٹل سے کھانا لے آتے، خود بھی کھاتے اور اہلیہ کو بھی کھلاتے۔

اب جیسے ہی رمضان کا مہینہ شروع ہوتا، آزمائش کا ایک مرحلہ شروع ہو جاتا۔ پورا مہینہ کبھی کس سے مانگ تو کبھی کس سے۔ کبھی باسی کھانا کھایا، اور کبھی کچھ نہیں کھایا۔ کیا ریاست اس بزرگ کی گنہگار نہیں؟ اسی طرح جو غیر مسلم ہیں، بدقسمتی سے ان کی ایک بڑی تعداد غریب طبقے سے ہے۔ رمضان کے روزے رکھنا تو ان پر فرض نہیں، لیکن بھوکا رہنا ضرور زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ کوئی مسافر ہے، اور غیر مسلم ہے، کوئی بیمار ہے، کوئی کسی اور شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ ریاست کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ان شہریوں کے اس بنیادی حق کو چھینے؟

دوسری طرف کسی مہنگے ہوٹل میں چلے جائیے۔ کھانے پینے سے لے کر اشیائے تعیش تک، سب کچھ میسر ہے۔ سرِ عام کھایا جا رہا ہے۔ بس آپ کی جیب میں پیسے ہوں، ہر طرح کی عیاشی ممکن ہے۔ ذرا مڈل کلاس طبقے کو دیکھیے، کھانے کی اشیا جو رمضان کی وجہ سے محدود ہیں اور مہنگے داموں مل رہی ہیں، چار پیسے زیادہ دے کر بھی خرید رہے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں کسی بھی ہسپتال کی کینٹین میں جا کر دیکھئے، بلامبالغہ اگر پچاس بندوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے تو پانچ سو ہروقت موجود ہوں گے۔

یہ کون لوگ ہیں؟ اب یہ باہر سے آ کر کینٹین بھرے بیٹھے ہیں، تو مریض اور ان کے لواحقین کدھر جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں، جو جائز یا ناجائز کسی بھی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکے۔ یہ ان کی مرضی، ریاست یا معاشرہ کیسے زبردستی کسی کو مجبور کر سکتا ہے؟ میرے محدود علم کے مطابق نماز روزے سے زیادہ اہم ہے۔ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا، بھلے عادتاً ہی نہیں پڑھتا، کیا ریاست اس کے پیچھے بھی لٹھ لے کر پڑ جاتی ہے؟ روزے کی نام پر ایسی منافقت اور ایسی زبردستی کیوں؟

اب جو شخص افورڈ کر سکتا ہے وہ تو مہنگے داموں بھی خرید لیتا ہے، بڑے بڑے ہوٹلوں میں جا کر بھی کھا لیتا ہے۔ اس غریب کا کیا قصور جو چند سو روپے دیہاڑی کا مزدور ہے، جو یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا، یا جس کا گھر بار جائے ملازمت سے دور کسی دوسرے شہر میں ہے؟ یا جو غیر مسلم ہیں، یہی کیا کم ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں آپ کی مقدس کساد بازار اور افراطِ زر برداشت کرتے ہیں، ان کے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ اور اگر ریاست کو اس جرم کا احساس بھی نہیں تو یقین کیجئے کہ اس سفید رنگ کو مٹا دیجئے۔ آپ نہیں اس کی حرمت کا حق ادا کر سکتے۔

آج ہی ایک خبر پڑھی، آپ سے شئیر کیے دیتے ہیں۔ 2013 میں لاہور کے تھانہ نولکھا بازار کے علاقے میں ایک پان فروش جمشید اقبال کو افطار سے پہلے دکان کھول کر احترامِ رمضان کی قانون شکنی کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ کچہری میں مقدمہ چلا اور بیچارے کو ’پانچ دن‘ قید کی سزا سنائی گئی۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک تھا، پانچ دن کے بعد کسی تکنیکی مسئلے کی وجہ سے رُوبکارِ سرکار نہیں پہنچ سکی اور جیل سے رہائی نہیں ملی۔ اب آپ اندازی کیجئے کہ اسے پانچ دن قید کی سزا کے بعد رہائی کب ملی ہو گی؟

اس غریب دکاندار کو جمعہ سترہ مئی 2019، یعنی چھ سال کے بعد رہائی ملی۔ اس دوران اس کی اپیل سماعت کے لئے بار بار مقرر ہوتی رہی، لیکن دیگر اہم مقدموں میں اس کی باری ہی نہیں آتی تھی۔ ایڈیشنل سیشن جج محمد عامر حبیب نے اپنے فیصلے میں معزز عدالت کے طرف سے معافی اور ندامت کا اظہار بھی کیا، لیکن کیا ریاست اس غریب کے چھ سال واپس کرے گی؟ ریاست اس غریب کے بچوں کو وہ شفقت لوٹا سکتی ہے، جو غریب آدمی ان چھ سالوں میں دیتا؟

کوئی ہرجانہ تو دور کی بات ریاست تو اس غریب کو مقدمے کے اخراجات بھی ادا نہیں کرے گی۔ اور یہ تو ان لوگوں کا ذکر ہے جو کلمہ گو ہیں، خود بھی روزہ رکھتے ہیں، اور اگر کسی وجہ سے نہیں بھی رکھ پاتے تو بہرطور احترام دل سے کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جو مسلمان نہیں، ان کی زندگی کیوں اجیرن بنائی جاتی ہے؟ ابھی بھی لاکھوں عیسائی، سکھ، ہندو اس ملک میں رہتے ہیں۔ ریاست کیوں احترامِ رمضان کے نام پر ان کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے؟

یورپ میں حجاب پر پابندی لگے، نماز پڑھنے میں رکاوٹیں ہوں تو ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ یہاں غیر مسلموں کی زندگی اجیرن کرنے پر ریاست شرمندہ نہیں؟ معاشرے کو احساس ہے کہ ہمارا ماہِ رحمت اسی ریاست کے سفید رنگ کے لئے کتنا بڑا عذاب ہے؟ یا تو اس منافقانہ قانون کو ختم کیجئے، یا پھر ایک اور آرڈیننس جاری کر کے تمام باشندوں کا مذہب اسلام ڈکلئیر کر دیجئے اور جھنڈے سے سفید رنگ مٹا دیجئے۔ مرحوم ضیا الحق کی روح کو ثواب پہنچے گا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).