سرسوتی کا ایک انمول رتن پانینی


کہتے ہیں کہ پراچین بھارت میں ویدیا ساگر کا جوبن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ کشمندر، دامودر، سرشت، کالی داس، پانینی، کناڈ، چانکیہ، والمیکی، پتنجلی، بھرتری ہری، براہما گپتا۔ ایک سے ایک رتن موجود تھا۔ گیان کا یہ سرسوتی اپنے سماج کو کیوں سیراب نہ کر سکا اوراچانک کہاں غائب ہو گیا؟ اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ آج اس سرسوتی کے ایک انمول رتن پانینی کا ذکر کرتے ہیں جس کی چمک دمک نے وقت کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے۔

پانینی کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں۔ ماہرِ قواعد پتن جلی نے ”دیوا بھاشیا“ میں اس کی ماں کا نام دکشی اور شہر سلاطورہ لکھا ہے۔ اسی لیے پانینی کو دکشی پتر اور سلاطوریا بھی کہتے ہیں۔ یہ سلاطورہ بعد میں لاہور کہلایا۔ ہندو شاہیہ کا مرکز کابل سے سرکتا یہیں آیا تھا۔ جب غزنویوں کا وسط ایشیا میں حکمرانی کا خواب ٹوٹا تو انہوں نے کنارِ سندھ سے لاہور اٹھایا اور کنارِ راوی جا بسایا۔

پانینی صرف و نحو موسیقی اور ریاضی کا ماہر تھا۔ وہ دریائے کابل اور سندھ کے سنگم پر واقع چھوٹا لاہور (سلاطورہ) صوابی کا رہنے والا تھا۔ ماہرین اس کا عہد ساتویں سے چوتھی صدی ق م کے درمیان بتاتے ہیں۔ اس لیے پانینی کی آتما کے تناسخی چکروں کی ٹھیک تعداد کا تعین مشکل ہے۔

پانینی کا نام کئی طرح سے ادا کیا جاتا ہے۔ پانینی، پنینی، پننی، پنی، پانڑی۔ جانے اس نام کا تعلق پانی سے ہے یا نہیں لیکن اس نے اشٹ آدھیائی کی صورت ”ویاکرن“ یعنی گرامر کی سل کو پانی بلکہ پانی پانی کر دیا تھا۔ ساتویں صدی کے چینی سیاح ہیون تسانگ نے سلاطورہ میں پانینی کے مجسمے کا ذکر بھی کیا ہے۔ ہم پانینی کی جنم بھومی چھوٹا لاہور دیکھنے نکلے تو ہمیں مارگلا کی چوٹی پر جان نکلسن کی لاٹ اور سندھ پار ہنڈ میوزیم میں سکندر کا یادگاری مینار تو نظر آیا لیکن پانینی کا نام و نشان تک نہیں ملا۔ اتفاق سے چھوٹا لاہور میں ایک پی ایچ ڈی اسکالر عبدالبصر مل گئے جو ہمیں ”پنی ونڈ“ لے گئے اور پانینی سے متعلقہ دو کتابیں سوغات کیں۔

پانینی کے وقت ہندوستان میں لکھنے کی روایت نہیں تھی۔ ویدک ادب بہت ضخیم تھا اور بچوں کے لیے رگ وید، سام وید، یجر وید اور اتھر وید کو یاد کرنا مشکل تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے کافی عرصے سے آئندرم، چاندرم، کاشاکرتسنم، کومارم، شاکا ٹائیانم، سارسوتم، آپیشلم اور شاکلم قواعدی اسکول مصروف تھے۔ پانینی نے الخوارزمی سے ایک ہزار سال پہلے ویدی ادب کو لاگرتھم کے استعمال سے مختصر ترین شکل میں ڈھال کرسب کو حیرت میں ڈال دیا۔

پانینی کی اشٹ آدھیائی نے دیومالائی ہندوستان کو نئے دور میں داخل کر دیا۔ لیکن اسیر ذہن خرافات کو کہاں چھوڑ سکتے تھے۔ چناچہ روایت کے مطابق پانینی جب پاٹ شالا میں داخل ہوا تو وہاں یادداشت کا سکہ چلتا تھا۔ جب کہ پانینی سوال بہت کرتا تھا۔ استاد نے اسے گھر کے کاموں پر لگا دیا۔ پانینی ہمالیہ کی طرف نکل گیا اور پراتھناؤں میں مصروف ہو گیا۔ ایک دن تباہی و تخلیق کے دیوتا شیو کا ظہور ہوا۔ پانینی نے زبان کے علم کی التجا کی۔ شیو نے خوش ہو کر قیامت خیز رقص کیا۔ رقص کے اختتام پر اس کی ڈگڈگی سے نکلے والی چودہ اصوات ”اینڑ، رلک، ایاڑ، ایاچ، ہے ورٹ، لنڑ، نمڑ ڈنم، جبھن گھڑ دش، جب گھڑ دش، کھپا چھٹ تچھٹ، واکاپے، سسر، ہل“ پانینی کو ملیں۔ نیچر کی ان کل اصوات نے سنسکرت کو ام للسان بنا دیا۔

شیو سوترانی کے علاوہ پانینی نے دھاتو پاتھا (Dhatupatha) اور گاناپاتھا (Ganapatha) نامی دو کتابوں کی لیکسکن فہرستوں پر سابقے لاحقے لگا کر آہار (خوراک) ، سمہار (انہدام) ، وہار (ادھرادھر پھرنا) ، پری ہار (فاصلہ رکھنا) یعنی مرکب اسم بنائے۔ پانینی کے اس کام سے جن زبانوں کو فائدہ ہوا ان میں سے ایک اردو ہے۔

پانینی کی گرنتھ اشٹ آدھیائی کا مطلب آٹھ چپٹرز ہے۔ ہر چپٹر چار حصوں میں تقسیم ہے۔ یوں کتاب میں کل بتیس سیکشنز ہیں۔ ویدک مذاہب میں آٹھ کے ہندسے کی خصوصی اہمیت ہے۔ یہ آواگون یعنی موت و حیات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی علامت ہے۔ اشوکا چکر میں بھی آٹھ خانے ہیں۔ بدھ مت خواہشات کنٹرول کرنے کے لیے ہشت پہلو راستہ تجویز کرتا ہے۔ موریا عہد میں بننے والی شاہراہ اترا پاتھا (جی ٹی روڈ) بھی آٹھ حصوں میں تقسیم تھی۔

اشٹ آدھیائی میں پانینی نے سنسکرت کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اس کی جگہ بھاشا کا لفظ لکھا ہے۔ جسے دیوا بھاشا بھی کہتے تھے۔ پانینی نے مہارت کے اس درجے کو جا چھوا کہ بعد میں اس بھاشا کو سنسکرت یعنی شستہ اور مکمل کہا جانے لگا۔

اشٹ آدھیائی میں پانینی نے بھاشا کو کلاسیک اور ویدک میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی عام بول چال اور ویدوں کی زبان۔ گویا سنسکرت سننے والوں کی سماعتوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالنے کی روایات کا تعلق کم از کم کلاسک سنسکرت سے نہیں ہے۔

کچھ کے بقول پانینی ہندی عروض کے بانی پنگلا کا چھوٹا بھائی تھا۔ کچھ نے اس سے شاعری بھی منسوب کر دی۔ اس کی ایک نظم کا خیال یہ ہے کہ گھپ اندھیرے اور شدید بارش میں ایک لڑکی اپنے محبوب کی تلاش میں ہے۔ جب بجلی کی چمک اس کے چہرے پر پڑی تو بادل حیران رہ گئے اور آپس میں سرگوشی کرنے لگے کہ دیکھو ہم کس شدت سے برسے ہیں کہ بارش کے ساتھ چاند نیچے جا کر اس لڑکی کے چہرے میں پیوست ہو گیا ہے۔

پٹھان کہتے ہیں کہ پانینی ان کا کلی وال تھا۔ ہندکو بولنے والے پانینی کی گرنتھ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ اس میں ہندکو پراکرت کے الفاظ کی کثرت ہے۔ پنجابی ویکیپیڈیا کے مطابق سنسکرت دا وڈا تے سرکڈواں سکالر پانینی پنجاب دا ای رہن والا سی۔ جیڑا لہور چ جمیا تے ٹیکسلا چ پلیا تے جدیاں لکھتاں کشمیر چ گوریاں نوں 1663 چ ملیاں تے انہاں نوں او یورپ لے گئے۔

علامہ اقبال کا دل یورپ میں جن علم کے موتیوں کے دیکھ کر سی پارہ ہوا تھا ان میں استدآدھیائی یقیناً شامل ہو گی، جسے انگریز 1663 میں شاردا (نیلم) سے لے گئے۔ اشٹ آدھیائی کا پہلا ترجمہ 1898 میں انگریزی میں ہوا۔ بیسویں صدی کی تیسری دھائی میں اعلان ہوا کہ وہ سائنسی دھماکہ ہونے لگا ہے جو ایٹم بم سے زیادہ حیران کن ہو گا۔ 1936 میں ٹیورن مشین کا اعلان کیا گیا جو کہ ایک مثالی حسابی ماڈل تھا اور لوجیکل سٹرکچر کو ریڈیوس کرتا تھا۔

جس کی جدید شکل انڈرائیڈ ہے۔ الفابیٹیکل ماڈل پر الگورتھم کا استعمال حیرتوں کا وہ سلسلہ ہے جس کی پانینی سے پہلے کوئی مثال ہے نہ بعد میں۔ جان بیکس نے 1959 میں جو تختی متعارف کرائی پانینی 400 بی سی میں اسی اصول پر اشٹ آدھیائی مرتب کر چکا تھا۔ ایلن ٹیورنٹ اور جان بیکس کی کوششیں آزادانہ تھیں یا پانینی کے کام کی توسیع، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ہر خوبی خرابیاں بھی ساتھ لاتی ہے۔ پانینی نے ضخیم ویدک ادب کو چار سو سوتروں کی مالا میں پرو دیا۔ لیکن یہ استعاراتی اور پراسرار کاوش گنجینہء معانی کا وہ طلسم تھا جس سے سنسکرت کو پنڈتوں تک محدود کر دیا اور سنسکرت نیم مردہ ہو کر رہ گئی۔

2004 میں انڈیا نے پانینی یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ ایک ہی کی پیڈ سے مختلف زبانوں میں لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ”پانینی کی پیڈ“ ایجاد کیا گیا۔ 2009 میں کاشی میں پانینی سمارک مندر کی بنیاد رکھی گئی جس کی بنیاد میں چھوٹا لاہور سے مٹی لے جا کر ڈالی گئی۔

بلاشبہ اشٹ آدھیائی انسان کی اولین علمی نشانات میں سے ایک ہے۔ یہ افکار کا وہ گل دستہ ہے جس کے ہر پھول کا رنگ جاذب و جمیل ہے۔ یہ شبدوں کی وہ راجدھانی ہے جس کے گن گننے کے لیے وقت چاہیے۔ پانینی شعور کا قدیم ترین معمار ہے جس کی طے شدہ بنیادوں پر آئی ٹی کا تاج محل تعمیر کیا گیا ہے۔
(بشکریہ اردو کالم اپریل 2019 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).