ڈاکٹروں کو آخر مسئلہ کیا ہے؟


ڈاکٹر ضیا الدین آفریدی کِنگ فہد ہاسپٹل سعودی عرب میں سرجِری کے کنسلٹنٹ تھے۔ ریالوں میں تَن خواہ لیتے۔ ان کی آمدن اتنی تھی کہ روزانہ کا معاوضہ لاکھوں میں تھا۔ پُر امن ماحول میں پُر تعیش زندگی گزار رہے تھے تھے۔ درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ عرب بَدوؤں کے علاج سے دل بھرا، اپنے دیس میں رُلتے مریضوں کی خدمت کا خمار چڑھا، سنہری نوکری اور لگژری لائف اسٹائل کو لات ماری اور پشاور چلے آئے۔

پشاور میں خیبر میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور خیبر ٹیچنگ اسپتال جو شیر پاؤ اسپتال بھی کہلاتا ہے میں علاج معالجے اور طب کے طالبعلموں کے لیے درس و تدریس کا کام کرنے لگے۔

ڈاکٹروں بالخصوص نوجوان ڈاکٹروں کے حقوق اور استحصال کے خلاف اکثر آواز بلند کرتے رہتے۔ اوائل میں وہ موجودہ حکومت کے صحت منشور کے بہت بڑے حامی تھے۔ مگر جب سے محکمہ صحت میں نئی اصلاحات کا اعلان کیا گیا اور بڑے اسپتالوں کی بتدریج نجکاری کا پروگرام شروع کیا گیا ڈاکٹر ضیا الدین نے اس کی مخالفت کی۔ ان تبدیلیوں کے عوام اور ڈاکٹرز دونوں پر مضر اثرات کے حوالے سے بہت سے تجاویز اور نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کے لیے بارہا وزیر صحت ہشام انعام اللہ خان، صحت اصلاحات کے انچارج ڈاکٹر نوشیرواں برقی، سیکرٹری صحت اور مشیر صحت جاوید واصف سے متعدد ملاقاتیں کیں۔

ممکنہ اصلاحات کے خلاف مزاحمت اور بے جا مداخلت کی بنا پر صحت کے اعلی حکام ان سے خوش نہ تھے۔ کچھ ہفتے قبل ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ وہ کئی روز اسپتال سے غیر حاضر رہے۔ انتظامیہ نے انہیں جواب طلبی کا نوٹس بھیجا اور ان کی بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ترقی جس کی سلیکشن کمیٹی نے میرٹ کے مطابق منظوری دی تھی کو روک دیا۔

منگل کے روز ڈاکٹر نوشیرواں برقی خیبر ٹیچنگ اسپتال کے دورہ پر آئے۔ ڈاکٹر ضیا الدین خود سے کی جانے والی نا انصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور مشیر صحت پر احتجاجاً انڈا اچھالا۔

اس واقعے کے دو گھنٹے بعد وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان اپنے بندوق بردار ساتھیوں اور مسلح گارڈز کے ہمراہ ہسپتال آئے، مبینہ طور انہوں نے ڈاکٹر ضیا سے گالم گلوچ کیا اور دونوں کے مابین تلخ کلامی ہوئی۔ جس کے نتیجے میں وزیر صحت نے ڈاکٹر ضیا الدین پر تشدد شروع کر دیا۔ اور اپنے ساتھیوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا۔

آتشیں اسلحہ اٹھائے ساتھیوں اور مسلح گارڈز نے بھرپور مار پیٹ شروع کر دی۔ گھونسے اور ٹھڈے مارے گئے۔ بندوقوں کے بٹوں کے وار سے ڈاکٹر ضیا الدین کے سر کی کھال مختلف مقامات سے اُدھڑ گئی اور جسم کے دیگر حصوں پر بھی گہری چوٹیں آئیں۔

یہ معاملہ فورا ہی سوشل میڈیا کی زینت بنا جہاں ڈاکٹرز کے حمایتیوں اور مخالفین کے درمیاں گرما گرم بحث و تکرار شروع ہو گئی۔ حکومتی جماعت اور حزب اختلاف کے کارکنان کے مابین خوب لے دے ہوئی اور واقعہ سیاسی رنگ اختیار کرتے کرتے اپنا اصل رنگ کھو بیٹھا۔

ڈاکٹرز اپنے مسائل اور اس قسم کے واقعات کی بِنا پر اکثر خبروں میں رہتے ہیں مگر یہ مسائل ہیں کیا ان پر کوئی تحقیق نہیں کی جاتی۔

سفر ایسے شروع ہوتا ہے کہ نسبتاً ذہین اور قابل طالبعلم کو ثانوی جماعت میں حیاتیات کا اختیاری مضمون اختیار کرنے کے بعد طالبعلم کو اوسطاً پچاسی فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد انٹر میڑیٹ میں بھی کم و بیش ایسی ہی کارکردگی دکھانی پڑتی ہے۔ انٹر کے بعد میڈکل کالجوں میں داخلے کا امتحان ہوتا ہے جس میں طالبعلم کو اپنے جیسے ہزاروں ہونہار طلبا و طالبات سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مقابلے میں دکھائی گئی کارکردگی اور سابقہ طالبعلمی پس منظر کی بنیاد پر گِنی چُنی نشستوں پر طب کی تعلیم کے لیے مخصوص طلباء کا چناؤ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر بننے کی پہلی رسمی سَند ایم بی بی ایس کا تعلیمی دورانیہ پانچ سال کا ہوتا ہے۔ اس دوران طب کے طالبعلم کو بیس سے زائد مضامین کی بیسیوں چھوٹی بڑی کتب، بے شمار رت جگوں کی محنت، اسپتالوں کے لاتعداد دورے اور قسم قسم کے عارضوں پر سر کھپائی، سینیر ڈاکٹرز اور اساتذہ کی جھڑکیاں، ذہنی دباو، اعصابی تناؤ اورفکری انتشارسمیت سماجی زندگی اور خاندانی تقریبات سمیت کئی قربانیاں دینی پڑتی ہیں تب جا کر بمشکل ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل ہوتی ہے۔

اس کے بعد مرحلہ آتا ہے ایک سالہ ہاوس جاب کا۔ یہ انتہائی کٹھن کام ہوتا ہے۔ ہر دو سے تین دن کے بعد آپ کو مسلسل چھتیس گھنٹے بغیر آرام کیے ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔ اس دوران اپنے وقت کے قابل ترین طالبعلم اپنے مریضوں کا بول و بزار، سڑے ہوئے زخم، پِیپ رِستے گھاؤ جنہیں دیکھ کر خونی رشتے بھی منہ چھپاتے ہیں پیشہ ورانہ تقاضوں کے مطابق بخوشی صاف اور ان کا علاج کرتے ہیں۔

ہاوس جاب کے بعد اپ رجسٹرڈ پریکٹیشنر عام الفاظ میں ایم بی بی اس ڈاکٹر بنتے ہیں جسے جَنتا چَنداں منہ نہیں لگاتی۔ یہ اکثر عوام کی رائے ہوتی ہے کہ سادہ ایم بی بی ایس اور میٹرک برابر ہوتا ہے۔

کسی ایک عضو یا نظام کے ماہر بننے کے لیے ایم بی بی ایس کے بعد دوبارہ سخت نوعیت کا امتحان لیا جاتا ہے۔ اس کے پاس کرنے کے بعد کم از کم چار سال مزید تربیت دی جاتی ہے۔ ان چار سالوں میں ہر دو سال بعد زیر تربیت ڈاکٹر کی تعلیمی اور فنی استعداد کے مشکل ترین امتحانات لیے جاتے ہیں۔ تب جا کر آپ کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کا رتبہ دیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے عمل سے گزرنے کے باوجود ڈاکٹروں کو قصائی، لٹیرے اور کمیشن خور کیوں کہا جاتا ہے۔

مریضوں ان کے رفقاء اور سول سوسائیٹی کو عموماً یہ شکایات ہوتی ہیں کہ ڈاکٹر سرکاری اسپتال میں تو زہر بُجھے لہجے میں بات کرتے ہیں جبکہ پرایویٹ کلینکس میں ان کا گفتگو مٹھاس سے لبریز ہوتی ہے۔ مریضوں کو چیک کرتے ہوئے او پی ڈی میں پورا وقت نہیں دیا جاتا۔ اسپتالوں میں سہولیات کم ہیں۔ صحت و صفائی کا غیر مناسب انتظام ہوتا ہے۔ ادویات مہنگی ہیں۔ تشخیصی ٹیسٹ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ڈاکٹرز فیس بہت لیتے ہیں جبکہ انہیں مفت علاج کر کے انسانیت کی خدمت کرنی چاہیے۔ ڈاکٹرز نجی اسپتال چلاتے ہیں اور بہت سا روپیہ پیسہ کماتے ہیں۔ عیاشی کرنے بیرون ملک کے دورے کرتے ہیں جنہیں ادویات بنانے والی کمپنیاں اسپانسر کرتی ہیں۔ بغیر ضرورت کھ سرجریز مثلا (سی سیکشن) کرتے ہیں جس کا مقصد مال بنانا ہے اور اپنے گاہک پکے کرنا وغیرہ جیسے بے شمار گلے شکوے شامل ہیں۔

درج بالا خرابیوں میں سے ڈاکٹر صرف چند کے ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ باقی حکومتی نا اہلی اور ہمارے بیمار سماجی رویوں کی وجہ سے سامنے آتی ہیں۔

اصولاً ایک ڈاکٹر کو ایک دن میں تیس سے چالیس سے زاید مریض نہیں دیکھنے چاہیں۔ جبکی سرکاری او پی ڈیز میں تین چار یا پانسو کی قطار میں کھڑا ہر شخص یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ اسے سب سے زیادہ وقت ملے۔ اسپتال میں سہولیات فراہم کرنا حکومت کا کام ہے نہ کہ ڈاکٹرز کا۔ صفائی بہتر بنانا سینیٹر ورکرز کے ذمہ آتا ہے۔ ایمبولینس کو جلد اسپتال پہنچانا ایمبولینس کے ڈرائیور اور ٹریفک پر ہے۔ میڈیسن کمپنیاں ڈاکٹرز کی نہیں ہوتی نہ ہی ڈاکٹرز دوائیں بیچتے ہیں۔

نجی اسپتال چلانے والے ڈاکٹر پانچ فیصد سے زیادہ نہیں یہ بھی وہ ہیں جو تیس چالیس برس کی محنت کے بعد یہاں پہنچتے ہیں اور یہ بالکل ایسا ہی با عزت کام ہے جیسے کوئی پروفیسر اسکول کالج کھول لے کوئی وکیل لاء فرم بنا لے یا کوئی عالم مدرسہ۔

ہر ڈاکٹر کمیشن خور نہیں ہوتا اور اگر کوئی کمیشن لیتا بھی ہے تو یہ اس کا انفرادی فعل اس کا ساری ڈاکٹرز کیمونیٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔

سب سے بڑا تاثر جو غلط مفروضوں پر کھڑا ہے اور جس کا زائل ہونا اشد ضروری ہے وہ ڈاکٹروں کی آمدن کے حوالے سے ہے۔ لوگ ڈاکٹروں کی آمدن کا ان کے وقت پر تقسیم کرتے ہیں اور پھر دیہاڑی دار مزدور سے موازنہ کر کے ڈاکٹر کو لٹیرا قرار دیتے ہیں۔ دوسرا تاثر یہ ہے کہ ڈاکٹر کو چوں کے خدا کو جان دینی ہے اور انسانیت کی خدمت کرنا اس پر فرض ہے اس لیے فیس وغیرہ کا سوال کرنا سیدھا جہنم میں جانے کے مترادف اور ظلم عظیم ہے۔

یہ سمجھنا چاہیے کہ جان ہر ذی روح نے دینی ہے اور ڈاکٹرز بھی سوسائیٹی کا ایک جزو ہے جو باقی سوسائیٹی کو ایک سروس دے رہا ہے۔ جیسے ایک ٹیچر پڑھا رہا ہے۔ ایک سپاہی حفاظت کر رہا ہے۔ ایک عالم دین سکھا رہا ہے۔ ایک حجام زلف تراشی کرتا ہے۔ ایک تاجر تجارت کر رہا ہے یا ایک طوائف رقص کر رہی ہے۔

یہ سب لوگ بھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں مگر مفت خدمت کوئی نہیں کرتا، نہ ہی کرنا لازم ہے۔ کسی ریستوران سے ہم سوال نہیں کر سکتے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور تم کھانا بیچ رہے ہو۔ یا کسی پروفیسر سے یہ کہا جائے کہ طلباء ترس رہے ہیں اور تم علم دینے کے روپے لے رہے ہو۔

دنیا کے موجودہ معاشی نظام میں ہر انسان اپنا ہنر بیچتا ہے۔ وہ اس ہنر میں کتنا یکتا ہے اور سماج اس سے کتنا مستفید ہوتا اور پسند کرتا ہے یہ چیز اس کا معاوضہ طہ کرتی ہے۔

ہمارے مایہ ناز گلوکار دو تین گھنٹے کے کانسیرٹ کا معاوضہ کروڑوں میں لیتے ہیں۔ لکھاری تیس چالیس سطروں کا کالم تین چار لاکھ میں لکھتے ہیں۔ چوبیس گھنٹوں میں سینتیس منٹ کا پروگرام کرنے والے اینکر بھی کروڑوں کماتے ہیں۔ کسی مصور کی ایک پینٹنگ بے حساب قیمت کے عوض فروخت ہوتی ہے۔

یہ سب لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں ان کے ہنر اور کاریگری کے پیچھے ان کی صلاحتیں، برسوں کی ریاضت اور قربانیاں شامل ہوتی ہیں اور انہیں یہ ہنر کسی بھی صورت سستے داموں نہیں بیچنا چاہیے۔

ڈاکٹرز بھی اپنی زندگی کے خوبصورت ترین سال، حسین ترین لمحے اپنے پیشے کو دیتے ہیں اور اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ مرض اور درد سے ڈِیل کر سکیں۔ یہی ہُنر ان کی روزی روٹی بھی ہوتی ہے اور اسے فراہم کرنے میں ان کو بے شمار مشکلات بھی برداشت کرنی ہوتی ہیں۔ لوگوں کے رویے، گالم گلوچ، مار پیٹ، دھونس دھاندلی، ایک ڈاکٹر روزانہ ان سب سے مقابلہ کرتا ہے اور اپنا کام احسن طریقے سے کر رہا ہے تو اس سے بڑی خدمت کوئی نہیں ہے۔ دل کا دورہ پڑنے کے تین گھنٹے بعد فوت شدہ مریض ایمرجنسی میں لا کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ڈاکٹر اسے زندہ کر سکتا ہے یا اسے ڈاکٹر نے مارا ہے۔ کسی ڈاکٹر کی سب سے بڑی مایوسی یہ ہوتی ہے جب وہ کسی کا علاج نہ کر سکے یا زیر علاج مریض کی موت واقع ہو جائے۔

مگر ہماری رویے پروفیشنل سیکوریٹی نہیں دیتے۔ ہر قابل اور ذہین شخص کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے جہاں اسے کام کرنے کی آزادی بھی ہے، عزت بھی اور اس کی جیب میں بھی کوئی نہیں جھانکتا۔

پاکستان میں میڈیکل کا ہر وہ طالبعلم جس کے مالی یا خاندانی حالات اچھے ہیں یا کسی بھی عام طالب کو بھی موقع ملے وہ بیرون ملک جاب کو انکار نہیں کرے گا۔ ہمارے انتہائی باصلاحیت دماغ باہر کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ان کی قدر کی جاتی ہے۔ انہی میں سے اگر کسی کا دل اپنے لوگوں کو دیکھ کر تڑپ جائے اور وہ واپس پاکستان آجائے تو ہم اس کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ سنٹر لاہور کے سربراہ عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ڈاکٹر سعید سے کیا۔ جو حشر ہشام اللہ خان نے ڈاکٹر ضیا الدین کا کیا یا جو پمز اسپتال میں ڈیوٹی پر موجود خاتون ڈاکٹر کے جنسی استحصال کے صورت میں ہوا۔

رویوں کے تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ڈاکٹر پِٹتے رہیں گے۔ مریض رُلتے رہیں گے اور قابل لوگ ملک چھوڑتے رہیں گے اور ہمارے وطن عزیز کی محرومیاں بڑھتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).