کائرہ صاحب میرے اسامہ کو بچا لیجیے


ہمارے مہربان دوست رانا محبوب اختر نے قمر زماں کائرہ کا دکھ یوں قلمبند کیا ہے۔
تمہاری یاد کی شدت میں بہنے والا اشک۔
زمیں میں بو دیا جائے تو آنکھ اگ آئے۔

اس سے بہتر اظہار ممکن نہیں۔ اس سے زیادہ کائرہ صاحب کے کرب کو محسوس کرنا محال ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کائرہ صاحب کے دکھ کا مداوا کیسے ہو؟

آنے زخموں پر پھاہا کیسے رکھا جائے؟ مجھے لگتا ہے کہ مداوا ممکن ہے، پھاہا رکھا جا سکتا ہے مگر مداوا کرنے والا، پھاہا رکھنے والا کوئی اور نہیں خود کائرہ صاحب ہیں۔

خبروں کے مطابق اسامہ قمر کو حادثہ ایک موٹر سائیکل کو بچاتے ہوئے پیش آیا تھا۔ کائرہ صاحب ایک قومی تحریک کے شروع کریں تو کئی گھر ہر سال سڑکوں پر سے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے سے بچ جائیں۔ تحریک اس ہجوم نما قوم کو سڑک پر ڈرائیو کرنے سے پیدل چلنے تک کے مروجہ عالمی آداب سکھانے کی ہے، اس بات کو سیف روڈز کا نام دیں یا محفوظ سڑکیں۔

اب کائرہ صاحب اگر حادثات سے بچاؤ کے لیے قومی سطح پر تحریک چلائیں تو ان کو ضرور اپنے زخم پر مرہم محسوس ہو گا کہ وہ آئے روز کے حادثات سے کسی اور کے لخت جگر کو اپنی جان کے ٹکرے کے نام پر بچانے نکل کھڑے ہیں۔ اس تحریک کو جدوجہد جس چیز کے لیے کرنا ہے۔

جی ٹی روڈ کے گرد موٹر وے کی طرز پر باڑ لگائی جائے، نام نہاد کاروباروں کو پیچھے دھکیلا جائے اور مقامی آمدورفت بالخصوص گدھا گاڑیوں، ریڑھیوں موٹر سائیکلوں کے لیے سروس روڈز بنائے جائیں۔ تب تک شہری اور کاروباری علاقوں میں سپیڈ کی حد پر سختی سے عمل درآمد ہو۔ کیمرے نصب کیے جائیں، والدین اپنے بچوں کو گاڑی دینے سے پہلے ان کی عمر، ڈرایؤنگ کی ان کی اہلیت، ان کے روڈ سینس کو خود دیکھیں اور انہیں ٹریفک قوانین کی پابندی سکھایئیں۔

ڈرائیونگ گیر سٹئرنگ اور ایکسیلیٹر کو سمجھ لینے کا نام نہیں، رویے کا نام ہے، یہ رویے درست انداز میں نئے ڈرائیوروں کے اندر انڈیلے جائیں (کم عمر ڈرائیور گاڑی کو سیکھنے اور چلانے میں دیر نہیں لگاتے لیکن ذہن نشین کر لیجیے کہ جب حادثے کو سی صورتحال سے دوبار ہوتے ہیں تو ان کا ذہن کسی فیصلہ کے لیے تیار نہیں ہوتا)

منہ اٹھائے جاہلوں کی طرح بڑی شاہراہوں پر پیدل چلنے والوں کو بھی جرمانے کیے جائیں۔ جیسے امریکہ میں ہوتے ہیں۔ کئی ڈرائیورز ایسے ہی کسی گدھے کو بچانے کیے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ حقیقی گدھوں، گائے بھینسوں، کتوں اور دیگر جانوروں کی پہنچ بھی ان شاہراہوں پر نہ ہو جہاں ڈرائیور ایک مناسب رفتار سے چل رہے ہوتے ہیں۔ پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ اور زیبرا کراسنگ عام کی جایئں۔ موٹر سایئکل پر ڈرائیور اور سواری دونوں کے لیے ہیلمٹ لازمی ہو، حال مگر یہ ہے کہ وزیر خارجہ بھی پچھلے روز موٹر سائیکل پر بنا ہیلمٹ سیاسی مہم چلاتے نظر آئے۔

وزیر ریلوے کو بھی ہیلمٹ پسند نہیں۔ موٹر سائیکلسٹ سڑک کے کنارے نہیں، اپنی رو کے درمیان میں چلے۔ آپ کو یہ پڑھتے ہوئے حیرت ہو گی کیونکہ پاکستان میں سڑک کے درمیان چلنے والے موٹر سائیکلسٹ کو بڑی سی گالی دی جاتی ہے، امریکہ میں لائسنس لینے جائیں تو ٹریفک قوانین پڑھاتے ہوئے باور کرایا جاتا ہے کہ موٹر سائیکل کو پوری گاڑی سمجھو۔ اس کو کراس ایسے کریں جیسے کسی کار کو۔ مطلب دوسری لین میں جا کر کہ اس سے حادثہ نہیں ہوتا۔ (پاکستان میں کار، بس، ٹرک والا سائیکلسٹ کو ایج مارنا اور گالی دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ امریکہ میں موٹر سائیکلسٹ کو قریب سے کراس کریں تو بڑی سی گالی آپ کو پڑے گی، ہو سکتا ہے ماچو مین کا گھونسہ بھی۔ )

اور سب سے ضروری بات وہی گاڑی سڑک پر آئے جس کی ونڈ شیلڈ پر مجاز ورکشاپس سے فٹنس کے سٹکر لگے ہوں

گاڑیوں کے اندر ائر بیگز لازم ہوں جو ایسے حادثوں میں ڈرائیور اور سواریوں کو بچانے کے کھل جاتے ہیں۔ گاڑی بنانے والی کمپنیوں کو اسی طرح ان بیگز کے نہ کھلنے پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے جیسے امریکہ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔

ڈرائیورز اور گاڑیاں بنا انشورنس روڈ پر نہ آئیں۔ اس سے فرق یہ پڑتا ہے کہ ڈرائیورز ایکسیں ڈنٹس سے گریز کرتے ہیں کہ ہر ماہ انشورنس کے پریمیئر میں اضافہ ہو گ۔

اگر کسی با اثر کا بچہ ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی میں دھر لیا جائے تو جھوٹی آنا کو تسکین دینے، چالان افسر کا تبادلہ کرانے کے بجائے اپنے بچے کو دو چار دن جیل میں رہنے دیا دیں۔ صدر بش کی بیٹی بھی اسی خلاف ورزی میں حوالات میں رہ چکی ہے۔

کائرہ صاحب اپنے صاحبزادے کے دلخراش وداع کو اللہ کی منشا کے ذمے لگا کر خاموش ہو جانے کی بجائے اس مقصد کو زنگی کا حصہ بنا لیں تو نہ صرف اپنے درد کی دوا پائیں گے بلکہ اپنے بیٹے کی روح کی تسکین کا بھی سبب بنیں گے۔ ہم ان کے اسامہ کو نہیں بچا سکے وہ میرے اسامہ کو ضرور بچا لیں گے۔ یہ تحریک سال دو سال نہیں عمر بھر جدوجہد کی متقاضی ہے۔ اور سیاست سے بڑا مقصد ہے۔ آج کائرہ صاحب کا درد ہم سمجھ رہیں ہیں۔ شاید ان کے منہ سے نکلی بات بھی ہم سب کو، اس ملک اس ریاست کے ذمہ داروں کو سمجھ آ جائے۔

ورنہ روزانہ کئی جواں سال اسامہ سڑک پر بھاگتے جنون کو اپنا خون پیش کرتے رہیں گے۔ آج کائرہ صاحب نے جوان لاشہ اٹھایاں ے، کل کے لیے ہم۔ تیار رہیں۔ حادثوں کو صرف حادثہ سمجھنے والوں سے سوال ہے کیا خالق کو سڑک پر صرف پاکستانی زندگیوں کی بلی چاہیے؟ ہر سال جتنی اموات 22 کروڑ کے پاکستان میں ہوتی ہیں، اس سے نصف 34 کروڑ کے امریکہ میں کیوں ہوتی ہیں؟ حالانکہ یہاں سپیڈ لمٹ کہیں زیادہ ہے۔ جواب ڈسپلن، ضوابط روڈ سینس۔

پاکستان۔ میں سڑکوں پر جو بھیڑچال اور بے ہنگم جنون بھاگتا ہے اس کو دیکھ کر کسی ایکسیڈنٹ پر حیرت نہیں ہوتی، حادثے سے واپس بچ کر آنا معجزہ لگتا ہے۔ آئیے کائرہ صاحب اس جنونیت کو مروجہ ضابطوں میں ڈھالنے کے لیے قدم بڑھائیے۔ ۔ سڑکوں کا نوالہ بننے کے بجائے ڈرائیونگ میں پرو لائف رویے سھانے میں راہنمائی کریں۔ خدا کی ذات آپ اور آپ کی فیملی کے زخموں پر مرہم رکھے۔

اسد حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسد حسن

اسد احمد وائس آف امریکا کے نشریاتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ اور اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے علاوہ کھیلوں بالخصوص کرکٹ کے معاملات پر گہری آنکھ رکھتے ہیں۔غالب امکان ہے کہ آئندہ کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ّہم سبٗ پڑھنے والے اسد احمد کے فوری، تیکھے اور گہرے تجزیوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

asad-ahmad has 16 posts and counting.See all posts by asad-ahmad