ایک عظیم دانشور سے ملاقات


\"dr

مشہور ہے کہ کنواں پیاسے کے پاس چل کر نہیں آتا بلکہ یہ کام پیاسے کو ہی زیب دیتا ہے۔ لیکن جب قدرت مہربان ہو تو چشمہ حیواں تک بیمار کی خود رہنمائی کر دیتی ہے، بلکہ سالک کا ہاتھ تھام کر اُسے منزلِ مقصود تک پہنچا آتی ہے۔ بقول شاعر، ایں سعادت بزورِ بازو نیست، تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔ میرے ساتھ بھی کچھ عرصہ قبل ایسا ہی معاملہ پیش آیا جب ایک عظیم دانشور سے میری اتفاقیہ ملاقات ہوگئی۔ اس ملاقات نے میرے ذہن میں سوچ و فکر کے کئی نئے در کھول دیئے اور مجھے ایسی ایسی باتوں پر غور کرنے پر مجبور کردیا جو پہلے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ اس ایک آدھ گھنٹے کی گفتگو میں میں نے علم و دانش کے وہ موتی سمیٹے جو بقول خود دانشور کے نہ کتابوں میں ملتے ہیں نہ ان کا ذکر کسی عام محفل میں ہوتا ہے۔ بقول اقبال، نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو، یدِ بیضا لئے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں۔ میں کافی عرصے سے اس ملاقات کے سبب اک گونہ سرشاری و بے خودی کے عالم میں رہ رہا ہوں لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خود غرض نہ بنوں اور باقی دنیا کو بھی اپنے ساتھ شریکِ فیض کروں کہ علم بانٹنے سے بڑھتا ہے اور ایسا کرنا صدقہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک اتوار کو میرا اپنے شہر کے پاکستانی کمیونٹی سینٹر میں جانا ہوا۔ وہاں ایک متین صورت صاحب پہلی دفعہ نظر آئے۔ پردیس میں نئی پاکستانی صورت اگر نظر آجائے تو تعارف کروانا ایک ضروری عمل ہے۔ بہرحال سلام دعا وغیرہ کے بعد ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میری مخاطب کوئی عام ہستی نہیں بلکہ میرے سامنے ایک ایسا دانشور موجود ہے جسے غربی و شرقی، عرفانی و مادی، سائینسی و اخلاقی، غرض ہر قسم کے علوم پر نہ صرف عبور حاصل ہے بلکہ وہ ان پر اپنی علیحدہ رائے بھی رکھتا ہے۔ جوں جوں یہ احساس گہرا ہوتا گیا میری گفتگو میں اشتیاق بڑھتا گیا۔ شاید میری دلچسپی و عقیدت دانشور کو بھی محسوس ہوئی لہٰذا فرمانے لگے کہ ”آپ ایک اچھے انسان معلوم ہوتے ہیں۔ مگر وہ برائیاں جو میں عام پاکستانیوں میں دیکھتا ہوں، مجھے آپ بھی ان میں مبتلا لگتے ہیں“۔ اب جو احباب مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ میری خود اپنے بارے میں کوئی خاص اچھی رائے نہیں۔ اس لئے تردید کی تو یہاں گنجائش ہی نہ تھی البتہ یہ بات سن کر تجسس ضرور پیدا ہوا اور میں نے اپنے اندر موجود ان عام خرابیوں کے متعلق دریافت کیا۔

فرمانے لگے کہ سُنو، پاکستانیوں کو چار چیزوں نے برباد کردیا ہے۔ یہ چار چیزیں ہر پاکستانی میں پائی جاتی ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستانی دنیا بھرمیں بھی خوار ہیں اور آخرت میں بھی ان کے اچھے مستقبل کی مجھے کوئی امید نہیں۔ آج پاکستانی جس قعر ذلت میں جا گرے ہیں، جگہ جگہ خوار ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں، ان سب باتوں کا سبب یہی چار برائیاں ہیں۔

یہ کہہ کر پہلے تو وہ کچھ خاموش سے ہوگئے لیکن میرے اصرار پر فرمانے لگے کہ دیکھو، ان چار میں سے پہلی برائی کا نام ہے غیبت، جو پاکستانی خاندانوں اور معاشرے کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ میں نے اعتراف کیا کہ کہ میں نے اس امر کی طرف پہلے کبھی توجہ نہیں کی۔ اس پر دانشور محترم نے مجھے ہمارے شہر میں موجود کئی پاکستانی گھروں کے نام لے لے کر بتایا کہ کیسے غیبت نے ان کے گھر یا کاروبار کو تباہ کردیا ہے۔ ”حاجی۔۔۔ صاحب کی مثال لیں۔ خود ان کی دکان میں باسی گوشت بکتا ہے مگرآپ ہر گاہک سے ہمیشہ بغل میں موجود ریسٹورنٹ والوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے اپنے کاروبار میں سے برکت اٹھ گئی ہے۔“ پھر ایک شیخ صاحب کی مثال دی جن کے گھر کو غیبت نے ایسا تباہ کیا کہ سگے بیٹے نے ان پر پولیس بلا لی۔ یہ مثالیں میری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھیں کیونکہ میں ان میں سے جن افراد کو جانتا تھا ان سے متعلق ایسی باتیں میرے گمان میں بھی نہ تھیں اور جن کے ساتھ میرا ابھی تک تعارف نہ تھا اُن کے بارے میں یہ جان کر میں کافی ہوشیار ہوگیا۔

عرض کی کہ وہ دوسری برائی کیا ہے جس میں پاکستانی مبتلا ہیں۔ فرمانے لگے کہ دوسری چیز جو پاکستانیوں کو برباد کر رہی ہے وہ ہے کسی گروہ کے افراد کے بارے میں عمومی رائے رکھنا۔ کہنے لگے کہ یہ عادت اگرچہ تمام پاکستانیوں میں موجود ہے مگر فلاں برادری کی مثال لو۔ یہ لوگ اگرچہ خود کنجوس و مطلب پرست ہیں لیکن بجائے اپنی اصلاح کے فلاں برادری کو، کہ جن کا بے ایمان ہونا ہم سب کو معلوم ہے، گھٹیا سمجھتے ہیں۔ میں نے یہ سن کر وہیں ارادہ کر لیا کہ میں ان دونوں برادریوں سے آئندہ دور ہی رہوں گا۔

اپنی بات جاری رکھتےہوئے محترم دانشور گویا ہوئے کہ تیسری چیز جو پاکستانیوں کو دیمک کی طرح کھائے جا رہی ہے وہ کسی بھی شخص کی اصلیت جانے بغیر اس کے متعلق رائے قائم کر لینا۔ اس پر بھی انہوں نے کچھ خاص لوگوں کا ذکر کیا مثلاً ایک ہونق صورت صاحب کو فلاں ملک صاحب نے صرف اس بات پر کہ وہ فلاں برادری سے تعلق رکھتا ہے عقل مند سمجھ کر اپنا پارٹنر بنا لیا اور کافی نقصان اٹھایا وغیرہ وغیرہ۔ گفتگو کے اس مقام پر میں شکر گذاری کے عالم میں پوچھ بیٹھا کہ آپ نے علم کے یہ موتی مجھے کیسے لوٹانے کا فیصلہ کیا تو فرمانے لگے کہ میں نے آپ کی شکل سے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ آپ کو میری نصیحت کی ضرورت ہے۔

دانشوری کی یہ باتیں چونکہ میرے لئے بالکل نئی تھیں لہٰذا انہیں سن کر میرے دل و دماغ میں ایک عجیب سرشاری سی طاری ہوگئی اور میں اپنے آپ کو اچانک بہت خود اعتماد سا محسوس کرنے لگا۔ اسی خود اعتمادی نے مجھے یہ پوچھنے کا حوصلہ دیا کہ آپ نے جو نصیحتیں مجھے کی ہیں آپ بظاہر خود ان پر عمل پیرا نہیں۔ دوسروں کا نام لے کر جو مثالیں آپ دے رہے ہیں وہ بھی تو غیبت ہے، آپ خود دوسرے گروہوں کے بارے میں عمومی رائے رکھتے ہیں اور آپ نے مجھ سے بات کرنے سے پہلے ہی میرے متعلق رائے قائم کرلی۔ اس کھلے تضاد کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔

فرمانے لگے کہ میں اسی طرف آرہا تھا۔ یہ ہے وہ چوتھی عادت جو پاکستانیوں کو برباد کر رہی ہے اور وہ یہ کہ ہر بات میں مین میخ نکالنا اور خواہ مخواہ کے اعتراض کر کے دانشوری جھاڑنے کی کوشش کرنا۔ یہ سن کر میرا سر ندامت سے جھک گیا اور یہ چاروں برائیاں مجھے اپنے اندر واضح طور پر نظر آنے لگیں۔ لیکن پھر اس بات کے ادراک نے، کہ میں اپنی شخصیت کو پہلے سے بہتر سمجھنے لگا ہوں، میرے من کا بوجھ کافی ہلکا کردیا۔ میں نے اٹھ کر اس عظیم دانشور کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اگلی ملاقات میں مزید رہنمائی کی درخواست کرتے ہوئے رخصت چاہی۔ امید ہے آپ لوگ بھی ان باتوں پر غور فرمائیں گے اور اس عظیم دانشور کی رائے سے خود کو متفق پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments