بلوچستان میں ناقابل اعتبار فوجیائی مناظر!


\"waqar-malik-balochistan\"جہاں خدشات و اندیشے زیادہ ہوں اور زندگی کی بقا اور تحفظ کے معاملات زیر بحث رہتے ہوں وہاں تعصبات بھیس بدل کر خوش کن عقلی لباس پہن لیتے ہیں۔ یہ پہناوے جو صورت گری کرتے ہیں ان میں باہمی اعتماد پر بڑی ضرب لگتی ہے۔ بلوچستان پر کچھ بھی بولنا، کسی بھی گروہ کا ’سچ‘ بولنا‘ خطرے سے خالی نہیں ہوتا کہ دوسرا گروہ اپنے سچ کے گرز لے کر تاک میں بیٹھا ہوتا ہے۔
بلوچستان میں جشن یوم آزادی پر تنقید کچھ ایسے دوستوں کی جانب سے آئی جو آٹھ اگست کے سانحہ سے براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ کچھ ایسے دوست ہیں جو لاپتہ افراد کے حوالے سے متعلقہ ہیں اور اکثریت وہ ہیں جن کا وطن بلوچستان ہے۔ اور یہ تینوں طبقات تنقید کے جائز جواز رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے زخم ہی ایسے ہیں۔

بلوچستان کے حوالے سے کچھ گذارشات کرنے کی اجازت چاہوں گا۔

تربت کے پاس ہوشاب میں ایک سکول گیا ۔ شاید اس اسکول میں اس لیے لے جایا گیا کہ یہ ایک بہتر اسکول تھا اور گر یہ بہتر اسکول تھا تو جانے بد تر اسکول کیا ہو گا۔ اسکول میں ایک ایک بچے کو دیکھا، چہرے پہ محرومیاں چھپائے کہاں چھپتی ہیں۔ بچوں نے جو لباس زیب تن کر رکھا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ استاد کے سامنے کی جیب ادھڑی تھی، ایک کھیڑ (چپل) کی پچھڑ (بند) سرے سے نہیں تھا اور جب اس استاد کے لباس کی یہ حالت تھی جو اپنی طرف سے اس دن بن ٹھن کے آیا تھا تو بچوں کے لباس کی حالت کیا ہو گی۔ دل کمبخت کچھ ایسا جذباتی واقع ہوا ہے کہ جب ایک مقامی بلوچ مجھے با ر بار چائے اور ااس کے ساتھ رکھے کچھ لوازمات کے لیے بلا رہا تھا تو میں چہرے کے تاثرات منجمد کرتے ہوئے اور گلے میں گرتے نمکین پانی کو ضبط کرتے ہوئے اور نچلے ہونٹ کی تھر تھراہٹ کو روکتے ہوئے پوچھ رہاتھا کہ واش روم کہاں ہے؟ جہاں میں جا کر جی بھر کر رو سکوں۔

\"flag-balochistan\"

بخدا ایسی محرومی کے چلتے پھرتے اشتہارات ایک ہی جگہ اتنی تعداد میں کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر تھا کہ آخر اس قدر محرومی کے براہ راست ذمہ داران کون ہیں؟ جلد جواب مل گیا۔ جب میں اس کمرے میں آیا جہاں جنرل صاحب اپنے کچھ ساتھی افسران کے ساتھ بیٹھے تھے اور ان کے سامنے مقامی علاقے کے بلوچ معززین بیٹھے تھے۔ ایک بلوچ بھائی اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ جنر ل صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ نے پچھلی دفعہ ہماری گذارش پر پانی کا ہینڈ پمپ لگوا کر دیا تھا اس سے بہت بہتری آئی ہے سر، اب سارے محلے کی خواتین کو پانی محلے میں ہی مل جاتا ہے لیکن صاحب کیا وہ دوسرے والے محلے میں بھی ایسا ہو سکتا ہے‘‘ جنرل صاحب کن اکھیوں سے پاس مستعد کھڑے کپتان کو دیکھتے ہیں جو فورا ہاتھ میں پکڑی نوٹ بک پر کچھ لکھتا ہے اور بلوچ بھائی کی جانب دیکھتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ہو جائے گا بھائی اور کوئی مسئلہ‘‘۔

پھر گلی کی نالیوں سے اسکول کے واش روم تک اور پکی گلیوں کے مطالبے سے لے کر سیکیورٹی کے مسائل تک چھیڑ دیے جاتے ہیں ۔

میں واپسی پر ساتھ چلتے افسروں سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ آپ کی ذمہ داری ہے ۔ یہ تو بلدیاتی ادارے جانے ان کا کام جانے۔ اور جواب میں وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اتنا کہتے ہیں کہ یہاں ترقیاتی کاموں کا تصور بھی نہیں ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم یہ کام اس لیے کرتے ہیں کہ بڑی مشکل سے ان کا اعتماد حاصل کیا ہے۔ اب جب کے بار بار اعتماد دلانے پر انہوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا شروع کیا ہے، سیکیورٹی کے معاملات میں تعاون کیا ہے، تو ان کے مطالبات رد کرنا ناممکن ہو جاتا ہے، چاہے یہ بات اصولی طور پر ٹھیک نہ بھی ہو۔

\"balochistan-4\"

حال ہی میں جب جشن آزادی کی تقریبات کے لیے جانا ہوا تو دل بوجھل تھا۔ کہ ایک طرف تو اس قدر ہولناک واقعہ ہوا ہے اور اس پر اس طرح کی تقریبات کا کیا مطلب؟

کوئٹہ پہنچا تو ہر طرف جھنڈے اور سڑکوں پر بورڈز کے حوالے سے یوں ہی لگا کہ جیسے ایک ایک باشندے کی گاڑی اور موٹر سائیکل پر لگے جھنڈے، اور جا بجا لکھے نعروں کے پیچھے فوج کی ہدایات ہیں۔ یہ سوچ کچھ ایسی عجیب بھی نہیں تھی کہ ہم یہاں اسلام آباد میں یہی سنتے آئے ہیں۔ تقریب میں شرکت کے لیے جناب اجمل جامی اور مجیب الرحمان شامی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ میرا خیال ہے کل ملا کر دس افراد میڈیا کے تھے جو اس تقریب کے لیے اسلام آباد اور لاہور سے بلائے گئے تھے۔ بگٹی سٹیڈیم میں تقریب تھی۔ پوری تقریب یہ تھی۔

ابتدا میں تلاوت کلام پاک
آٹھ اگست کے شہدا کے لیے پورے سٹیڈیم میں ایک منٹ کی خاموشی اور تعظیم میں کھڑے ہونا
شہدا کے لیے ایک طویل دعا
شہدا کے لواحقین کی تقریریں
آٹھ اگست کے سانحہ میں بچ جانے والوں کے تاثرات

\"balochistan-3\"

شہدا کے لیے بڑی سکرین پر نئی طرز میں۔۔ اے راہ حق کے شہیدو!
قائد اعظم کے زیارت میں قیام اور بلوچوں و پشتونوں کے اظہار عقیدت کے حوالے سے ایک ویڈیو
اسکول کے بچوں کا شمعوں کی مدد سے پاکستان کے حوالے سے کلمات لکھنا
بلوچستان بلوچستا ن کا نیا ملی نغمہ
پرچم کشائی
فوجیوں کی پریڈ
گورنر، وزیر اعلیٰ اور فوجی افسران کی تقریریں
اور آخر پر بلوچستان کی معدنیات و وسائل کے حوالے سے ویڈیو۔

یہ تھی ساری تقریب ۔ اس تقریب میں آٹھ اگست کے سانحے کی وجہ سے بہت کچھ منہا کر دیا گیا۔۔
حدیقہ کیانی سے معذرت کی گئی
دوسرے تمام گلوکاروں سے معذرت کی گئی
آتش بازی کو منسوخ کر دیا گیا۔۔۔وغیرہ وغیرہ

\"balochistan-1\"

تقریب پر اس حوالے اعتراضات مجھے اس لیے مناسب محسوس نہیں ہوئے کہ ساری تقریب کا ستر فی صد شہدا ئے آٹھ اگست کے حوالے سے ہی تھا۔
یقین جانیے زندگی بھر فوج سے اصولی اختلاف رہا۔ آج بھی ہے اور فوج جب بھی غیر آئینی و غیر قانونی کام کرے گی اختلاف رہے گا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تعصب کی ایک ایسی عینک پہن لوں کہ کچھ عرصے کے بعد یہ فوج مجھے مکمل طور پر بدیسی اور ہر فتور کی جڑ لگنے لگے۔ اب یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ جو لوگ اپنے طور پر کوئٹہ گئے تھے وہ سب بھی درحقیقت فوج کی کاوش تھی۔

مجھے نہیں معلوم کہ ہزاروں افراد میں کتنے لوگوں کو فوج یہاں سے پکڑ پکڑ کر لے گئی تھی کہ وہاں جا کر جشن آزادی منانا ہے ۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ جیسے ہی کوئٹہ پہنچا تو معلوم ہوا، ایک پرانا دوست مکرم کلیم وہاں پہنچا ہوا ہے، ایک یونیورسٹی کی طالبہ ثنا وہاں پہنچی ہوئی ہے اور کرتے کرتے بیسویوں افراد نکل آئے جو اپنے طور پر بلوچستان پہنچے تھے۔

جواد بھائی پاکستان میں بائیکرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ہیں۔ وہ اپنی پوری ایسوسی ایشن کے ساتھ گوادر اور کوئٹہ کے دورے پر نکلے ہوئے تھے ۔ یہ وہ تمام افراد ہیں جن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور جن سے برسوں پرانا تعلق ہے۔

ایسے اور سیکڑوں افراد کو بھی جانتا ہوں جو مسلسل مجھے فیس بک کے پیج پر پیغامات کے ذریعے پوچھتے رہتے ہیں کہ ہم نے بلوچستان جانا ہے پلیز ہم نے بلوچستان جانا ہے، کیسے جائیں۔ موٹر سائیکل پر چلے جائیں ؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا وغیرہ ۔

\"balochistan-5\"

یعنی لگتا یہ ہے کہ آج بلوچستان سے اچھی خبریں موصول ہونا شروع ہو جائیں تو گلگت بلتستان سے ٹھرک رکھنے والے سارے سیاح بلوچستان میں ہوں گے۔ گلگت بلتستان سے محبت رکھنے والے اس کے پہاڑوں کی بنجر ساخت سے بالخصوص محبت رکھتے ہیں اور اس ساخت کی جو فراوانی بلوچستان میں ہے اور کہاں ہو گی۔

ہم دو راتیں کوئٹہ میں گھومتے رہے۔ میں نے اتنا جذباتی جشن آزادی اس سے پہلے گلگت میں دیکھا تھا لیکن جو کچھ کوئٹہ میں دیکھا وہ بہت منفرد تھا۔ رات گئے تک ہم گھومتے اور گاڑی کے شیشوں کو چڑھا کر رکھتے کہ باہر سے کوئی پانی پھینک دے گا، ۔۔ مجھے نام نہیں معلوم لیکن وہ ایک باڈی سپرے کے ڈبے کی مانند ایک ڈبہ ہوتا ہے جس کو دبانے سے سفید برف جیسی ایک پھوآر نکلتی ہے اور بارات کے استقبال کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

سارا کوئٹہ شہر ہاتھوں میں وہ ڈبے اٹھائے ہوئے تھا۔بلکہ یوم آزادی سے ایک دن پہلے ہم کوئٹہ پہنچے تھے اور میں نے راستے میں جا بجا یہ ڈبے فروخت کرنے والے دیکھے جو ڈبے کو ہلا کر ٹک ٹک کی آواز نکاتے تھے تو اس وقت مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا اور کیوں بیچے جا رہے ہیں۔

\"waqar-malik-1\"

سب سے دلچسپ واقعہ وہاں پیش آیا جب ہم ایک مارکیٹ میں کچھ لینے کے لیے رکے اور ایک بڑا رسک لے کر گاڑی سے اترے کیونکہ گاڑی سے اترنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا آپ گاڑی سے ایک لمحے کے لیے اترے نہیں کہ کہیں سے وہ سفید پھوار آپ کے چہرے پر آئی نہیں ۔ خیر ہم بہت ہی چوکس و چوکنے ہو کر نکلے۔ میرے ساتھ احمد قریشی چل رہے تھے۔ ہمارے سامنے تین خواتین آ رہی تھیں جو چادروں میں لپٹی ہوئی تھیں۔ ہم کچھ ثانیوں کے لیے بے فکر ہو گئے ۔ جیسے ہی وہ خواتین پاس پہنچی تو ایک چادر میں سے ایک ہاتھ نکلا اور شوں کرتا احمد قریشی کے چہرے پر پھوآر ڈال گیا۔ میں نے احمد کو دیکھا جس کا چہرہ سفید برف نماسے بھرا ہوا تھااور خواتین زور دار نسوانی قہقہے لگاتی بھاگ چکی تھیں۔ یقین جانیے یہ قہقہے بہت دلفریب لگے
دل چاہا کہ سڑک پر یونہی بیٹھ جائیں اور بلوچ و پشتوں ہم پر یہ سفوف سا چھڑکتے رہیں اور ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے قہقہے سنتے رہیں ۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments