موت کے منہ سے لوٹنے والی ماں مجھے پانچ سو روپے دینا چاہتی تھی


یہ سیدھا سادھا اسقاطِ حمل کا کیس نہیں تھا۔

نواب شاہ کے سول ہسپتال میں اسقاط حمل کے ساتھ بہت سارے مریض آتے ہیں۔ اسقاط حمل ایک عام بات ہے۔ لاکھوں کروڑوں عورتوں کو تو پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ ان کا حمل ضائع ہوگیا ہے۔ قدرت کا نظام ہی اس قسم کا ہے کہ ہونے والے بچے میں اگر ایسی خرابی ہو کہ جس کے ساتھ زندہ رہنا ممکن ہی نہ ہوتو پھر حمل خودبخود ضائع ہوجاتا ہے۔ بچہ خودبخود گرجاتا ہے۔ اس حمل کوضائع کرنے کے لئے، اس بچے کو گرانے کے لئے کسی دائی، نرس، مڈوائف یا ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

قدرت کے اپنے اصول ہیں، اپنا نظام۔ وہ اس بحث میں پڑتی ہی نہیں ہے کہ زندگی کا آغاز کب ہوتا ہے، دل کب دھڑکنا شروع ہوتا ہے۔ روح کب جسم میں داخل ہوتی ہے، کوکھ کے اندر حیات کب انگڑائی لیتی ہے اور بچہ گرانا تو ایسا ہی ہے جیسے نسل انسانی کے خلاف جنگ۔ جب سے دنیا بنی ہے انسان نمودار ہوئے ہیں اور تولید کا سلسلہ شروع ہوا ہے، حمل ضائع ہوتے ہیں، ضائع ہوتے رہیں گے۔

مگر اس اسقاط حمل کا مسئلہ اتنا سیدھا سادا نہیں تھا۔

وہ نواب شاہ کے قریبی شہر دولت پور کے آس پاس کے ایک گاؤں سے لائی گئی تھی۔ دیکھتے ہی ایسا لگا جیسے وہ مرجائے گی۔ اُکھڑی اُکھڑی سانسیں، تمتماتا ہوا سرخ چہرہ، ہونٹوں پر پپڑی سی جمی ہوئی۔ غنودگی کی سی کیفیت میں وہ آہستہ آہستہ اپنی زبان میں کچھ بڑبڑارہی تھی۔

”میں مرجاؤں گی، ہائے میں مرجاؤں گی۔ میرے بچوں کا کیا ہوگا۔ مجھے بچالو، بچالو مجھے۔ مجھ سے گناہ ہوگیا۔ “

اسے فوری طور پر داخل کرلیا گیا تھا، اس کے ساتھ صحیح بات بتانے والا کوئی بھی نہیں تھا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ ہاری شوہر نے صرف یہی بتایا کہ گزشتہ چار پانچ دنوں سے اس کی طبیعت خراب ہے۔ قاضی احمد شہر کی ایک دائی کے پاس یہ گئی تھی پھر جب واپس آئی تو اس کے پیٹ میں درد تھا۔ دولت پور کے میڈیکل اسٹور سے اس نے اسے درد کی دوا لا کر دی مگر درد تو ختم نہیں ہوا بلکہ اسے الٹیاں شروع ہوگئیں، پھر بخار آگیا۔ حکیم کو بھی دکھایا اور مسجد سے پانی بھی لا کر پلایا مگر طبیعت صحیح ہونے کے بجائے خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ دولت پور میں موجود لیڈی ہیلتھ ورکر دیکھنے آئی تو اس نے اسے فوراً نواب شاہ کے سول ہسپتال لے جانے کے لئے کہا۔ گاؤں سے اسے بیل گاڑی پر ڈال کر دولت پور اور پھر دولت پور سے ایک گاڑی والے کو ایک منہ مانگے پیسے دیے تو اس نے نواب شاہ پہنچایا تھا۔

اس کی حالت خطرناک حد تک خراب تھی۔

اس کا شوہر غلام علی لمبے قد کا دبلا پتلا آدمی تھا۔ چہرے پر داڑھی اُگی ہوئی، چھوٹی چھوٹی آنکھوں پر سیاہ گھنی پلکیں، نمایاں ستواں ناک، چوڑی پیشانی اور چہرے کے خطوط جیسے کسی نے چھیل چھیل کر بنائے ہوں۔ بلاشبہ وہ ایک خوبصورت آدمی تھا مجھے ہالی ووڈ کی فلم میں حضرت موسیٰ کا کردار ادا کرنے والا چارلٹن ہیسٹن یاد آگیا تھا۔ کھردرے موٹے موٹے سے ہاتھ اورمضبوط شانے بتارہے تھے کہ اس نے زندگی میں محنت کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔

اس کی کوئی تعلیم نہیں تھی۔ وہ کاوش اخبار بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ وہ صدیوں پرانے سندھی کسانوں ہاریوں کا تسلسل تھا جنہوں نے زمینوں کی چھاتی کو کوٹ کوٹ کر، دریا سے پانی نچوڑ نچوڑ کر اپنی جوانی کو اپنے مالکوں کی بھینٹ چڑھا کر ان کے لئے غلّہ اُگایا۔ ان کے گھروں، حویلیوں، محلوں کو سجایا۔ ان کے لئے جنگیں لڑی تھیں اور ان کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی جانوں کا نذرانہ دیا تھا۔ موہنجوڈارو سے بھی سالوں سال قبل اور موہنجوڈارو کے بعد بھی، گوتم بدھ کے پیروکاروں کے زمانے میں بھی اور محمد بن قاسم کے قتل ہونے کے بعد بھی، مغلوں، کلہوڑوں، تالپوروں، سومروں کے وقت میں بھی اور انگریزوں کی حکمرانی کے زمانے میں بھی، پاکستان بننے کے بعد بھی اور ون یونٹ کے ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ وہ اپنے سرداروں، پیروں، وڈیروں، جاگیرداروں، زمینداروں اور سیّدوں کی زمینوں کو آباد کریں، ان کی خدمت کے لئے اپنی نسل میں اضافہ کریں اور وقت سے بہت پہلے ملیریا، ٹائیفائیڈ، کالرا، پلیگ، چیچک یا اسی قسم کے کسی مرض میں مبتلا ہوکر مرجائیں۔

کہتے ہیں کہ اب چیچک ختم ہوگئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے اس کا خاتمہ کردیا ہے۔ چیچک ختم ہوگئی تو کیا ہوا موجودہ نسلوں کا خاتمہ کرنے کے لئے کالا یرقان ہے۔ دنیا شاید کبھی بھی نہیں بدلے گی۔

اسے ایک سو چار بخار تھا، اس کی نبض بہت ہلکی تھی اورایک منٹ میں ایک سو چالیس پچاس دفعہ چل رہی تھی، بلڈ پریشر بہت ہی کم تھا، اوپر کا ستر اور نیچے کا چالیس۔ وہ ایک منٹ میں اٹھائیس تیس دفعہ سانسیں لے رہی تھی۔ اس کا ہیموگلوبن سات تھا۔ نہ جانے وہ زندہ کیسے تھی۔ گاؤں دیہات کی یہ مزدور ہاری عورتیں مرنے میں دیر بھی بہت لگاتی ہیں۔

اسے فوری طور پر ڈرپ لگائی گئی تاکہ بخار اورسانس سے ضائع ہونے والا پانی فوری طور پر جسم میں پہنچایا جاسکے۔ ناک پر آکسیجن کی نلکی لگادی گئی تاکہ سانس لینے میں آسانی ہو۔ دو بہت ہی طاقت ور قسم کی اینٹی بائیوٹک شروع کی گئی تاکہ جسم میں جو انفیکشن پھیل گیا ہے اس کے خلاف یہ دوا کام شروع کردے۔ تھوڑا سا خون نکال کر بھیج دیا گیا تاکہ کم از کم دو بوتل خون کا انتظام ہوجائے اگر آپریشن کی ضرورت پڑجائے گی تو اس کے لئے خون کا ہونا ضروری تھا، مریضہ کا ہیموگلوبن بہت کم تھا۔

جب اندرونی معائنہ کیا گیا تو صورت حال بہت خوف ناک تھی۔ مریضہ کے بچہ دانی میں سوراخ تھا اور اس سوراخ کے ذریعے سے آنتیں باہر نکل رہی تھیں جن میں کئی جگہ پر چھوٹے چھوٹے سوراخ تھے جن سے فضلہ رس رس کر نکل رہا تھا۔ پیشاب کی تھیلی کے نچلے حصے پر کالا کالا سا نشان تھا جس کے چاروں طرف جمع ہوا خون تھا۔

مریضہ تقریباً بے ہوش تھی اور کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھی مگر اندازہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی کہ وہ اپنا بچہ ضائع کرانے کے لئے کسی کے پاس گئی تھی جہاں پر اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہوگا۔

غریب لوگوں کے لئے بچہ ضائع کرانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ امیر لڑکیاں اور عورتیں جائز اور ناجائز بچہ ضائع کرانے کے لئے شہر کی قابل ترین گائناکولوجسٹ کے پاس چلی جاتی ہیں، مناسب فیس دے کر یہ کام نہایت احتیاط، صفائی اور مہارت کے ساتھ کرالیا جاتا ہے۔ وزیروں، سفیروں، بڑے بڑے سرکاری افسروں اور حکمرانوں کے خاندان کی عورتیں یہی کام سرکار کے خرچے پر انگلینڈ یورپ اور امریکہ کے ہسپتال میں کراکر آجاتی ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا ان سے، کوئی سوال نہیں اُٹھاتا، سب کچھ صفائی سے ہوجاتا ہے مہارت کے ساتھ، مسئلہ تو غریب لڑکیوں کا ہے۔ ان کا ہے جو دیہاتوں میں ہیں اور شہر کی کچی آبادیوں میں رہتی ہیں۔

وہ غریب لڑکیاں جنہیں زبردستی جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جو حاملہ ہوجاتی ہیں، وہ کہاں جائیں۔ وہ غریب بچیاں جنہیں مرد بے وقوف بنا کر اور ان کی نادانی کا فائدہ اٹھا کر حاملہ کردیتے ہیں، وہ کس کے پاس شکایت کریں، مدد کے لئے جائیں۔ یہ عورت جو پہلے ہی سات بچوں کی ماں ہے اور اب حاملہ نہیں ہونا چاہتی ہے مگر حمل سے ہے تو اپنا حمل ضائع کرانے کے لئے کس کے پاس جائے۔

سماج کے پاس اس قسم کے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا بلکہ اس قسم کے سوالوں کے بارے میں سوچنے کا وقت بھی نہیں تھا۔ سماج تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہا ہے، سماج تو اسلامی نظام کے لئے جدوجہد کررہا ہے، سماج تو جمہوریت کی جنگ لڑرہا ہے، سماج تو کشمیر کی آزادی کے لئے تیاری کررہا ہے، سماج وہ سب کچھ کررہا ہے جو سماج کے لئے اہم ہے۔ یہ نازک اندام، غریب بے کس مجبور لڑکیاں عورتیں سماج کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں۔ جن لڑکیوں کی عزت لوٹی جاتی ہے ان کی شکایت پر پولیس والے بھی ان کی ہی اور ان کے خاندانوں والوں کی عزت لوٹتے ہیں۔

کنواری ماؤں کو سماج کاری اور غیرت کے نام پر قتل کردیتا ہے اور رانی جیسی عورتیں دائیوں کے ہاتھوں اَدھ مری ہونے کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں پہنچ جاتی ہیں جہاں انہیں خیرات کے نام پر دوائیں دی جاتی ہیں، رحم کے نام پر خون ملتا ہے، امداد کے طور پر بستر ملتا ہے اور ڈاکٹروں، نرسوں کے رحم و کرم پر ان کی زندگی ہوتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2