میاں بیوی: دونوں کو دل کا دورہ پڑا تھا


اس عورت کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ اور وہ بے یار و مددگار ہائے ہائے کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ اس کا خاوند تھا، جو اس کی مدد کرنے سے قاصر تھا۔ پاکستانی گاڑیوں میں میڈیکل ایڈ کا ملنا ناممکنات میں شامل ہے، یہاں ہسپتالوں میں میڈیکل ایڈ نہیں ملتی، یہ تو ریل گاڑی کا ڈبہ تھا، اور گاڑی پوری رفتار سے بھاگی چلی جارہی تھی۔ گاڑی کے دیوہیکل پہیّے لائن کے ساتھ رگڑ لگاتے شور مچاتے چلے جا رہے تھے۔ اس عورت اور اس کے خاوند کی ہاہاکار کچھ مسافروں کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

کچھ نیک دل مرد و زن اس کی مدد کو آئے۔ اسے پانی پلانے کی کوشش ہوئی، اس کے پاوں کے تلوے مسلے گئے، لیکن کوئی آفاقہ نہ ہوا۔ اسی اثنا میں گاڑی سٹیشن پر رکی، تو ایک مسافر ریلوے پولیس والے کو ڈھونڈ کر لے آیا، جس نے ان دونوں کو گاڑی سے اتارا اور باہر لا کر ہسپتال کا راستہ بتا کر واپس اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا۔

میں ان دنوں سول ہسپتال میں میڈیکل افسر تھا۔ یہ کوئی تیس سال پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں۔ چھوٹے شہروں میں سول ہسپتال ہوا کرتے تھے، جہاں ایک یا دو ڈاکٹر تعینات ہوتے۔ ان میں جو بڑا ڈاکٹر ہوتا، وہ سول سرجن کہلاتا تھا۔ میں ان دنوں اکیلا ہی سول سرجن تھا، اور مجھے بچوں کے ختنے کرنے سے لے کر دل کے دوروں اور حادثات تک کو خود ہی سنبھالنا پڑتا تھا۔ لڑائی جھگڑے کے میڈیکولیگل اور پوسٹ مارٹم کے ساتھ ساتھ ان کیسوں کی گواہی کے لئے عدالتوں کی حاضری کی اضافی ذمہ داری بھی مجبوری تھی۔

وہ عورت خوش قسمت تھی اتنی دیر انجائینا کا درد برداشت کرتی رہی تھی۔ اس کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا۔ لیکن اس کی ای سی جی ابھی تقریباً ٹھیک تھی۔ دل کے دورے کے لئے تو اسے صرف انجیسڈ کی ضروت تھی جو اس کی زبان کے نیچے رکھنے سے اسے کافی ریلیف مل گیا تھا۔ لیکن اس کا بلڈ پریشر نیچے لانے کے لئے اسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔

عام طور پر دل کا دورہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ پہلی صورت انجائینا کی ہوتی ہے۔ جس میں اٹیک کی صورت میں چھاتی میں درد محسوس ہوتا ہے جو چھاتی کے وسط میں مرکوز رہتا ہے اور بعض اوقات بازو تک جاتا ہے۔ یہ درد تھوڑی دیر رہتا ہے اور آرام کرنے سے یا انجیسڈ زبان کے نیچے رکھنے سے رفع ہو جاتا ہے۔ دل کے درد کی دوسری شکل شدید درد کی ہوتی ہے۔ جس میں چھاتی میں شدید درد ہوتا ہے۔ سانس گھُٹتی محسوس ہوتی ہے اور ماتھے پر ٹھنڈے پسینے آتے ہیں۔

یہ درد زبان کے نیچے گولی رکھنے سے بھی ٹھیک نہیں ہوتا، اور بروقت سپیشلسٹ طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں موت واقع ہو جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ بیماری عام طور پر دل کی خون کی شریانوں میں چربی جمع ہونے اور ان نالیوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے، سٹریس کی حالت میں یہ شریانیں دل کے عضلات کو مطلوبہ مقدار میں خون مہئیا نہیں کرپاتیں۔ اور اگر یہ نالی چربی کا لوتھڑا آنے سے بند ہو جائے تو دل کا دورہ شدید ہو جاتا ہے جسے، ایم آئی کہتے ہیں۔

وہ دونوں کراچی سے واپس اپنے گاؤں کامونکی جارہے تھے، جب اس کی بیوی کو دورہ پڑا تھا۔ کراچی میں ان کی اکلوتی بیٹی رہتی تھی جس سے وہ ملنے کراچی گئے تھے۔ وہ رات انہوں نے ہسپتال گزاری۔ صبح اس کی بیوی، جس کا نام صفیہ تھا کافی بہتر تھی۔ وہ ضد کر رہا تھا، کہ اس کی بیوی کو ڈسچارج کر دیا جائے۔ میرے خیال کے مطابق ابھی ایک دن اور اسے آرام کی ضرورت تھی۔ مجھے اس دن سیشن کورٹ پیش ہونا تھا۔ ایک مرڈر کیس میں شہادت تھی۔

وہاں دن کے دو بج گئے۔ پہلے جج صاحب نے باری آنے تک بٹھائے رکھا، پھر وکیل صاحب نے اتنے سوال و جواب کیے، ساری دوپہر غارت ہو گئی۔ شکر ہے میری شہادت لے لی گئی ورنہ یہاں تو ایک کیس کے لئے کئی کئی بار پیش ہونا پڑتا ہے۔ لوگ سالہا سال انصاف کے لئے ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ ایک گھنٹے کا واپسی کا سفر تھا، اور میں تھکا ہوا تھا۔ گھر آکر کھانا کھایا اور لیٹ گیا۔

ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی، کہ گھنٹی بجی۔ مجھے اٹھ کر باہر جانا پڑا۔ ہسپتال کا چپڑاسی تھا۔ اس نے بتایا، کہ ایک مریض بے ہوش ہو گیا ہے۔ میں ہسپتال پہنچا۔ کچھ لوگ اور ہسپتال کا عملہ ایک مریض کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ ایک ڈسپنسر اور سٹاف نرس اس مریض کوسٹریچر پر ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ ہچکیاں لے رہا تھا اور نیم بے ہوش تھا۔ میں نے ابھی اس کی نبض چیک کرنا چاہی تھی کہ اس کی ہچکی بند ہو گئی۔ اس کے منہ سے جھاگ سی نکلی اور اس کی انکھوں کی پتلیاں پھیلتی چلی گئیں۔

میں نے اس کی چھاتی کا مسّاج کیا اور مصنوعی تنفّس دینے کی کوشش کرتا رہا۔ بعض اوقات چھاتی کا زور دار مسّاج کرنے اور مصنوعی تنفس دینے سے مریض واپس آجاتا ہے۔ آج کل تو ہسپتالوں میں ڈی سی شاک اور وینٹیلیٹر کی سہولت موجود ہوتی ہے، لیکن ان دنوں یہ سہولت میسّر نہ تھی۔ میں نے سٹاف کو کاغذی کارروائی کرنے اور ڈیڈ باڈی لواحقین کے حوالے کرنے کو کہا۔ اس کے لواحقین میں واحد اس کی بیوی تھی جو ابھی بین کر کر کے رورہی تھی۔

مجھے حیرت ہوئی یہ عورت تو کل رات ایمرجنسی میں دل کے دورے کے ساتھ آئی تھی۔ اس کا خوند اس کے علاج اور جلد شفایابی کے لئے کتنا بے چین تھا۔ وہی صبح اپنی بیوی کو ہسپتال سے ڈسچارج کروا کر گھر جانا چاہتا تھا۔ اب وہی سٹریچر پر بے حس و حرکت پڑا تھا اور اس کی بیوی اس کے لئے بین کر کے رو رہی تھی۔ اسے دل کا شدید دورہ پڑا تھا اور وہ ہسپتال میں ہونے کے باوجود میڈیکل ایڈ نہ ملنے کی وجہ سے اللہ کو پیارا ہو گیا تھا۔ اس کو شدید قسم کا ایم آئی ہوا تھا۔

قدرت کا لکھا اٹل ہوتا ہے۔ کل وہ اپن بیوی کی شفایابی کی کوشش کر رہا تھا۔ آج اس کی بیوی اس کی ڈیڈ باڈی وصول کر رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).