وائس آف امریکا کو ناک آؤٹ کرنے والا عالم دین پی ٹی وی پر ٹھس کیوں ہوا؟


تقریبا اٹھارہ بیس سال پہلے کی بات ہے کہ ’وائس آف امریکہ‘ سنتے ہوئے پاکستان کے ایک عالم دین کا انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا۔ وہ عالم دین امریکہ کے دورے پہ گئے ہوئے تھے۔ ’وائس آف امریکہ‘ کے سٹوڈیو میں ان کا تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کا انٹرویو کیا گیا۔ ان دنوں دہشت گردی کا موضوع عالمی سطح پر اہم سے اہم ترین ہو رہا تھا۔ کمپئیر نے دو تین منٹ کی تمہید کے بعد ایک ساتھ دو تین سوالات سے انٹرویو شروع کیا۔ مجھے اشتیاق ہوا کہ یہ مولانا صاحب ان سخت ترین، تیکھے سوالات کا کیا جواب دیتے ہیں؟

مولانا صاحب نے علم و دانش اور دلائل سے جواب دینے شروع کیے۔ سوالات اتنے دلچسپ تھے کہ آخر تک پوری توجہ سے انٹرویو سنا۔ شروع میں میرا خیال تھا کہ عالمی سطح کے معیار کے علم اور دلائل کے جدید ہتھیاروں سے لیس وائس آف امریکہ کے کمپئیر پاکستان کے عالم دین کو ’ناک آؤٹ‘ کر دیں گے۔ انٹرویو چلتا رہا اور میں حیرت میں پڑتا گیا۔ انٹرویومکمل ہوا تو میں بے اختیار کہہ اٹھا کہ میں تو علما کو مانتا ہی نہیں تھا، آج معلوم ہوا کہ عالم کیا ہوتا ہے۔

ان پاکستانی عالم صاحب نے وائس آف امریکہ کو صرف شکست ہی نہیں دی بلکہ سخت ترین سوالات اور ان کے زبردست علمی دلائل سے مزیں جوابات سے واضح طور پر معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان کے اس عالم دین نے وائس آف امریکہ کو ’ناک آؤٹ‘ کر دیا ہے۔ میں ان عالم دین کی قابلیت سے بہت متاثر ہوا اور یہ تسلیم کیا کہ واقعی عالم دین ایک صاحب علم و دانش اور بصیرت رکھنے والی شخصیت ہوتی ہے۔ پاکستان کے اس عالم دین کا نام تھامحترم مفتی منیب الرحمان۔

اتفاق کی بات کہ تقریبا ڈیڑھ ماہ بعد پی ٹی وی پہ مفتی منیب صاحب کو ایک پروگرام میں بیٹھے دیکھا۔ میں انہیں پہچان کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا۔ ان دنوں نجی ٹی وی چینل شروع نہیں ہوئے تھے۔ پی ٹی وی کے لاہور سٹوڈیو کے اس کمپئیر نے بھی وائس آف امریکہ کے سوالات سے ملتے جلتے سوالات ان سے کیے۔ لیکن الفاظ، مفہوم اور اظہار کو نہایت نرم بنا کر۔ مجھے اشتیاق ہوا کہ مفتی منیب صاحب نے ’وائس آف امریکہ‘ پہ ان سوالات کے جواب میں اس طرح کہا تھا، یہاں پی ٹی وی کے پروگرام میں ان کا کیا جواب دیتے ہیں۔

سوالات اور جوابات ہوتے گئے اور میں حیرت میں ڈوبتا رہا۔ میں حیران و پریشان رہ گیا کہ مفتی منیب صاحب نے تو اس سوال کے جواب میں یہ بات کہی تھی، یہاں کیا کہہ رہے ہیں؟ پروگرام ختم ہوا تو بے اختیار خیال آیا کہ ایسے سطحی، جذباتی جواب دینے والے اس شخص کو پکڑ کر سٹیج سے اتار دینا چاہیے۔ میں سوچنے لگا کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ امریکہ میں تو مفتی صاحب نے علمی انداز میں ایسے مدلل جوابات دیے کہ علما کو نہ ماننے والا مجھ جیسا شخص بھی تسلیم کرنے پہ مجبور ہو گیا اور بے اختیار کہہ اٹھا کہ ”آج معلوم ہوا کہ عالم دین کیا ہوتا ہے“ اور وائس آف امریکہ کو چاروں شانے چت کر دیا، جبکہ یہاں پی ٹی وی کے پروگرام میں مفتی منیب صاحب ایسے اوسط درجے کی باتیں کر رہے ہیں کہ جنہیں جہالت سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ امریکہ میں جذباتی انداز میں اور علم و دلیل کے بغیر بات نہیں کی جا سکتی، امریکہ میں عقل و دانش کے عالمی معیار کے مطابق سچ اور صرف سچ کی بات کرنا پڑتی ہے، ورنہ آپ ’ناک آؤٹ‘ ہو جاتے ہیں۔ وہاں مفتی منیب صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کی بھرپور اور شاندار نمائندگی کی۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں، ہمارے معاشرے میں جاہلانہ سوچ و فکر اور طرز عمل کا غلبہ ہے اور اسی کا رواج ہے۔ یہاں مفتی منیب الرحمان صاحب اسلام سے متعلق ایک مکتبہ فکر کی نمائندگی کا مقام رکھتے ہیں، انہوں نے وہی باتیں اور اسی انداز میں کیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں، جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات و احساسات کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔

لوگ نہیں جانتے، عالم تو جانتا ہے، عالم کا یہی تو کام ہے کہ وہ نہ جاننے والوں کو حقیقت سے روشناس کرائے۔ اس دن میرے سامنے یہ ایک تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ہمارے علما بہت قابل اور علم اور تجربے کی بنیاد پر حقائق کو سمجھتے ہیں لیکن اپنے معاشروں میں لوگوں کو حقائق سے آگاہ نہیں کرتے، انہیں معمول کے ”لگے بندھے“ الفاظ پر مبنی جملے ہی سناتے ہیں۔ یہی بات سیاستدانوں کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بیرون ملک جا کر وہ بہت کچھ سیکھتے ہیں لیکن اپنے ملک میں وہ ان سیکھی گئی باتوں پر عمل کرنے پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔

اب اس کو کوئی منافقت سے تعبیر کرے، اسے مقام اور مادیت کے حصول کے حربے کے طور پر دیکھے یا اس کا تجزیہ کسی اور بنیاد پر کرے، یہ اس کے علم و یقین پر منحصر ہے۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ درج بالاتمام باتوں کے باوجود میں مفتی منیب الرحمان صاحب کا دلی طور احترام کرتا ہوں۔ کیونکہ میں نے ان کے ’وائس آف امریکہ‘ کے انٹرویو میں ان کی جوعلمیت، دلائل، برداشت، بردباری دیکھی، اس نے مجھے ان کی اعلی پائے کی علمی شخصیت کے اعتراف اور احترام پر مجبور کر دیا اور اس پہ میں اب تک قائم ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).