پرانا پاکستان ہو یا نیا پاکستان: ذلت و رسوائی سیاستدان کا مقدر کیوں؟


دوستو! جیسے برتن کے اندر جو بھی ہوتا ہے، وہی نکل کر باہر آتا ہے۔ اسی طرح کسی انسان کی تربیت میں بھی جو چیز شامل ہوتی ہے، وہ ضرور نکل کر باہر آتی ہے اور بالآخر دوسروں کو اس کی حقیقت کا پتا چل جاتا ہے۔ اب گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، جان بوجھ کر سوچی سمجھی سازش کے تحت بد تمیزی کا ایسا طوفان برپا کیا ہوا ہے، جس کی زد پر صرف اور صرف سیاست دان آ رہے ہیں۔ آج بد قسمتی سے پاکستان میں سیاست کو ایک گالی بنا دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے یہاں سیاستدانوں کو مجموعی طور پر نفرت کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔ اب کسی سیاستدان کی خوشی ہو یا غم اس کے مقدر میں گالم گلوچ اور ذلیل ہونا لکھا جا چکا ہے۔

آج یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اس بگڑے معاشرے کی اخلاقیات کو مزید گندا کرنے کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے، جو ملک میں تبدیلی کے دعوے دار تھے۔ اور تبدیلی کو بنیاد بنا کر نیا پاکستان بنانے والوں نے ہمیشہ گالیوں اور الزامات کی ایسی سیاست کی، جس نے کنٹینر سے لے کر اقتدار کے ایوان تک قومی اخلاق کو بگاڑ کر رکھ دیا۔

یہاں اک بات آپ سب کو باور کراتا چلوں کہ محبت ہو یا نفرت، دونوں انسان کو تربیت سے ملتی ہیں، آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک پھول سے ہمیشہ خوشبو ہی آتی ہے اور مردہ جانور یا غلاظت سے بد بو ہی آتی ہے، اسی طرح جس انسان کی تربیت میں ملک و ملت کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی جاتی ہے، اسے آپ ہاتھ لگائیں گے یا چھیڑ چھاڑ کریں گے تو اس کے اندر سے وطن سے محبت کی خوشبو ملے گی۔ جس سے آپ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ یہ شخص ملک و ملت کا محب ہے اور ماں دھرتی پہ جان نثار کرنے والا ہے، اسی طرح دوسرے سے بات کر کے دیکھ لیں، جس کی تربیت میں دھن دولت، غداری، ملک دشمنی، کرپشن، اور غلاظت بھری ہو گی، وہ اپنی ذات کو بالا تر جانتے ہوئے ملک و ملت کو اپنے قدموں کی خاک سمجھے گا اور معلوم ہو سکے گا کہ یہ بندہ ضمیر فروش ہے۔ یہ بندہ دھوکے باز ہے، جو ریاست اور اپنی ریاست میں رہنے والوں کے خلاف زہر رکھتا ہو۔ وہ غدار وطن ہو گا، جس کی تربیت میں وہ زہر شامل تھا۔

دوستو! آج یہ وضاحت کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ میرے گزشتہ کالموں پر کچھ دوستوں نے مجھے ایسے ایسے القابات سے نوازا کہ اگر میں میسینجر کے سکرین شاٹ آپ کے سامنے رکھ دوں، تو آپ بھی اپنے کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائیں۔

مجھے فخر ہے کہ الحمد للہ، میرا قلم رب کی عطا ہے۔ یہ بکنے والا نہیں، نا ہی یہ کسی پارٹی کا قلم ہے، یہ قلم نواز شریف کو اگر محب وطن لکھتا ہے تو اس کے پیچھے بیش بہا حقائق اور ناقابل تردید ثبوت اور واقعات ہیں، جس کی وجہ سے اس بات پر شک بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف محب وطن ہے۔

اس لیے آخر میری دست بستہ گزارش ہے کہ آج تمام دوست اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سوچیں کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک جلا وطنی، پھانسی، قتل، غداری، ایجنٹ، شرابی اور زانی جیسے بے تحاشا القابات صرف اور صرف سیاستدانوں ہی کو آج تک کیوں ملتے آئے ہیں؟

قائد اعظم، لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، ذوالفقار بھٹو، مرتضی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، عمران خان، فضل الرحمان، سراج الحق، اسفند خان ولی، محمود خان اچکزئی اور ان جیسے ان گنت سیاستدانوں کو مختلف القابات سے نوزا گیا؟ کیا دنیا کے کسی اور جمہوری ملک میں ایسے ہوا ہے؟ کیا کبھی اس ملک میں سیاستدان کے سوا کسی اور کا بھی ٹرائل ہوا؟ کیا کبھی اس ملک میں سیاستدان کے سوا کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو کرپشن یا کسی اور جرم میں اپنے منتقی انجام تک پہنچایا گیا؟ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ اس ملک کے کتنے بیورو کریٹ، اعلی افسر، اہم شخصیات اور ارباب حل و عقد و اعلی اداروں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات ملک کی خدمت کرنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کہاں مقیم ہیں؟

کیا کبھی آپ نے سوچا کہ اس ملک کے کتنے بیورو کریٹ، اعلی افسر، اہم شخصیات اور اعلی اداروں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کہاں دفن ہیں؟ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ اس ملک کے کتنے بیورو کریٹ، اعلی افسر، اہم شخصیات اور اعلی اداروں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی نسل کس ملک کے لئے خدمات انجام دے رہی ہیں؟ اور ان کے پاس اس وقت کس ملک کی نیشنلٹی ہے؟

کیا کبھی آپ نے سوچا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک اس ملک میں ذلیل خوار سیاستدان ہی ہو رہا ہے، لیکن پھر بھی اس سیاستدان کی نسل در نسل اس ملک کے لئے جمہوری کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے؟ پلیز سوچیے گا ضرور۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).