کیکڑا گیس نہیں دے رہا تو مکڑا ٹرائی کر لیں


کیکڑے سے گیس نہیں نکلی لیکن حکومت کی گیس نکل رہی ہے۔ جیسے غبارے کو ہوا بھر کے چھوڑا جائے تو ہوا میں ادھر ادھر پھدکتا ہے، ویسے ہی اس حکومت کو جب سے سیانوں نے ہوا بھر کر چھوڑا ہے، تب سے پھدک رہی ہے اور اس کی ہوا بڑی تیزی سے نکلتی جا رہی ہے۔ اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ حکومت کی ہوا زیادہ تیزی سے نکل رہی ہے، یا پھر عوام کا تیل۔

گیس کا نہ نکلنا کوی خوشی کی بات نہیں لیکن حضور یہ ملکی معیشت اور بیس کروڑ لوگوں کا معاملہ ہے۔ اس کو آپ خزانے کی تلاش والی قدیم کہانیوں کی طرح نہیں چلا سکتے کہ جن میں تمام کردار ساری زندگی محض خزانے کی تلاش میں گزار دیتے ہیں۔ کچھ کیجیے حضور، ورنہ آپ کا کیا ہے آپ تو چھوڑے ہوے غبارے کی طرح تھوڑی دیر ہوا میں پِیں پِیں کر کے نیچے آ گریں گے، لیکن ساتھ کیا کچھ گرے گا، اس کا اندازہ ہے آپ کو؟

آپ کی وہ عمرو عیار والی زنبیل کدھر گئی، جس میں سے آپ ہر مسئلے کا حل نکال کر دکھا دیتے تھے؟ آپ کو خدشہ تھا کہ گیس لیک نہ ہو گئی ہو، لیکن ہمیں لگتا ہے آپ کی زنبیل لیک ہو گئی ہے۔ یار لوگ تسلیاں دے رہے ہیں کہ یہ سرجری چل رہی ہے، اس لیے تکلیف تو ہو گی۔ لیکن آپ کی آنیاں جانیاں دیکھ کر ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں آپ آئی سی یو سے نکل کر یہ لفظ نہ بول دیں ”سوری“۔ آپ تو بے پروا ڈاکٹر کی طرح دستانے اتارتے سائڈ سے نکل جائیں گے لیکن وہاں کھڑے کروڑوں لواحقین کا کیا ہو گا؟

آپ کے ووٹرز آج بھی آپ کے ساتھ ہیں لیکن آپ کس کے ساتھ ہیں؟ آئی ایم ایف کے؟ عوام کو آپ کا خمار ہے مگر آپ کو کسی زلفی کا بخار ہے۔ پنجاب کے لوگ سوچ رہے ہیں کہ ووٹ بہترین کو دیے تھے یا ترین کو۔ چلیے اتنی تو ترقی ہوئی کہ آپ کے قبیلے کے کچھ لوگوں نے ایسا سوچنا تو شروع کیا۔ ورنہ اکثریت تو ان یار لوگوں کی ہے جو ڈالر کی اس اڑان کو معرفت کی بلندیوں سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ہمیں تسلی دے رہے ہیں کہ اس ہوا سے نہ گھبراؤ یہ تو تم جیسے شاہینوں کو اونچا اڑانے کے لیے چل رہی ہے۔ اب شاہین صاحب اونچائی پر پہنچ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ جب اس بد بخت ہوا نے رکنا ہے، تو شاہین صاحب نے بہت زور سے سیدھا نیچے آ گرنا ہے۔ یار لوگ تب بھی یہی کہیں گے، ”گھبرانا نہیں ہے“۔

اب تو سب سے زیادہ گھبراہٹ ہی اس بات سے ہوتی ہے کہ ”گھبرانا نہیں ہے“۔ کیونکہ آپ تو مسند اقتدار پر پہنچ کر بھی اپنی کنٹینر والی روش پر قائم ہیں۔ تھوک سے پکوڑے تل رہے ہیں اور یار لوگ اس کو زعفران کا پکوان بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی وزیر یہ بیان کرتا حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے پیچھے پیچھے ہٹ جاؤ نوکریوں کا جلوس آ رہا ہے۔ کہیں تم نیچے نہ آ جاؤ۔ کہیں کوئی وسیم اکرم صاحب نئی گیند کو بلاوجہ تھوک مل مل کر چمکاے جا رہے ہیں، رگڑ رگڑ کر گھسائے جا رہے ہیں، پر پتہ نہیں باولنگ کب سٹارٹ کریں گے۔ یار لوگ اس پر بھی واہ وا کر کے بتا رہے ہیں کہ دیکھنا ابھی وسیم اکرم رگڑ رگڑ کر گیند کو آگ لگا دے گا اور بلے باز کو وکٹوں سمیت جلا کر راکھ کر دے گا۔

کہیں کوئی وزیر موصوف اطلاعات کی دھوتی اتار کر سائنس کی نیکر پہن رہا ہے اور چاند کا کیلنڈر بنا کر دے رہا ہے۔ جبکہ ضرورت اس کیلنڈر کی ہے جو وہ والے چاند دکھائے جو حکومت چڑھا رہی ہے۔ مگر کیا فائدہ آپ تو ہر نیا چاند چڑھا کر اسے شہابِ ثاقب کہہ دیتے ہیں۔ باہر پڑی دولت لاتے لاتے آپ باہر سے وہ مشیر لے آئے، جن کی وجہ سے دولت باہر پڑی ہے۔ ملک کا قرض آئی ایم ایف کے منہ پر مارتے مارتے آپ نے آئی ایم ایف ملک کے منہ پر دے مارا۔ مودی، نواز شریف کا یار ہے۔ لیکن اس کے جیتنے کی دعائیں آپ مانگ رہے ہیں۔ کلبھوشن آج تک اندر ہے لیکن ابھی نندن کو آپ دو دن نہ رکھ سکے، شکر ہے آپ خود ڈرائیو کر کے اسے چھوڑنے نہیں چلے گئے۔

قصہ مختصر یہ کہ حضور آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یار لوگ اس کا یقین بھی کر لیتے ہیں۔ پھر دوسروں کو زبردستی مجبور کرتے ہیں کہ وہ بھی یقین کریں۔ ایک طرف آپ لمبی لمبی چھوڑ رہے ہیں اور دوسری طرف آپ نے یار لوگوں کو بھی کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ اب بندہ جائے تو جائے کہاں۔ ایک کے بعد ایک سبز باغ آپ دکھا رہے ہیں۔ کبھی آپ مرغیاں اور انڈے دے رہے ہیں اور کبھی روحانیات کی دنیا کے درشن دکھا رہے ہیں۔

آپ کے کیکڑے نے گیس نہیں دی تو کوئی بات نہیں آپ اب ہمیں کسی مکڑے سے گیس نکلنے کی نوید سنا کر بیٹھ جائیں گے۔ آپ کے زکوٹے جِن بہت تگڑے ہیں۔ عینک والا جن ڈراما تو بچوں کے لیے تھا، آپ نے بڑوں کے لیے اُس کا ری میک بنا کر چلا دیا ہے۔ دیکھتے ہیں آخری زے بینات کون کب اور کیسے نکالتا ہے۔ البتہ عوام کا تراہ اس ڈرامے کی پہلی قسط میں ہی نکل گیا ہے۔ زیادہ ہارر سین آے تو پتہ نہیں اور کیا کیا نکل جائے۔ آپ نے تو بس کہہ دینا ہے، ”گھبرانا نہیں ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).