ہمارے یہاں ریپ کو گناہ نہیں سمجھا جاتا


اسما نے ناچنے سے انکار کیا، مار کھائی، بال منڈوائے۔ کس کے ہاتھوں؟ اپنے شوہر اپنے محافظ کے ہاتھوں۔ کیس سامنے آیا تو عورت کو ماضی کی کچھ وڈیوز کی بنا پر ’’ناچنی‘‘ یا ’نچنیا‘ قرار دیا گیا، تھوڑا مزید شور اٹھا تو پولیس نے نہ چاہتے ہوئے سہی، ایف آئی آر درج کی۔ وہ بھی قریباً آٹھ دن کی خواری اور بے عزتی کے بعد۔ اس کے بعد کا کوئی اتا پتا نہیں۔ معمولی واقعہ ہے عورت ناچنی تھی، آگے بڑھتے ہیں۔

کراچی کی عروج پندرہ سال کی ہے۔ ایک درندہ گھر میں گھستا ہے اور زیادتی کا نشانہ بنا کر چلتا بنتا ہے، رپٹ معمول کے مطابق درج نہیں ہوتی اور جب ماں تڑپتی بلبلاتی دھاڑیں مارتی واویلا کرتی باہر نکلتی ہے تو اچانک سے ایک وڈیو وائرل ہوتی ہے۔ لیں جی! عورت دو نمبر نکلی۔ بد کردار اور فاحشہ۔ اس کی بیٹی کے ساتھ تو زیادتی لازم تھی۔ ماں دعوت جو دیتی تھی۔ ایسے کرتوتوں کے کچھ اس طرح کے ہی انجام ہوتے ہیں، ماں اگر ایسی ہے تو سزا بیٹی کو ملنی چاہیے ناں۔ بھئی اس کا ریپ لازمی تھا، تا کہ پتا چلے کہ انسانیت مر گئی۔ جانے دیجیے وڈیو نکل آئی، وضاحت مل گئی۔ پتا نہیں یہ لوگ اتنا رولا کیوں مچاتے ہیں۔ با غیرت معاشرے میں ایسا ہی تو رواج ہے، چھوٹا واقعہ ہے۔

ملکوال کے جعلی پیر کی ملازمہ بھی تو تھی، جسے مسلسل زیادتی کے بعد بولنے کی پاداش میں تیزاب سے نہلا دیا گیا، چھوڑیں جانے دیں، ضرور اندرخانے کوئی چکر ہو گا اور نہ بھی ہو تو مالکوں کو نہ کون کہتا ہے۔ کس بات کی رپورٹ اور انکوائری نظام ہی ایسا ہے۔ جناب عورت ٹھیک نہیں ہو گی، یقیناً۔ ورنہ ایسے منہ کھول کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کون بتاتا ہے۔

آگے چلیے، اب آتی ہے فرشتے۔ دس سالہ فرشتے، جو چار دن گھر سے لا پتا ہونے کے بعد ویرانے سے ملتی ہے۔ ایسی حالت میں کہ درندوں ٓنے نوچ کھایا ہے، جسم زخم زخم ہے اور آنکھیں بھی نہیں کھل رہی۔ ارے ہماری فرشتے کو مار دیا گیا۔ گدھ نوچنے کے بعد پنجر پھینکتا ہے تو اس کو بھی پھینک دیا گیا ویرانے میں، پولیس کیوں رپٹ درج کرتی بھلا؟ ایک غریب مزدور جیبیں نہیں بھر سکا، وہ منت خوشامد اور آہ وزاری کر سکتا تھا، سو کی۔ لیکن جناب ایسے تو سیکڑوں کیسز آتے ہیں۔ سب درج ہوں؟ انکوائریز ہوں تو کام کرنا پڑے گا؟ منہ پر حرام کا چسکا ہو تو حلال ہضم نہیں ہو پاتا، سو نہیں درج کی اور نا ہی کریں گے۔ پوسٹ مارٹم غریب کے بچوں کا کون کراتا ہے؟ جانے دیجیے دو دن کا رولا ہے، پھر سب امن ہو گا۔ موت آئی تھی، مر گئی۔

اوپر بیان کیے گئے کیسز جو کہ کسی بھی باضمیر انسا ن کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہونے چاہئیں، ہمارے لئے اس معاشرے کے لئے ناکافی ہیں۔ کیوں کہ ہماری اجتماعی غیرت مر چکی ہے۔ ہمارے یہاں ریپ کو گناہ نہیں بلکہ شاید کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی وضاحت اور جواز دیے جاتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ماں جو کرتی ہے اس کا عمل بیٹی کے حصے میں آتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کے ایسے مواقع پر چپ رہا جائے۔ عزت اسی میں ہے۔ ہمیں ان گناہ گاروں کو سامنے لانے کے ہزار ہا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور پھر بھی شنوائی نہیں ہوتی۔ ہمیں ہمارے کردار کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ہمیں سو پیاز کھلا کر سو ڈنڈے بھی مارے جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ غلطی ہماری ہے۔ ہم بیٹیاں پیدا کرتے ہیں۔

آخر میں کوئی بھی وضاحت، کسی بھی معاملے میں دینے سے پہلے، ایک بار فرشتے کے والد کی تصویر دیکھ لیجیے۔ ان کی فرشتہ انسانوں کی غلاظت کا شکار ہو چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).