کیا عورت ہونا جرم ہے؟


افسانہ

پہلا منظر :

برآمدے میں ضعیف ماں کپڑوں کی سلائی کرتی دکھائی دیتی ہے ساتھ ہی چھوٹی بیٹی لاریب کچن میں رات کے برتن دھو رہی ہے بڑی بہن اور باپ جن کے کاندھوں پر گھر کی ذمہ داری ہے وہ دونوں رزق معاش کی طلب میں گھر سے باہر ہیں اتنے میں دروازے پر دستک ہوتی ہے

مقدس :خالہ چل رہی ہوں ہمارے ساتھ آگے دو گلی چھوڑ کر راشن مل رہا ہے

خالہ :نہیں بیٹا میں کہا چلو تیرے ساتھ، سانس سنبھلتا نہیں، قدم اٹھتے نہیں، ساتھ ہی شوگر جیسے مرض نے گہرا اور تنگ کردیا ہے اب مجھ میں ہمت نہیں کہ باہر کے سفر کی مسافت برداشت کرو۔

مقدس :اچھا خالہ تو کیا ہوا کائنات کو بھیج دو ہمارے ساتھ۔ وہ 3 گلی چھوڑ کر حاجی صاحب کے گھر ہرسال راشن کے ٹوکن آتے ہیں تم تو کرائے دار ہو ابھی آئی ہوں تمھیں نہیں پتہ تو سوچا تم کو بتا دوں، راشن بھی اے ون ہوتا ہے ضرورت خورد و نوش کی اشیاء موجود ہوتی ہیں کائنات کو بھیج دو ہمارے ساتھ۔

خالہ :نہیں بیٹا اس کا باپ آجائے گا تو میرا جینا حرام کر دے گا تمہیں تو معلوم ہے کس قدر جم غفیر ہوگا عورتوں کا وہاں پر اس کے علاوہ عورتیں ایک دوسرے کو دھکا دیتی دکھائی دیتی ہیں لڑائیاں الگ ہوتی ہیں اور راشن والوں کی جانب سے عورتوں کی تذلیل الگ۔ پچھلے سال بھی گلشن میں موتی محل کے قریب عورتوں کی بھگدڑ کی وجہ سے چار خواتین لقمہ اجل بن گئی تھی تم جاؤ بیٹا شکریہ بتانے کا

مقدس :اچھا خالہ جیسی تمہاری مرضی۔

دوسرا منظر :

چاند کی روشنی محل میں اس طرح پڑھ رہی تھی جیسے چاند ستارے زمین پر آگئے ہو اور صحن میں رکھے رات کا راجہ اور چمبیلی کے پودوں کی مہک سے سارا آنگن مہک رہا تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی سامنے خالہ رخسانہ کے شوہر یعنی کائنات اور لاریب کے بابا کھڑے تھے

رخسانہ خالہ :کیا ہوا آج آپ اکیلے آرہے ہو لاریب کہاں ہے؟

خاور انکل :ہاں اس کی کمپنی میں اوور ٹائم ہے آج وہ دیر سے گھر آئیں گی

رخسانہ خالہ :مگر آپ نے اسے اکیلا چھوڑا پتہ ہے نا! ابھی 1 مہینہ پہلے ہی اس کے سپروائزر نے اس کے ساتھ ناروا سلوک کیا تھا آپ خود ہی کہتے ہیں کہ اس کا سپروائزر ناصر اچھا بندہ نہیں ہے۔

خاور انکل :ہاں کہا تھا مگر تمہیں تو پتہ ہے میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور عید سر پر ہے بیٹی کے سسرال عیدی بھی تو بھیجنی ہیں اس کے اخراجات کیسے ہوں گے پورے، اوپر سے لاریب کے سسرال والے جہیز کی ڈیمانڈ بھی کررہے ہیں لاریب بچاری وہیں پیسے جوڑنے میں لگی ہوئی ہے کاش ہمارا بیٹا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا

رخسانہ خالہ :بات تو آپ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں لاریب کے ابا، رب العزت تمام بچوں کی عزت پردہ رکھے۔

تیسرا منظر :

یہ کہتے ہوئے خاور صاحب کمرے میں چلے گئے اور آواز لگائی کہ کائنات بیٹا پانی لے کر آؤ رات کے دس بج چکے تھے ماں کی فکر میں اضافہ مزید بڑھتا جا رہا تھا کائنات اب سو چکی تھی کیونکہ صبح اس کے کالج کے پیپر تھے وہ سیکنڈ ایر کی طالبہ تھی اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی خالہ نے بوجھل قدموں سے آگے جسم کو گھسیٹتے ہوئے دروازے تک کا سفر طے کیا اور دروازہ کھولا سامنے لاریب تھی

لاریب :السلام علیکم امی

رخسانہ خالہ :وعلیکم السلام بیٹا کیا ہوا آج لیٹ ہوگئی

لاریب :جی امی آج کمپنی میں شپمنٹ جانے والی تھی تو سر نے تمام لڑکیوں کو اوور ٹائم کے لیے روک لیا

رخسانہ خالہ: اچھا بیٹا منہ ہاتھ دھو لو میں کھانا دے دیتی ہوں

لاریب :نہیں امی آپ آرام کریں میں خود لے لوں گی

چوتھا منظر :

صبح کائنات کالج جانے کے لئے تیاری کر رہی ہے رخسانہ خالہ ناشتہ بنا رہی ہیں

کائنات: امی میں جا رہی ہوں

رخسانہ خالہ :اللہ کی امان بیٹا

کالج میں داخل ہوتے ہی کیمسٹری کے سر ندیم کائنات سے دروازے پر ہی ٹکراگئے وہ عادت کے اچھے انسان نہیں تھے اس لیے کائنات انہیں دیکھتے ہی تیز تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگی

سر ندیم:اوہو کائنات آج تو بہت سیکسی لگ رہی ہو

کائنات :یہ کیا کہہ رہے ہیں سر آپ میرے باپ کی جگہ ہیں

سر ندیم : تو کیا ہوا باپ تو نہیں ہو! اچھا سنو آج میرے ساتھ ڈیٹ پر چلو گی تم جتنے نمبر مانگو گی میں دوں گا

کائنات :سر مجھے نہیں ہے ضرورت یہ کہتی ہوئی وہ گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے تیز تیز قدم اٹھائے آگے بڑھ گئی

پانچواں منظر :

کائنات گھر آ کر خوب رونے لگی امی نے جب رونے کی وجہ پوچھی تو کہا امی ہمارے استاد ہمارے روحانی والدین ہوتے ہیں مگر وہ پھر بھی ہم لڑکیوں کو اپنی بہن، بیٹی کیوں نہیں سمجھتے آج کیمسٹری کے سر ندیم نے مجھے نازیبا الفاظ کہے

رخسانہ خالہ: بیٹا دفع کرو ہم غریبوں کا اللہ ہے اللہ لے گا ان جیسے اساتذہ سے حساب، دنیا مکافات عمل ہے

چھٹا منظر :

لاریب فیکٹری میں کام کرنے میں مشغول تھی اتنے میں سپروائزر ناصر آیا اور لاریب سے مخاطب ہوکر کہا

ناصر: تمہاری پروڈکشن دن بدن کم ہو رہی ہے اگر یہی حال رہا تو تمہیں کمپنی سے فارغ کر دوں گا

لاریب :سر میری پروڈکشن میں پچھلے ہفتے کے مقابلے میں اس ہفتے میں اضافہ ہوا ہے

ناصر :زبان درازی مت کرو، کام کرو! ورنہ عزت اتارنے میں مجھے ٹائم نہیں لگتا تم جیسی لڑکیوں کی۔

لاریب :یہ سن کر لاریب غصے سے آگ بگولا ہو گئی اور ناصر کے منہ پر طمانچہ مار دیا

چھٹا منظر :

سارے ڈیپارٹمنٹ میں سناٹا چھا گیا اس وقت تو ناصر وہاں سے چلا گیا مگر اس کے سینے میں بے عزتی کے بدلے کی آگ بڑھتی جا رہی تھی جیسے ہی شام کو چھٹی کا وقت ہوا لاریب کمپنی سے نکل کر گھر روانہ ہونے کے لئے بس میں بیٹھنے لگی تو ناصر نے اسے روک کر چھریوں کے وار کرکے شدید زخمی کردیا اور وہ وہی موقع پر جاں بحق ہو گئی وہ جمعہ کا دن اور بارواں روزہ تھا جب لاریب اس دنیا فانی سے کوچ کر گئی روزے کی حالت میں اس لڑکی کو اس درندگی سے مارا گیا کہ دیکھنے والوں کو بھی سمجھ نہ آیا کہ اچانک کیا کیا جائے؟

اس کی موت کی خبر سن کر اس کی ماں بے ہوش ہوگئیں اور آج تک زندہ لاش بنی ہوئی ہے چھوٹی بہن کائنات کا رشتہ محض اس لیے ٹوٹ گیا کہ تم ایک بدچلن لڑکی کی بہن ہوجو فیکٹری کے سپروائزر کے ہاتھوں اپنے بد چلن کردار کی وجہ سے مار دی گئی۔ اب ضعیف اور مصیبتوں میں گھرے خاور انکل اپنی جواں سال بیٹی کی موت کا صدمہ لیے، اس پر لگنے والے بد چلنی کے داغ کے ساتھ زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہیں اور لاریب کی چھوٹی بہن کائنات کی عمر دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور ماں زندہ لاش بنی ایک کمرے میں پڑی ہے۔

پیغام :

عورت ہونا اگر جرم ہی ہے حمیدہ

تو آدم کی پسلیوں سے حوا کیوں ہوئی پیدا؟

سوال میرا فیصلہ اور جواب آپ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).