نیب چئیرمین کب جائیں گے؟


میرے ایک استاد ہیں اظہر صاحب جو ہمیں انگریزی ادب ( ناول ) پڑھایا کرتے تھے۔ بہت ہی خوش مزاج اور بذلہ سنج آدمی ہیں۔ ایک دن بلی کی جنسی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے کہ انہوں نے بلے اور بلی کو اتفاق سے دس گیارہ بار جنسی سرگرمی میں ملوث دیکھا ہے اس لئے ان کے کہے پر یقین کیا جائے۔ میں نے ترنت جواب دیا، ”حضور دس گیارہ بار اتفاق سے نہیں گھات لگا کر دیکھا ہو گا“۔

آپ میری بیمار ذہنیت سے اگر جذبز نہ ہوں تو بتاؤں کہ میں اتفاق سے دس گیارہ بار چیئرمین نیب کی اس خاتون سے گفتگو سن چکا ہوں جو ان کے لئے رسوائی کا باعث بنیں۔ میری دلچسپی ”ابرو و مہتاب“ سے زیادہ چیئرمین صاحب کی ”نازیبا“ گفتگو کی طرف تھی جسے نازیبا کہنا اس لئے غلط ہے کہ خاتون اسے نازیبا نہیں سمجھ رہی تھیں کیونکہ باہمی رضامندی سے ایسی گفتگو ایک معمول تھا۔ وڈیو بنانے کے پس پردہ محرک شاید چیئرمین صاحب کا دوسرے گلدستوں کی طرف نظر التفات تھا بہرحال خاتون کی بنائی ہوئی وڈیو نے کچھ دن پہلے کی گئی تقریر کا مزا ہی خراب کر دیا۔ ابھی تو چیئرمین صاحب نے پر پرزے نکالنے تھے اور قوم کی مسیحائی کا بیڑا اٹھانا تھا کہ پٹھو گول گرم ہو گیا ( اسے پنجاب میں کھیلے جانے والے ایک کھیل کا حوالہ ہی سمجھا جائے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ) ۔

میں نے پروگرام پچاس منٹ کے لئے کیمرہ چھپا کر جعلی حکیموں، واپڈا کے افسروں، جھوٹے پیروں فقیروں اور ڈاکٹروں کی بہت سی وڈیوز بنائی ہیں اور میرا خیال ہے کہ خاتون نے بڑی دیدہ دلیری سی وڈیو بنائی ہے کیونکہ ایسا کام کمرے میں دو سے زیادہ لوگوں کی موجودگی میں کرنا آسان جبکہ دو لوگوں کی موجودگی میں ( اگر وہ ہوش و حواس میں ہوں تو ) کرنا بہت مشکل ہے۔ اچھا ہوتا اگر بیگ میں ایک گول سا سوراخ کر کے ڈیزائن بنا لیا جاتا اور کیمرے کے لینز کو ڈیزائن کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ ایک اور ضروری چیز تھی چھوٹا سا آڈیو ریکارڑر جو پین کے سائز کا ہوتا ہے۔ خاتون نے وہ ساتھ نہ لے جا کر غلطی کی تھی۔ وہ تو کم بخت ایسی ظالم چیز ہے کہ چھ گھنٹے تک شاندار ریکارڈنگ کرتا ہے۔

خیر جو ہاتھ آگیا یہ بھی بہت ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے فوراً کہہ دیا کہ انہیں چیئرمین کے ذاتی معاملات سے چنداں دلچسپی نہیں یعنی ان کے ذاتی معاملات سے بھی دلچسپی نہ رکھی جائے۔ بڑے بڑے جغادریے اور اخلاق کے پیغمبر اب دبک جائیں گے اور اسے چیئر مین اور ان کی گرم فرینڈ ( یعنی انہیں رسوا کرنے پر تلی ہوئی فرینڈ ) کا ذاتی معاملہ قرار دے دیں گے اور دینا بھی چاہیے کیونکہ اگر چیئرمین نیب نے اپنے عہدے کا استعمال کر کے دباؤ نہیں ڈالا تو یہ جنسی ہراسانی نہیں ہے اور نہ جنسی طور پر کسی کو زبردستی مائل کرنے کی کوشش لیکن پھر بھی یہ اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور ہماری اقدار پامال ہو رہی ہیں تو چیئر مین صاحب کی (من کی پیاس بجھانے کے لئے ) پکی چھٹی کروا دینی چاہیے۔

یہ خیال ہو گا سپریم جوڈیشل کونسل کا جس کے پاس یہ کیس آخر کار جانا ہے جو چیئرمین صاحب کی پکی چھٹی کروانے میں تین مہینے لے گا۔ ہو سکتا ہے جب ٹرائل شروع ہو تو چیئرمین صاحب کو غیر فعال ہونے کا کہہ دیا جائے اور یوں ڈپٹی چیئرمین ان کی جگہ فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کر لیں کیونکہ ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ چھ ماہ سے خالی پڑا ہوا تھا جو ماضی قریب میں ہی اینٹی کرپشن کے حسین اصغر صاحب کو تھمایا گیا۔ یہ پوسٹنگ چیئرمین اور صدر کی مرضی سے ہوتی ہے۔ صدر صاحب نے ڈپٹی چیئرمین کی تعیناتی پر دستخط تو ثبت کر دیے ہوں گے لیکن اب انہیں یاد نہیں ہو گا کہ یہ دستخط کیے کب تھے۔ روٹین کی کارروائی ہے جناب۔

ڈپٹی چیئرمین کا آگے آنا اس لئے ضروری ہے کہ نواز خاندان کے خلاف کیسز اور بلاوے میں کمی نہ آئے اور نئے چیئرمین کی تعیناتی پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نیا ملاکھڑا شروع نہ ہو جائے۔ دراصل چیئرمین آئے بھی نواز شریف، عمران خان اور زرداری صاحب کی مرضی سے تھے اور اب جا بھی ان کی مرضی سے ہی رہے ہیں گو کہ تینوں کی شکایتیں مختلف ہیں۔ خاں صاحب سمجھتے ہیں کہ چیئر مین صاحب نا اہل ہیں کیونکہ نواز خاندان کے خلاف کوئی مضبوط شواہد پیش نہیں کرسکے جبکہ نواز اور زرداری سمجھتے ہیں کہ چیئر مین جانبدار ہیں اور کسی کے ایما پر سیاسی طور پر انہیں دبانے کے لئے آلہ کار ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ چیئر مین صاحب خود کو انصاف کا دیوتا سمجھتے ہیں۔ انصاف کے دیوتا کی جمالیاتی حس کے دبے دبے اظہار کو سماجی اخلاق کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا اور وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ پکڑے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).