پاکستان کے سیاسی ڈرامے میں کامیڈی رومانس


عمران خان کی اقتصادی ٹیم میں ٹیکس اور محاصل کے ذریعے حکومت کے لئے وسائل جمع کرنے کا کام نجی شعبہ کے ایک ماہر کو ایف بی آر کا اعزازی چئیر مین بنا کر سونپا گیاہے ۔ وہ ٹیکس دہندگان اور بڑے کاروباری اداروں کو یقین دلا رہا ہے کہ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ حکومت مزید وسائل کے لئے ان پر دباؤ نہیں ڈالے گی۔ شبر زیدی کا کہنا ہے کہ یہ ناانصافی ہے کہ جو کاروباری ادارے پہلے سے ٹیکس دے رہے ہوں ، انہی پر مزید مالی بوجھ ڈالا جائے یا کسی کاروبار کے نقصان میں جانے کی صورت میں بھی انہیں ٹیکس دینے پر مجبور کیا جائے۔ یہ بات سو فیصد درست ہونے کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟

اس کا جواب شبر زیدی بھی وہی دیں گے جو گزشتہ پانچ دہائیوں سے سنتے سنتے سب کے کان پک گئے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ اب نئے بجٹ میں آئی ایم ایف سے معاہدہ کے نتیجہ میں 775 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجویز سامنے آنے والی ہے۔ تاکہ حکومت کی کل آمدنی 5500 ارب روپے تک پہنچ سکے۔ شبر زیدی کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ جو باتیں تقریروں اور ٹی وی مباحث میں کرتے رہے ہیں ، وہ عملی طور پر انہیں نافذ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یا وہ بھی کچھ عرصہ بعد یہی کہتے دکھائی دیں گے کہ تھیوری اور پریکٹس میں تھوڑا فرق تو باقی رہتا ہے۔

بجٹ کا سب کو انتظار ہے۔ حکومت کو اس لئے تاکہ یہ بلا کسی طرح سر سے ٹلے اور ناراض عوام کو بہلانے کے لئے نعروں کے نئے کھلونے تلاش کرنے کا کام شروع کیا جاسکے ۔ اور حکومت مخالف یعنی سیاسی اپوزیشن کو اس لئے بجٹ کا انتظار ہے کہ اس میں تجویز کئے گئے اقدامات سے جب عوام کی چیخیں نکلیں گی تو انہی میں سے ماضی کے ہیرو سے زیرو ہونے والوں کے لئے راحت کا کوئی راستہ بھی نکلے گا۔ دیکھا جائے تو یہ ملک کی سیاسی کہانی کا سب سے بڑا المیہ سسپنس ہوگا۔ حکومت اور اپوزشین کی سٹی گم ہوگی لیکن دونوں کی زبانیں تیر کی طرح ایک دوسرے پر وار کررہی ہوں گی۔

اس ڈرامائی لمحہ کی ابتدائی تیاری کے لئے بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس سے سیاسی منظر نامہ میں کچھ ہلچل دیکھی گئی۔ حکومت نے اسے ’ابو بچاؤ‘ مہم کا نام دیا ۔ تاہم اپوزیشن لیڈروں نے مولانا فضل الرحمان کو مکمل منظر نامہ لکھنے کا فریضہ سونپا ہے تاکہ جوں ہی لوہا گرم ہو اس پر چوٹ لگانے کے لئے اپوزیشن ایک جان ہو خواہ اس کے قالب ایک، دو تین یا اس سے بھی زیادہ ہوں۔

اس ڈرامے کے ایک منظر میں کوٹ لکھپت کےزنداں خانہ میں محبوس نواز شریف سے یوم ملاقات کے دوران رنگ بھرے گئے ہیں۔ جس میں مسلم لیگ (ن) کے رہبر نے بتایا ہے کہ اب پارٹی کے دو نہیں ایک ہی بیانیہ ہوگا۔ اور یہ کہ اب ووٹ کو عزت دو پلس ہوگا۔ یادش بخیر جب نواز شریف نے وزارت عظمی ٰ سے نکالے جانے کے بعد ’ووٹ کو عزت دو‘ اور ’مجھے کیوں نکالا‘ کا راگ الاپا تھا تو اس کے نتیجہ میں مرکز کے علاوہ پنجاب بھی ہاتھ سے گیا تھا۔ نجانے اب ووٹ کو عزت دو پلس، میں کون سے المیہ مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ یا یہ پلس کسی نئے مائینس کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے لئے میدان میں اتارا جائے گا۔ کیوں کہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب میاں صاحب کو بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی احتجاج کرنے کے موڈ میں ہے تو انہوں نے زیر لب تبسم کیا۔ یہ تبسم ووٹ کو عزت دو پلس کا غازہ بھی قرار پاسکتا ہے۔

لوگوں کی تفنن طبع اور دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے سیاسی کھیل کے اس بڑے منظرنامہ کے ساتھ ہی ایک علیحدہ رومانوی منظر بھی چلایا جارہا ہے۔ کوئی چاہے تو اسے کامیڈی رومانس بھی سمجھ سکتا ہے۔ اس کا لیڈ رول، اپنے منہ میاں مٹھو کے مصداق قوم کے نئے خود ساختہ محسن اور احتساب بیورو کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو دیا گیا ہے۔ پہلے انہوں نے ایک خاص سینئر صحافی اور اینکر سے ایک خاص انٹرویو میں کچھ خاص باتیں کیں اور پھر پریس ریلیز میں ان باتوں کی تردید اور اس تردید کی مزید تفصیل بتانے کے لئے خصوصی پریس کانفرنس کی۔

 ابھی آصف زرداری نیب چئیر مین کی اس ’غیر قانونی حرکت‘ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک نامعلوم سے ٹی وی چینل نے ایک ویڈیو کے ذریعے جاوید اقبال کی حسن پرستی کا پول کھول دیا۔ اب سیاست دان تو یہ کہہ کر جان چھڑا رہے ہیں کہ یہ چئیر مین نیب کا نجی معاملہ ہے لیکن نیب پریس ریلیز جاری کرکے بتا رہا ہے کہ چئیرمین کی نجی زندگی اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں ہے۔ اس لئے اس کی تردید کرنا اور سچ کی تہ تک پہنچنا نیب ہی کا کام ہے۔ بلکہ یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ یہ سب کیا دھرا بلیک میلرز کے ایک گروپ کا ہے ۔ نیب نے اس گروہ کا سراغ لگا کر دو افراد کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔

جیسا کہ جاسوسی ناولوں میں ہوتا ہے ، اسی طرح پاکستانی سیاسی کہانی میں بھی دلیل اور حجت کام نہیں کرتی۔ ہیرو اور ولن کی چھٹی حس ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی سے کہانی میں دلچسپی ، تجسس اور سسپنس پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے نیب کی پریس ریلیز پر یہ سوال کرنا بے مقصد ہو گا کہ لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگاتے لگاتے نیب کو بلیک میلرز کے گروہوں کا پتہ لگانے کا مینڈیٹ کب اور کیسے حاصل ہوگیا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali