الو دادا کے بھائی بند اور سیاسی بت پرستی


\"Naheedisrar\"تو دوستو ایک تھا جنگل اور جنگل میں تھے کچھ جانور ( چونکہ کہانی پرانے وقتوں کی ہے اس لئے اس زمانے میں جانور جنگلوں میں ہی رہتے تھے شہروں تک نہیں پنہچے تھے)۔ اسی جنگل میں ایک پرانا برگد کا پیڑ بھی تھا جس پر ایک الو رہتا تھا۔ الو تنہائی پسند تھا، سب سے الگ تھلگ رہتا عوام میں کم ہی گھلتا ملتا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ جنگل کے باسیوں نے اسے سب سے دانا و سیانا سمجھ لیا کہ خدا کی نیک مخلوق ہے دن بھر دنیاوی خرافات سے دور رہتا ہے اور رات کے اندھیر پہروں میں حق ہو، حق ہو کرتا اپنے خالق کو یاد کرتا ہے۔

ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان جانوروں کے بیچ کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور لاکھ کوشش کے باوجود مصالحت کا راستہ نہ نکلا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد طے یہ پایا کہ الو کی خدمات حاصل کی جائیں، ہم سب میں سیانا وہی ہے، وہی ہمیں درست راہ دکھائے گا۔ چناچہ دن چڑھتے ہی پورا جنگل برگد کے پیڑ کے نیچے اکھٹا ہوگیا اور لگا الو کو آواز دینے۔ \”دادا باہر آؤ اور ہماری مدد کرو\”، حضرت رات بھر رت جگے کے بعد ایک شاخ پہ آنکھیں موندے اونگھ رہے تھے، آوازیں سن کر ذرا سے جاگے اور نیم وا آنکھوں سے نیچے نظر کی تو کچھ سائے سے نظر آئے۔ چونکہ دن میں تو انہیں کچھ سجھائی دیتا نہیں سو سمجھے کے کان بج رہے ہیں دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ جانور لوگ سمجھے دادا مراقبہ کر رہے ہیں سو اور زور سے چلّانے لگے، \” دادا نیچے آؤ ہماری الجھن مٹاؤ\”۔ الو دادا اس شور و غل سے پریشان ہوکر نیچے اترے اور اپنی کمزور بینائی پر زور ڈالتے سامنے تھرکتے سایوں کو تکنے لگے۔ تھوڑی دیر یونہی سن رہنے کے بعد ایک طرف سے آتی روشنی کی سمت چل پڑے۔ الو دادا کو خوابیدہ انداز میں ایک جانب چلتے دیکھ کر جانور بھی ان کے پیچھے چل پڑے۔ سو آگے آگے الو دادا پیچھے پیچھے جنگل کے جانور ہاتھ باندھے نہایت ادب کے ساتھ چلتے چلے گئے۔ کسی کو خبر نہ تھی دادا کہاں جا رہے ہیں، کیوں جا رہے ہیں، آخر چاہتے کیا ہیں۔ عقیدت کے ماروں میں اتنی ہمّت بھی نہ تھی کہ دادا سے سوال ہی کرتے۔ چلتے چلتے ایک کنواں آگیا پر دادا تو اندھے تھے وہ سیدھے سیدھے چلتے گئے اور کنوے میں جا گرے ساتھ ہی ان کے پیچھے عقیدت مندوں نے بھی بنا سوچے سمجھے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔

کچھ سمجھ آیا؟ نہیں آیا؟ اچھا چلو یہ بتاؤ پرسوں کیا ہوا؟ ایک خطاب کیا گیا جس میں نا صرف ملک اور ملکی اداروں سے متعلق خرافات بکی گئیں بلکہ حاضرین کو چند ٹیلی ویژن چینلز پر حملہ کرنے کے لئے بھی اکسایا گیا ( جس طرح صورت حال قابو سے باہر ہوگئی تھی یہاں لفظ اکسانا سراسر الفاظ کی سنگینی کے ساتھ نا انصافی ہے) بہرحال شرکاء نے اپنے قائد کی للکار پر لبیک کہتے ہوئے ایک چینل کے دفتر پہ دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب تو ہم دیکھ ہی رہے ہی۔

بہرحال یہ پاکستانی سیاسی تاریخ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی اپنے سیاسی عزائم کے لئے ہمارے قائدین نے عوام کو ورغلایا، بھڑکایا اور اس انارکی کے بیچ اپنی سیاست چمکائی۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں سال 2014 میں بھی ہم ایسا ہی ایک سیاسی کرتب دیکھ چکے ہیں جس میں ناصرف دارلحکومت کو یرغمال بنا کر رکھا گیا بلکہ عقل کی اندھی عوام اپنے ہردل عزیز لیڈر کے اکسانے پر پی ٹی وی پر دھاوا بول بیٹھے۔ ہوا کیا اپنی ہی ہنسی اڑوائی، تبدیلی کے داعی تو صاف ذمہ داری سے مکر گئے۔

ہماری حالت یہ ہے کہ بارہا سیاسی عزائم کے لئے استعمال ہونے اور ان عزائم کے پیچھے چھپی عیاریوں کا پردہ فاش ہونے کا باوجود ہماری عقل پر پڑے پردے نہیں ہٹتے۔ درحقیقت ہم کسی سیاسی نظام کا حصّہ ہیں ہی نہیں بلکہ ہم تو پرسنالٹی کلٹ (Personality cult ) یعنی شخصیت پرستی کا حصّہ ہیں اور اپنے دل پسند لیڈروں کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے اور بی بی کے آگے ہم شہید لگانا ضروری سمجھتے ہیں، بھائی ایک ایسا کمبل ہے جو نہ ہمیں چھوڑتا ہے اور نہ ہم اسے چھوڑنے کو تیار ہیں، خان کے یو ٹرن پہ یو ٹرن بھی ہمارے دلوں سے ان کی کشش کم نہ کرسکے، دو بار ناکام وزارت کے باوجود ہم ایک بار پھر میاں صاحب کو وزیر اعظم کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ کیا واقعی یہ جو کچھ ہے وہ جمہوریت کا حصّہ ہے؟ یا شخصیت پرستی کی انتہا جس میں ہم اپنے من چاہے لیڈروں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں چاہے اس بےبصیرت سیاست سے جتنا بھی نقصان اٹھا لیں۔

ہم نشئیوں اور ذہنی مریضوں کی بنا سوچے سمجھے تقلید تو کر سکتے ہیں لیکن ان سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ کیا پارٹی میں آپ کے علاوہ کوئی اتنا لائق فائق نہیں جو آپ کی جگہ لے سکے؟ کیا آپ جو یہ بیانات دے رہے ہیں سیاسی و اخلاقی اعتبار سے درست ہیں؟ کیا پیر کے دن جو لوگ ٹیلی ویژن سٹیشن پر حملہ کرنے گئے انہوں نے ایک لمحے کو بھی سوچا ہوگا کہ یہ ہمارا قائد ہمارا رہنما کیا بک رہا ہے؟ بعد کے واقعات سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ بالکل نہیں۔ یہ شعوری بنجرپن آخر کیوں؟

کیا آج تک ہم نے اپنی پسندیدہ جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ جاننے کی کوشش کی؟ ملک میں اس وقت دو بڑی جماعتوں پر دو خاندانوں کا قبضہ ہے اور باقی دو ون مین شو (One man show ) کا شکار ہیں پھر بھی ہم اسے جمہوری نظام کہتے ہیں اور ان کی اندھادھند تقلید کر رہے ہیں۔ کبھی ہمیں ڈھال بنا کر ریاست کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ہم پھر بھی میرا قائد مہان کے راپ الاپتے نہیں تھکتے۔

جب تک عوام شخصیت پرستی کا طلسم نہیں توڑ دیتی، جب تک اپنے لیڈروں کے بے سرو پا دعوؤں، جھوٹے وعدوں اور ملک دشمن سرگرمیوں پر سوال نہیں اٹھائے گی اسی طرح اپنے لیڈروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنی رہے گی اور ہمارا انجام بھی ایک دن الو دادا کے پیروکاروں سے مختلف نہ ہوگا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments