محبت میں غیرت کا زہر


\"asadسندھ جو کبھی مہمان نوازی ، پیار ، امن، محبت اور بھائی چارے کی وجہ سے دنیا بھر میں جانی جاتی تھی ، آج دنیا بھر میں کارو کاری کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ ہر سال غیرت کے نام پر معصوم اور نہتے لوگوں کو موت کی ابدی نیند سلایاجاتا ہے ۔ حال ہی میں ضلع خیرپور کے علائقے ھنگورجا میں پسند کی شادی کرنے پر ایک پریمی جوڑے کو زہر کا پیالہ پلا کرگھناﺅنی حرکت کی گئی ۔ زہر پینے کی روایات بہت پرانی ہے لیلی مجنوں کی کہانی نے جس وقت جنم لیا تھا اس وقت بھی زہر پلانے کا ذکر ملتا ہے، سقراط کو سوچنے اور سچ بولنے کی وجہ سے زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا ۔آج اکیسویں صدی میں بھی زہر پینے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن جس طرح کا واقعہ خیرپور میں پیش آیا اس طرح کے واقعات تاریخ میں خال خال ہی ملتے ہیں۔

 اس انسانیت سے گرے ہوے واقعہ میں ایک طرف ماں باپ بے بس بے یارو مدد گار تھے، تو دوسری طرف خون کے پیاسے تھے۔ زہر پلانے کے واقعہ میں لڑکی کا باپ احسن شاہ اور اس کے بھائیوں تحسین اور شمشاد شاہ نے قاتلوں کا روپ دھارا ہوا تھا۔ جنہوں نے ہتھیاروں کے زور پر طاہرہ شاہ اور کامران لاڑک کو زبردستی زہر کا پیالہ پلایا۔ اس سارے عمل کے دوران کامران کے ماں باپ بے حِس معاشرہ میںاپنی بے بسی پر ماتم کرتے رہے ۔ یہ اپنی نوعیت کا سندھ میں پہلا واقعہ ہے۔ اِس نوجوان پریمی جوڑے کی فیس بک کے ذریعے دوستی ہوئی جوآگے چل کر محبت میں بدل گئی، آخر اس محبت کو انجام تک پہنچنا تو تھا دونوں نے بھاگ کر شادی کا فیصلہ کیااور آخر کار آٹھ اگست کو دونوں نے کورٹ میں جا کر شادی کی۔ جب اس بات کا علم طاہرہ شاہ کے خاندان کو ہوا تو انہوں نے کامران کے گھر والوں کو بہلا پھسلا کر قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ہم ان کی رخصتی کرنا چاہتے ہیں ۔

 کامران کے ماں باپ نے ان پر بھروسہ کیا لیکن بدلے میں ان کے لخت جگر اوربہو کو 14اگست کو وطن عزیز کی سالگرہ کے موقع پر رات کے وقت ان کی آنکھوں کے سامنے زبر دستی زہر کا پیا لہ پلایا گیا جس نے کامران کی ایک ہفتہ پہلے جان لے لی ۔ جب کہ طاہرہ شاہ بدستور اپنے جینے کی واحد امید کامران کی موت سے اب تک بے خبر ہے،اس نے ہر گھڑی ہر لمحہ سوچا ہو گا کہ جب کامران سے ملوں گی تو میں اس سے خیریت دریافت کروں گی اس کو اپنے سارے دکھڑے سناﺅں گی محبت سے لے کر شادی اور زہر کا پیا لہ پینے سے لے کر ہسپتال تک جو عذاب جھیلے ہیں وہ بتاﺅں گی ،مستقبل کی منصوبہ بندی سمیت نہ جانے کتنے حسین خواب دیکھے ہو ں گے۔ سو چا ہوگا کہ ان تکلیف دہ لمحات کے گزرنے کے بعد کامران سے ملوں گی تو بھیانک اور بد صورت دنیا پھر سے حسین ہو جائے گی ۔ لیکن یہ خیالات تب تک اس معصوم نہتی لڑکی کے ذہن میں گردش کرتے رہیں گے جب تک وہ اپنے محبوب شوہر کی موت سے بے خبر ہے۔ وہ ابھی کامران کے ہوش میں آنے کا نتظار کر رہی ہے اور بار بار اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کر تی رہتی ہے ۔ ڈاکٹرز کے مطابق ابھی طاہرہ کی صحت ایسی نہیں کہ وہ کامران کی موت کا صدمہ برداشت کر پائے ۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک کامران کی موت کو چھپایا جائے گا؟ جب وہ حقیقت سے آگاہ ہو جائے گی تو اس کا انسانیت سے ہی اعتبار اٹھ جائے گا اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی پھر کو نسا ڈاکٹر اس کا علاج کرے گا ؟

اس ساری مجرمانہ غفلت کی زمہ داری حکومت پر اور علاقائی رسم و رواج پر عائد ہوتی ہے ،دوسری بات طبقاتی نظام کا بڑھ جانا ہے ۔ اگر کوئی نوجوان لڑکا لڑکی پسند کی شادی کرتے ہیں تو ان کا انجام کارو کاری ہوتا ہے اور اگر یہی قدم کوئی وڈیرے، سردار یا پھر سید وغیر ہ کے بچے اٹھاتے ہیں تو وہ بچ جاتے ہیں انہیں کچھ نہیں کہا جاتا اور نہ ہی کبھی کارو کاری کر کے مارا جاتا ہے ۔ اس کی مثال طاہرہ کے والد احسن شاہ کی دی جا سکتی ہے جو ابھی تو ایک مسجد کا متولی ہے لیکن آج سے بیس سال قبل اس نے کامران کے والد غلام رسول کی بہن کو گھر سے بھگایا تھا ، اس وقت کامران کے والد نے سید گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے احسن شاہ کو معاف کر دیا تھا ، جب کہ اس کے بر عکس کامران کو اس لیے زہر پلایا گیا کہ اس نے احسن شاہ کی بیٹی سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں رنگ و نسل کی نفی کی گئی ہے۔ اللہ کے حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں امت کو رنگ و نسل کی تفریق سے بچنے کے لیے فرمایا تھا کہ عرب کو عجم پر ، عجمی کو عربی پر ، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں پھر کیوں آج اتنا تفرقہ بڑھ گیا ہے؟

مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پھر ہم اعلی ادنی کے طبقاتی نظام میں کیوں بٹ چکے ہیں ؟ آج جھوٹی شان اور کھوکھلی انا کی وجہ سے نہ جانے کتنی طاہرہ شاہ جیسی سید اور غیر سید گھرانوں کی لڑکیاں عذاب بھگت رہی ہیں، خاندان میں رشتوں کا نہ ہونا، اور اگر ہوتے ہیں تو وہ ان کی مرضی کے خلاف ہوتے ہیں یا پھر ذہنی طور پر ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے بھی ان کے رشتے نہیں ہو پاتے ،اور اگر کوئی لڑکی خاندان سے باہر کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے ماں باپ کے حقوق کا بتا کر یا پھر کمزور اور من چاہے، مذہبی دلائل دے کر ان کو ڈرا دھمکا کر ان کی خواہشوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے ۔ ہماری غیرت صرف اولاد اور رشتہ داروں وغیرہ تک محدود کیوں ہوتی ہے؟ ہمارا اسلامی جذ بہ اور غیرت اس وقت عروج پرکیوں پہنچ جاتے ہیں جب لڑکی خاندان سے باہرشادی کرنا چاہتی ہے ؟ یہ غیرت اس وقت کیوں نہیں آتی جب ہم کسی دوسرے انسان کی بہن بیٹی کو چھیڑ رہے ہوتے ہیں؟ مذہبی فرائض اس وقت کیوں نہیں یاد آتے جب سماج میں کسی نہتے انسان کے ساتھ نا انصافی اورظلم ہو تا ہے ، کب تک ایسا سلسلہ چلتا رہے گا اور کب تک ہم گونگے بہرے بن کر ظلم و جبر سہتے رہیں گے آخر کب تک ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments