مودی کی جیت، اب ہمیں بھی کچھ نیا سوچنا ہو گا


 ہارنے والوں کے پاس ہزار جواز ہوتے ہیں۔ کانگرس اور اس کی اتحادی جماعتیں وہ جواز پیش کر رہی ہیں مگر مودی کے پاس جیت کی ایک ہی وجہ ہے۔ وہ نیشنلسٹ ایجنڈے پر سمجھوتے کو تیار نہیں۔ اس ایجنڈے پر عمل کیلئے اقلیتوں کو خوفزدہ کرنا پڑے، داخلی سلامتی کے خطرات کا سامنا کرنا پڑے یا پوری قوم کو جنونی بنانے کا خدشہ ہو۔ ان کا ہدف بھارت کو اتنا طاقتور بنانا ہے کہ دنیا اس کی طاقت کا احترام کرے۔

کسی زمانے میں جب پاک بھارت تعلقات کا تجزیہ کیا جاتا تھا تو دونوں ملکوں کی طاقت اور بین الاقوامی اثرورسوخ کو ترازو کے پلڑوں میں ڈالنے کے بعد امریکہ کا بھاری باٹ پاکستان کی طرف رکھ دیا جاتا تھا۔ اب ایسا نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا باٹ اب بھارتی پلڑے میں ہے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ دونوں اصولی بنیادوں پر دہشت گردی کے خلاف ہیں بلکہ اس کی وجہ مستقبل میں بھارت کو چین سے بھڑانے کیلئے تیار کرنا ہے۔

بھارت کا پہلا مسئلہ اس کی ایک ارب 30 کروڑ آبادی ہے جسے خوراک کی ضرورت ہے۔ اسرائیل زرعی و غذا ئی ٹیکنالوجی میں عقل کو حیران کر دینے والے تجربات کر چکا ہے۔ دو سال پہلے مودی جب اسرائیل گئے تو کئی دفاعی معاہدوں کے ساتھ فوڈ و زرعی ٹیکنالوجی میں تعاون کا معاہدہ بھی کیا۔ امریکی کمپنیاں کئی ارب ڈالر کے ہارٹی کلچر فارم بنا رہی ہیں۔ مودی نے اپنے سابق دور میں مریخ پر جانے کا مشن شروع کیا۔ انہوں نے جپھیاں ڈال کے اپنا مذاق اڑوایا مگر اس کام نے ان کے ملک کو فائدہ پہنچایا۔

عرب ممالک میں پاکستانی افرادی قوت مشکلات کا شکار ہے مگر بھارتی افرادی قوت کی طلب بڑھ رہی ہے۔ بھارتی ماہرین کمپنیوں کے سی ای او لگ رہے ہیں۔ ان کی ترجیح اپنے ملک کے لوگ ہوتے ہیں۔ نریندرمودی بھارتی شرح نمو کو ساڑھے چھ فیصد تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی جانتے ہیں کہ جدید دنیا میں سرمائے کی کیا اہمیت ہے۔ بھارت کے تمام قابل ذکر سرمایہ کار ان کے احباب میں شمار ہوتے ہیں۔

ان سرمایہ کاروں نے اس معاشی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات مضبوط بنائے ہیں جو دنیا کے فیصلے کرتی ہے۔ بھارت کے آئی ایم ایف میں ہم سے زیادہ پوائنٹس ہیں، بھارت ایف اے ٹی ایف میں ہم سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ بھارت ایشیا پیسفک گروپ کا انتہائی بااثر رکن ہے۔ بھارت کی وجہ سے عالمی بنک ہمیں بھاشاڈیم جیسے منصوبوں کیلئے یہ کہہ کر فنڈز نہیں دیتا کہ یہ متنازع علاقہ میں ہے، ہمیں زندہ رہنے کیلئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ادھار تیل لینا پڑتا ہے۔

بھارت ہمارے بلوچستان میں سالانہ دس بارہ ارب روپے خرچ کرکے ہماری سلامتی کیلئے خطرات پیدا کر رہا ہے۔ ان حالات میں ہم بے بسی محسوس کر رہے ہیں۔ اپنی سیاسی طاقت اور معاشی قوت کے زور پر مودی کشمیر کی آئینی حیثیت بدلنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کی جماعت انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔ یہ انسانی حقوق کا معاملہ بھی ایک دھوکہ ہے۔ امریکہ اس کیلئے ہر سال بھاری فنڈز فراہم کرتا ہے۔

امریکی فنڈز دنیا کے ان ممالک پر تنقید کیلئے استعمال ہوتے ہیں جو امریکہ مخالف ہیں۔ جیسے آج کل چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ گزشتہ برس مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ نے ایک جامع رپورٹ شائع کی، اس رپورٹ کی اشاعت پر جمہوری اور انسانی اصول یہ تھا کہ وہاں بھارتی فوج کی کارروائیوں کی مذمت کی جاتی اور بھارت کو ایسے ہتھیاروں کی فراہمی روکی جاتی جو وہ مقبوضہ کشمیر میں استعمال کر رہا ہے مگر اسرائیل اور امریکہ دونوں نے اس رپورٹ کو نظرانداز رکر دیا۔

ان دونوں کا اپنا ریکارڈ اس حوالے سے انتہائی خراب ہے۔ مودی پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کو طوالت دینے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوںنے کرکٹ، ثقافت، ادب اور تجارت کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات تاریخ کی کمزور ترین سطح پر پہنچا دیئے ہیں۔ سابق دور میں انہیں آئین میں ترمیم کیلئے اتحادیوں کی ضرورت تھی۔ اس بار 543 کے ایوان میں وہ دو تہائی اکثریت لے کر پہنچے ہیں۔

ان کی جیت کے بعد انتہا پسند اور نڈر ہو گئے ہیں، خاص طور پر پاکستانی اور مسلمان شہری ان کا نشانہ ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کی بھارتی ہم منصب سشما سوراج کی ایک مختصر ملاقات بشکیک میں ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے فوراً بعد پاکستان نے بھارت کیلئے پروازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستان نے بھارتی انتخابات سے پہلے بھی اعتماد سازی کے کئی فیصلے کئے۔

اقوام متحدہ نے مسعود اظہر کے خلاف قرارداد منظور کی جس پر پاکستان نے عملدرآمد کیا۔ پاکستان نے کالعدم تنظیموں کیلئے فنڈنگ کا نظام غیر فعال کیا ہے۔ عالمی برادری کے یہ مطالبات دراصل بھارت کی طرف سے آئے۔ بھارت عالمی اداروں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔

اسے یوں کہہ لیں کہ مودی عالمی برادری کو پاکستان سے بدظن کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں عمران خان کی حکومت ہر قدم پر اپنے اتحادیوں کی محتاج ہے۔ یہ اتحادی جن کی عالمی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی جان پہچان نہیں، جو صرف الیکٹ ایبلز ہیں، ان کا پاکستان یا عمران خان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہم جسے اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں وہ طاقتور گروپ دردمندی سے سوچے کہ کیا اسے ایک کمزور ریاست کو مزید کمزور بنانا ہے؟ یا پھر پاکستان کو ایسا مضبوط کرنا ہے کہ دنیا ہمارا احترام کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).