پاکستان میں کاریں مہنگی کیوں ہیں؟


گاڑیوں کی قیمت

یہ مضمون بی بی سی اردو اور پاکستان میں گاڑیوں کے حوالے سے سب سے بڑی ویب سائٹ پاک ویلز کے اشتراک سے لکھا گیا ہے۔

فی زمانہ گاڑی ضرورت بھی ہے اور شوق بھی اور نئے ماڈل کی گاڑی کِسے پسند نہیں؟ پاکستانی معاشرے میں اچھی گاڑی ایک سٹیٹس سمبل ہے اور نئی گاڑی اس سے بھی اہم۔ صارفین کی ایک بڑی تعداد ہر نیا آنے والا ماڈل خریدتی ہے اور پرانی گاڑی گھاٹے پر بیچ دیتی ہے۔ صرف اس لیے کہ معاشرے میں ان کی ناک رہے۔

مگر گاڑیاں پچھلے کئی برسوں سے مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ صرف اس سال پاکستان میں کاریں بنانے والی کمپنیوں نے پاکستان میں بکنے والی تمام گاڑیوں کی قیمتوں میں کم از کم ایک بار اضافہ کیا ہے۔ چند ہفتے قبل ہی پاک سوزوکی موٹر کمپنی نے اپنی گاڑیوں کی قیمت میں مزید اضافہ کیا۔

اس کے ساتھ ہی پاک سوزوکی نے کئی دہائیوں سے پاکستان میں بکنے والی اپنی مہران کار کی جگہ سوزوکی آلٹو کو متعارف کروانے کا اعلان کیا جس کے ایک ماڈل کی قیمت 1250000 ہو گی۔

اس کار کی قیمت پر پاکستانی آن لائن کیمیونٹی نے ہنگامہ کھڑا کیا اور یہ بحث ایک بار پھر شروع ہوئی کہ آخر پاکستان میں گاڑیاں اتنی مہنگی کیوں ہیں؟

مگر اس سوال کا جواب دینے سے قبل ایک نظر مندرجہ ذیل ٹیبل پر ڈالیں۔

پاکستان میں اس وقت کون سی گاڑیاں تیار ہوتی ہیں
800 سی سی سے کم 800 سی سی سے 1000 سی سی تک 1000 سی سی سے 1300 سی سی تک

1300 سے 2000 سی سی تک

سوزوکی آلٹو

سوزوکی ویگن آر

ٹویوٹا ایکس ایل آئی

سوزوکی سوفٹ

یونائیٹڈ براوو

سوزوکی کلٹس

ٹویوٹا جی ایل آئی

سوزوکی شیاز

سوزوکی بولان (کیری ڈبا)

ہونڈا سٹی

سوزوکی جمی جیپ

فا کی وی 2

سوزوکی وٹارا جیپ

سوزوکی سوفٹ

سوزوکی اے پی وی

ہونڈا سٹی

ہونڈا سوِک (دو انجن آپشن کے ساتھ)،

ہونڈا بی آر وی

ہونڈا ایچ آر وی

ٹویوٹا آلٹس اور آلٹس گریندے

ٹویوٹا رش جیپ

ہونڈا سٹی ایسپائر

اس ساری صورتحال سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں 1300 سی سی سے نیچے گاڑی میں ورائٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یعنی 800 سی سی سے نیچے دو کاریں اور 1000 سی سی سے نیچے تین کاریں دستیاب ہیں اور ان میں سے یہ ساری کاریں ایک ہی کمپنی یعنی پاک سوزوکی موٹرز بناتی ہے۔ اس سے اوپر کی کیٹیگری میں صرف تین گاڑیاں ہیں جن میں سے دو ٹویوٹا کی اور ایک نووارد چینی کمپنی فا کی گاڑی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا اگلے دس برس میں لوگ گاڑیاں خریدنا بند کر دیں گے؟

2025 سے ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر پابندی

کیسی ہو گی خودکار گاڑیوں والی دنیا؟

جس سے ثابت ہوا کہ 1300 تک کی گاڑی کی مارکیٹ میں مسابقت نہ ہونے کے برابر ہے اور ورائٹی جس حد تک موجود ہے وہ دو کمپنیوں کی جانب سے ہی پیش کی جاتی ہے۔ مطلب ان کمپنیوں کی اس مارکیٹ میں اجارہ داری ہے۔

اب ہم چلتے ہیں اپنے اصل سوال کی جانب کہ کیا واقعی پاکستان میں گاڑیاں مہنگی ہیں اور اگر واقعی مہنگی ہیں تو ایسا کیوں ہے؟

سب سے پہلے تو اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں تیار ہونے والی کوئی بھی گاڑی مکمل طور پر مقامی طور پر تیار نہیں ہوتی بلکہ اس کے بہت سے پرزے بیرونِ ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ ایک گاڑی کی قیمت اس بات کا بہت عمل دخل ہے کہ وہ کتنی حد تک مقامی طور پر تیار کی گئی ہے۔

گاڑی کی قیمت میں کیا شامل ہوتا ہے؟

پاکستان میں گاڑیاں فروخت کرنے والی ایک بڑی ڈیلرشپ کے مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان پہنچے سے پہلے ہی ایک گاڑی پر تیس فیصد اخراجات اٹھ چکے ہوتے ہیں۔ جو اس کی پارٹس کی کٹ جسے ’سی کے ڈی کٹ‘ کہتے ہیں اس پر اٹھتے ہیں۔ اس کے بعد 34 فیصد کے قریب اخراجات گاڑی پر مختلف ٹیکس اور ڈیوٹیوں کی شکل میں لگتے ہیں۔ باقی 36 فیصد میں مقامی پارٹس اور اسمبلنگ پر اٹھنے والے اخراجات، گاڑی بنانے والا کا منافع اور ڈیلر کا حصہ شامل ہے۔ اس کے اوپر آن منی وغیرہ مزید اخراجات ہوتے ہیں جو اٹھتے ہیں۔

’اسی لیے ہم پاکستان میں گاڑیاں بناتے نہیں ہیں اور اپنے آپ کو مینوفیکچرر کہنا درست نہیں۔ ہم اسمبلرز ہیں یعنی پرزے جوڑنے والے جو مختلف پرزوں کو جوڑ کر گاڑی بیچتے ہیں۔ تو ہم ان پرزوں کی سپلائی ملک میں آمد، ان پر اٹھنے والے اخراجات جو امریکی ڈالر میں اٹھتے ہیں پر مکمل اختیار نہیں رکھتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک ڈیلر فی گاڑی چالیس ہزار روپے تک کماتا ہے۔ جبکہ اگر ہم دیکھیں تو ٹویوٹا کمپنی نے گذشتہ سال مثال کے طور پر 61 ہزار گاڑی بیچیں، کمپنی کا سالانہ منافع کمپنی کی جانب سے دی جانے والی رپورٹس کے مطابق 18 ارب روپے بنا۔ اس میں سے ایک ارب ہم پرزوں کی فروخت کی مد میں نکال دیں باقی 17 ارب روپے بچتے ہیں۔ اس حساب سے فی گاڑی کمپنی نے 27 ہزار روپے کے قریب منافع کمایا‘۔

اسی لیے گاڑیاں تیار کرنے والے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس کی مد میں ادائیگی کرنے والے ہیں۔

ایک صارف نے اپنی گاڑی کی قیمت کے حوالے سے بتایا کہ ‘میں نے گذشتہ دنوں اپنی کار خِریدی۔ کار کی رسید پر قیمت 22 لاکھ انچاس ہزار روپے تھی مگر جب تک گاڑی سڑک پر آئی اس کی کل لاگت 24 لاکھ 36 ہزار 208 روپے تک پہنچ چکی تھی۔ گاڑی پنجاب میں رجسٹرڈ ہے اور اس کی قیمت کا بریک ڈاؤن کچھ یوں ہے۔’

کار کی قیمت

2,249,000

کار کی اصل قیمت

1,900,854.70

سیلز ٹیکس 17%

323,145.30

فیکٹری قیمت

2,224,000.00

انشورنس اور کرایہ باربرداری

21,367.52

سیلز ٹیکس 17%

3,632.48

گاڑی کی کل قیمت

2,249,000

قیمت اور لوکلائیزیشن یعنی مقامی سطح پر تیاری

چونکہ پاکستان میں گاڑیاں اسمبل کی جاتی ہیں اس لیے ایک بہت بڑا مسئلہ مقامی سطح پر تیاری کا ہے۔ گذشتہ سال گاڑیاں بنانے والے مقامی صنعت کے تقریبا ساٹھ نمائندوں نے کومپٹیشن کمیشن یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان کو یہی بات بتائی کہ مقامی طور پر اسمبل ہونے والی گاڑی کے 60 سے 70 فیصد تک پرزے باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں مزدوری سستی ہے لیکن گاڑی مہنگی ہونے میں مقامی سطح پر تیاری کا بہت بڑا کردار ہے خاص طور پر ایسے ماحول میں جب ڈالر کے مقابلے پر روپیہ غیر مستحکم ہو بلکہ گر رہا ہو۔

مگر چونکہ ریگولٹری نظام نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے مسابقتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ بات لکھی کہ ‘مقامی گاڑیاں بنانے والے گاڑیوں کی قیمتوں میں آسانی سے اضافہ کر سکتے ہیں۔ بغیر اس ڈر کے کہ مارکیٹ میں ان کے شیئر پر اس کے نتیجے میں کوئی اثر پڑے گا کیونکہ مارکیٹ میں مناسب مسابقت نہیں ہے’۔

طلب اور رسد میں عدم توازن

گاڑیوں کی قیمت

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستانی گاڑیاں بنانے کی صنعت میں مختلف درجے کی گاڑیوں میں نہ صرف طلب اور رسد کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج موجود ہے بلکہ مسابقت بالکل نہیں ہے۔

انڈس موٹر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی اصغر جمالی کہتے ہیں ‘پاکستان میں ہر ہزار میں سے اٹھارہ افراد کے لیے ایک کار ہے’۔

جبکہ انڈین پالیسی تھنک ٹینک ’نیٹی ایوگ‘ کے سربراہ امیتابھ کانت نے کہا کہ ’انڈیا میں ہزار میں سے بائیس افراد گاڑی کے مالک ہیں جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں ہزار میں سے نو سو اسی اور آٹھ سو پچاس افراد گاڑی کے مالک ہیں’۔

طلب اور رسد کے اس عدم توازن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ہر سال ایک محدود تعداد میں گاڑیاں بنتی اور فروخت کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان آٹومیٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق دو ہزار سترہ اٹھارہ میں 1300 سی سی اور اس سے اوپر کی کل اٹھانوے ہزار آٹھ سو اڑتالیس گاڑیاں پاکستان میں تیار کی گئیں جن میں ہونڈا، سوزوکی اور ٹیوٹا شامل ہیں۔ جن میں سوزوکی سوفٹ، ہونڈا سٹی اور سوِک اور ٹویوٹا کرولا کاریں شامل ہیں۔

جبکہ اسی عرصے کے دوران اسی کیٹگری کی 99،138 گاڑیاں فروخت کی گئیں جو کہ پیداواری اعداد کے تقریباً برابر ہے۔ پاکستانی کاریں بنانے والے جن میں پاک سوزوکی، ٹویوٹا انڈس موٹرز، ہونڈا اٹلس اور الحاج فا شامل ہیں کے پاس کل ملا کر سالانہ دو لاکھ اکیاسی ہزار گاڑیاں بنانے کی گنجائش موجود ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے مسابقتی کمیشن کو جمع کروائے گئے حکومتی تخمینے کے مطابق یہ تعداد اگلے چار سے چھ سالوں کے دوران پانچ لاکھ گاڑیوں تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

مگر یہ اضافہ کیسے ہو گا کیا موجودہ کار بنانے والے ہی اپنی پیداوار میں اضافہ کریں گے؟

پاک سوزوکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک نئے پلانٹ کے لیے ساڑھے چار سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس کے علاوہ نشاط گروپ ہیونڈئے کی اشتراک سے فیصل آباد میں پلانٹ لگا رہا ہے جس کی پیداوار اس سال کے آخر تک شروع ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دورسے منصوبوں کے بارے میں مختلف مراحل پر کام جاری ہے۔

مسابقتی کمیشن نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ’مقامی کار بنانے والے ملک میں موجود دوسرے کار بنانے والوں کے ساتھ مسابقت کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ اپنی ہی مارکیٹ میں خوش ہیں۔ مثال کے طور پر ہزار سی سی تک کی گاڑیوں کی فروخت میں بڑا حصہ پاک سوزوکی کا ہوتا ہے‘۔

اس خلیج کو پر کرنے کے لیے نئے کھلاڑی میدان میں اترنے کو تیار ہیں جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ طلب اور رسد میں موجود اس کمی کو پر کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی گاڑیاں بنانے کی صنعت کو حکومت کی جانب سے دو ہزار سولہ تا اکیس کی آٹوموٹیو ڈیولپمنٹ پالیسی سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ گاڑی بنانے والی بین الاقوامی کمپنیاں جیسا کہ فرانس کی رینو، جرمنی کی ووکس ویگن اور ملائیشیا کی پروٹون اور کچھ دوسری کمپنیوں نے پاکستان میں اپنے پیداواری یونٹ بنانے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے امید ہے کہ ان کمپنیوں کی آمد سے نہ صرف گاڑیوں کی قیمت میں کمی واقع ہو گے بلکہ ایک مسابقانہ ماحول پروان چڑھے گا۔

پریمیم کے پیسے

گاڑیوں کی قیمت

گاڑیوں کی طلب اور رسد کا نظام پہلے ہی متوازن نہیں اس پر کار ڈیلر گاڑیوں کی فروخت پر ’پریمیم‘ کے پیسے جسے عام زبان میں ’آن منی‘ کہا جاتا ہے اس کی طلب بھی کرتے ہیں۔ یہ رقم گاڑی کی اصل قیمت کہ علاوہ ڈیلر طلب کرتا ہے تاکہ گاڑی معینہ مدت سے پہلے یا اسی وقت خریدار کو دی جا سکے۔ اس لین دین کی کوئی رسید نہیں ہوتی اس لیے کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اور کار ڈیلر ایک گاڑی کے پیچھے دس ہزار روپے سے لے کر دس لاکھ روپے تک وصول کرسکتے ہیں۔ یہ سب گاڑی کی مارکیٹ میں طلب پر منحصر ہے۔

اگرچہ یہ بات عام طور پر سمجھی جاتی ہے کہ گاڑیاں بنانے والے گاڑیاں فروخت کرنے والوں کی جانب سے ’آن منی‘ کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں مگر کارساز اس بات کا بارہا انکار کر چکے ہیں کہ اس معاملے سے ان کا کچھ بھی لینا دینا ہے۔

کار ڈیلروں کا یہ کہنا ہے کہ ’طلب اور رسد میں موجود فرق کی وجہ سے چند نئی گاڑیوں کے لیے وہ پریمیم کے پیسے طلب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں‘۔

یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بہت سارے سرمایہ کار طلب اور رسد کی اس خلیج کو پاٹنے کے لیے سرمایہ لگاتے ہیں جس کا نتیجہ انہیں جلد منافع کی صورت میں ملتا ہے۔ تو وہ ایسی گاڑیاں جن کی مانگ زیادہ ہوتی ہے انہیں پہلے سے خرید کر شوروم پر کھڑا کر دیتے ہیں اور پریمیم کے پیسوں سے اس سرمایہ کاری پر گاڑی کی قیمت کے علاوہ منافع کماتے ہیں۔

اس قسم کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے حکومت نے گاڑیاں بنانے والوں کو ایسے کار ڈیلروں کو بلیک لسٹ کرنے کا کہا ہے جو گاڑیوں پر ’پریمیم یا آن منی‘ طلب کرتے ہیں۔ دو اپریل دو ہزار انیس کو کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی جو اس معاملے کی نگرانی کرے گی۔ اس کمیٹی میں وزیر قانون اور وزیر خزانہ شامل ہیں اور اسے احکامات جاری کیے گئے کہ وہ نئی گاڑیوں کی خریداری کے عمل کو ریگولیٹ کریں جس میں ایسے کار ڈیلروں اور کار بنانے والوں پر جرمانے عائد کیے جائیں جو غلط سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ لیکن ابھی تک کار خریدنے والے اس قسم کے اقدامات کے ثمرات سے محروم ہیں۔

ایک اور وجہ جو گاڑیوں کی طلب اور رسد کے نظام کو غیر متوازی کرتی ہے وہ ایسے خریداروں کی جانب سے گاڑیاں خریدنا ہے جن کے پاس زیادہ پیسہ ہے اور وہ بروقت گاڑی خرید کر اسے مزید مہنگا کرکے بیچتے ہیں۔ اس قسم کے کام میں گاڑی بیچنے والا ایک لاکھ سے دو لاکھ روپے تک باآسانی کما سکتا ہے اور اس سے زیادہ بھی کمانا ممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں گاڑی کی حقیقی طور پر طلب رکھنے والے کے لیے گاڑی دستیاب نہیں ہوتی جبکہ ایک ایسا شخص جسے گاڑی کی شاید فوری ضرورت نہ ہو گاڑی خرید کر اسے اس سے محروم کر دیتا ہے اور شاید اس کے لیے مہنگا بھی کر سکتا ہے۔

گاڑیوں کی قیمت پر ٹیکس کا علاقائی موازنہ

گاڑیوں کی قیمت

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس آلٹرنیٹو نے عالمی بینک کے لیے ایک رپورٹ تیار کی جس میں اس خطے میں مختلف گاڑیوں کی قیمتوں کے حوالے سے تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق کی روح سے پاکستان، انڈیا، تھائی لینڈ اور چین میں ایک ہی گاڑی کی قیمت اور اس پر لاگو ہونے والے مختلف ٹیکسز کا موازنہ مندرجہ ذیل ہے۔

گاڑی

ہم نہ صرف ان گاڑیوں کی قیمت اور ٹیکسز کا موازنہ کر سکتے ہیں بلکہ مندرجہ ذیل ٹیبل میں ہم سوزوکی ویگن آر کا تین ممالک میں موازنہ پیش کر رہے ہیں۔ جس موازنے میں گاڑی میں موجود مختلف سہولیات کا بھی موازنہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان انڈیا اور چین میں فروخت ہونے والی سوزوکی کی ویگن آر کا موازنہ کریں تو ہمیں مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

چینی سوزوکی

ویگن آر

انڈین سوزوکی

ویگن آر

پاکستانی سوزوکی

ویگن آر

ماڈل

بائیڈوشنگ

1.0L

ویگن آر ایل ایکس آئی

نان مٹیلک

ویگن آر، وی ایکس آر

فیکٹری کی قیمت

5,463

6,177

8,924

سٹیئرنگ وہیل کی قسم

انرجی جذب کرنے والا سٹئرنگ کالم الیکٹرانک پاور سٹیئرنگ کے ساتھ

مختلف سطح پر رکھا جانے والا سٹیئرنگ کالم اور الیکٹرانک پاور سٹیئرنگ

الیکٹرانک پاور سٹیئرنگ

انجن کی قسم

اِن لائن 4 سلینڈر

K10B

اِن لائن 3 سلینڈر

K10B

اِن لائن 3 سلینڈر

انجن ڈسپلیسمنٹ

970

998

998

والو ٹرین

16 والو

SOHC

12 والو

DOHC 12 والو

زیادہ سے زیادہ

ہارس پاور

33.5kW/5000rpm

68PS @ 6200 RPM

50 KW/6200 RPM

زیادہ سے زیادہ ٹارک (Nm/rpm)

72 Nm/3,000-3,500 rpm

90 Nm/3500 RPM

90 Nm/3500 RPM

اگلے پچھلے سسپنشن

پیکفیرسن سٹرٹ سچر آئیسولیٹڈ ٹریلنگ لنک

پیکفیرسن سٹرٹ سچر آئیسولیٹڈ ٹریلنگ لنک

پیکفیرسن سٹرٹ سچر آئیسولیٹڈ ٹریلنگ لنک

ٹرانسمیشن

5 MT

5 MT AGS

مینویل 5MT

بریک سسٹم

ڈسک/ڈرم

ڈسک/ڈسک

وینٹی لیٹڈ ڈسک/ڈرم

اے بی ایس بریک کا آپشن موجود

وینٹی لیٹڈ ڈسک/ڈرم

اے بی ایس بریک کے بغیر

ٹائر کا سائز اور قسم

165/65 R13 اور ایلوئے رِم

145/80R 13 رِم پہیے کے کیپ کے ساتھ

145/80 R13

اور سٹیل رِم پہیے کے کیپ کے ساتھ

ایندھن کے ٹینک کی گنجائش

42 لیٹر

35 لیٹر

35 لیٹر

اس کے علاوہ ہم نے پاکستان اور انڈیا میں چار گاڑیوں کا بنیادی موازنہ کیا جس کے نتائج کچھ یوں ہیں۔

کار پاکستان جنریشن

قیمت (پاکستانی روپیہ)

انڈیا

جنریشن

قیمت (انڈین روپیہ)

سوزوکی آلٹو/ماروتی

سوزوکی آلٹو

دوسری

1,250,000

ماروتی سوزوکی آلٹو

دوسری

307,000

ٹویوٹا آلٹس

ٹویوٹا کرولا آلٹس گریندےCVT-i 1.8

گیارہویں

35 لاکھ

ٹویوٹا آلٹس1.8 VL

گیارہویں

2,019,000

ہونڈا سٹی

ہونڈا سٹی ایسپائر1.5

پانچویں

2,274,000

ہونڈا زیڈ ایکسCVT

چھٹی

1611000

ہونڈا سوِک

ہونڈا سوِک وی ٹی آئی اورئیل1.8 i-VTEC

دسویں

3,399,000

ہونڈا سوِک زیڈ ایکس

دسویں

2044000

ان دونوں گاڑیوں میں دستیاب سہولیات کا موازنہ کچھ یوں ہے۔

ماروتی آلٹو

سوزوکی آلٹو

•دوہرے ایئر بیگز

•ایئر کنڈیشننگ

•پاور سٹیئرنگ

•پاور ونڈوز

•چابی کے بغیر رسائی

•ریمورٹ ڈگی اوپنر

•ایڈجسٹیبل ہیڈ لائٹس

•گاڑی کو ناقابل استعمال بنانے والا

•آٹو بیرک سسٹم

•ایئر بیگز

•ایئر کنڈیشننگ

•پاور سٹیئرنگ

•پاور ونڈوز

•چابی کے بغیر رسائی

•گاڑی کو ناقابل استعمال بنانے والا

•انفوٹینمنٹ سسٹم 5

ان سب عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی بڑی کار ڈالرشپ کے مالک نے بتایا کہ ’پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہونا مستقبل قریب میں ممکن نہیں، جب تک گاڑیوں کو مکمل طور پر مقامی طور پر تیار کرنے کی جانب اقدامات نہیں کیے جاتے۔ جب تک گاڑی پر بیرونی عوامل کو کم نہیں کیا جاتا جیسا کہ ڈالر ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ گاڑیاں بنانے والوں کی طلب اور رسد میں موجود توازن کو مزید سرمایہ کاری اور نئی کمپنیوں کی مدد سے درست کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو معاشی حالات کو بہتر کرنا پڑے گا اور روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کرنا پڑے گا تاکہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔

گاڑیوں کی صنعت میں کارفرما غیرقانونی سرگرمیوں پر حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ کریک ڈاؤن کرنا ہوگا جیسا کہ آن منی یا کار ڈیلروں کی جانب سے غیرضروری منافع کمانے کے مختلف ہتھکنڈے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹیکس کے حوالے سے چھوٹ پر بھی غور کرنا ہو گا۔

یہ مضمون بی بی سی اردو اور پاکستان میں گاڑیوں کے حوالے سے سب سے بڑی ویب سائٹ پاک ویلز کے اشتراک سے لکھا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp