سانحہ بلدیہ فیکٹری اور حکومت سندھ کا جھوٹا وعدہ


ہمارے یہاں شہید کا لقب تو جلد مل جاتا ہے، مگر شہید اور ان کے اہلہ خانہ کے ساتھ انصاف صرف اور صرف لفظوں میں نظر آتا ہے۔ حقیقت میں تو شہید اس کی بیوہ اور اہل خانہ ہیں جنہیں صرف اتنظار ہی نصیب ہوتا ہے، سانحہ 12 مئی کے 5 سال بعد 2012 میں کراچی میں ایک بار پھر ایک بڑا سانحہ پیش آیا، کراچی بلدیہ کے علاقے میں قائم گارمنٹس کی فیکٹری کو کچھ شر پسند لوگوں نے چند روپوں کا بھتا نہ دینے پر آگ لگا دی، فیکٹری میں لگائی گئی آگ کچھ دیر بعد تو بجھ گئی مگر لے گئی اپنے ساتھ 250 سے زائد معصوم زندگیاں۔

ان 250 زندگیوں کے جانے سے سیکڑوں بچوں کے سر سے والد کا سایا تو کئی ماؤں کی اولاد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان سے بچھڑ گئی۔ یہ آگ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی فیکٹری میں لگی آگ سے سب سے بڑی آگ تھی۔ جس میں سیکڑوں لوگ جاں بحق اور 600 افراد زخمی ہوئے تھے۔ بلدیہ فیکٹری جس میں 1500 سے 2 ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ فیکٹری کی بلڈنگ میں موجود تمام کھڑکیاں لوہے کی سلاخوں سے بند تھیں، حادثے والے دن ہنگامی راستہ بند ہونے کہ باعث فیکٹری میں موجود ملازمین آگ میں جلتے رہے کوئی مدد کے لئے نہیں آیا لوگوں نے کافی دیر تک اپنی مدد آپ تحت فیکٹری سے باہر نکلنے کی کوشش جاری رکھی جس میں کافی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، فیکٹری کی کھڑکیاں اور ہنگامی راستہ بند ہونے، ایمبولینس اور فائر برگیڈ کے تاخیر سے آنے کے باعث بہت بڑی تعداد میں لوگ جھلس گئے تھے، سانحہ بلدیہ کو آج 6 سال 9 ماہ گزر گئے مگر کسی ایک بھی متاثر کو انصاف نہ مل سکا۔

ابتدائی تحقیقات میں پولیس کے جانب سے آگ کا سبب شارٹ سرکٹ بتایا گیا تھا۔ مگر جیسے جیسے تحقیقات تیز ہوئیں تو حقیقت بھی سامنے آنے لگی، پہلے 4 سال میں کسی ملزم پر فرد جرم تک عائد نہیں کیا گیا، مگر 2016 میڈیا ہاؤسز پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کے کیس درج ہونے کے بعد کالعدم تنظیم کے خلاف جیسے ہی کارروائی تیز ہوئی تو سانحہ بلدیہ میں بھی بہت تیزی سے پیش رفت ہونے لگی، سانحہ بلدیہ میں ایم کیو ایم کے رہنما روف صدیقی، زبیربھولا سمیت 13 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے، سانحہ بلدیہ کیس میں سرکار کی جانب سے 720 گواہان کو شامل کیا گیا ہے۔

گواہان کی فہرست میں فیکٹری میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور ملازمین کو بھی شامل کیا گیا ہے، 6 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ابھی تک صرف 250 گواہان کے بیان ریکارڈ ہو سکے ہیں، سانحہ بلدیہ میں متاثرین کو جرمن کمپنی کی جانب 60 کروڑ روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کیاگیا تھا، جو تمام متاثرین کو کیٹیگری کے مطابق ہر ماہ 2500 سے 7 ہزار روپے رقم کی قسط کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے، متاثرین کا کہنا ہے کہ ہمیں جو ہر ماہ قسط میں رقم ادا کی جاتی ہے اس سے نہ ہمارا گھر کا چولہا جلتا ہے نہ کوئی ضرورت پوری ہوتی ہیں، لہذا ہمیں معاوضے کی ٹوٹل رقم ایک ساتھ دی جائے جس سے ہم اپنی ضرورت پوری کر سکے۔

سانحہ بلدیہ کے کچھ ایسے بھی متاثرین تھے جو انصاف کی امید رکھتے اس دینا سے ہی چلے گئے، جبکہ ہر سال 11 ستمبر کو سانحہ بلدیہ کا دن تو منایا جاتا ہے تقاریب ہوتی ہیں، سانحہ بلدیہ فیکٹری میں شہید ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو تقریب میں مدعو کیا جاتا ہے ان کے ساتھ دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے، متاثرین کے ساتھ تصاویر بھی بنائی جاتی ہیں اور ہر سال متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی خوب کرائی جاتی ہے، مگر انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔

اس طرح 2017 میں سندھ کے صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت ناصر حسین شاہ نے ایک تقریب میں متاثرین کے لئے ایک بڑا اعلان کیا تھا جو آج تک پورا نہیں کیا گیا۔ ناصر حسین شاہ کی جانب سے متاثرین کو 56 کروڑ روپے اضافی رقم دینے کا اعلان کیا گیا تھا، جسے آج 3 سال گزر گئے مگر ایک پھوٹی کوڑی بھی جان بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو نہ مل سکی۔ جب متاثرین نے ناصر حسین شاہ کی جانب سے اعلان کردہ رقم جاری نہ کرنے کہ خلاف درخواست دائر کی تو سندھ حکومت نے پیسے دینے سے صاف انکار کردیا۔

ساڑھے 6 سال سے زائد عرصہ ہوگیا مگر متاثرین کو انصاف کی فراہمی کرنا ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، متاثرین کے اہل خانہ انصاف کے حصول کے لئے کئی برسوں سے عدالتوں کے چکر بھی لگاتے ہیں، جب کمرے عدالت میں وہ اپنے پیاروں کی حالت بیان کرتے ہے تو ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے، ان انصاف کے منتظرین کا کل بھی اور آج بھی ایک ہی مقصد ہے انصاف فراہمی، اب دیکھنا یہ کہ ہماری حکومت کب نیند سے اٹھے گی اور کب ان متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے گا، کیا انصاف دیا بھی جائے گا یا پھر یہ لوگ بھی دیگر متاثرین کی طرح اپنے دل میں حکومت سے انصاف کی امید رکھتے ہوئے اپنے پیاروں سے جا ملیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).