کمسن متوفیہ ٹیچر انصاف مانگتی ہے!


ایک مقامی نجی سکول کی کمسن خاتون ٹیچر عاصمہ کی اندوہناک موت کے سلسے میں ڈپٹی کمشنر کے حکم سے قائم انکوائری کمیٹی کی رپورٹ جاری ہوئی ہے، جس کے مطابق اس واقعے کی اولین سوشل میڈیا رپورٹس کی تصدیق ہوتی ہے۔ یاد رہے، سکول مالکان کی جانب سے بعدازاں لفاظی کے ذریعے واقعے کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے حقائق کو چھپانے کی باقاعدہ کوششیں کی گئیں اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا انتہائی مستعدی سے استعمال کیا گیا تھا۔ اے ڈی سی ملتان آغا ظہیر عباس شیرازی کی سربراہی میں مرتب شدہ اس چار رکنی کمیٹی کی رپورٹ میں واضح طور پر ثابت کیا گیا ہے کہ سکول انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی نے ایک معصوم جان لے لی۔ یہ رپورٹ مرتب ہونے کے بعد جمعہ کو ڈپٹی کمشنر عامر خٹک کو پیش کی گئی جنہوں نے اس میں مندرجہ سفارشات کے عین مطابق مقامی انتظامیہ کو غفلت اور لاپرواہی کی مرتکب سکول انتظامیہ کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے۔

برقی تاروں پر الجھے ہوئے پرندوں اور شکنجوں میں جکڑے ہوئے جانوروں تک کا انخلا کر کے ان کی جان بچانے والی ”ریسکیو 1122“ کی سہولت اور حق کا استعمال اس معصوم شہری کے لیے ظالم سکول مالک اور پرنسپل نے جبراً ممنوع قرار دیدیا تھا۔ واقعے کے بعد ابتدائی رپورٹس میں ایمبولینس نہ بلانے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سکول انتظامیہ نہیں چاہتی تھی کہ گرد و نواح کے لوگوں کو خواہ مخواہ الرٹ یا باخبر کیا جائے۔ ان کی ضد تھی کہ حادثے کے بعد ان کے سکول کا نام نہیں آنا چاہیے۔

ان کے سکول کی نیک نامی اور شہرت کے سوال پر یوں ایک معصوم جان قربان کر دی گئی۔ سکول مالکان کی سردمہری کی انتہا ہے کہ انہوں نے اپنی گاڑی دستیاب ہوتے ہوئے بھی جان بلب عاصمہ کو ہسپتال پہنچانے کے لیے اس کے استعمال کی بھی اجازت نہیں دی تھی۔ یوں انتظامیہ کی بیجا ضد کی وجہ سے ہونے والی موت غفلت یا لاپرواہی سے بڑھ کر عمداً قتل کے مترادف ہے۔

حالانکہ کسی بھی مرد و زن کو اگر یہی کچھ سرِ بازار یا بر لبِ شاہراہ درپیش آتا تو کتنے ہی راہگیر گاڑیاں روک کر رضاکارانہ طور پر مدد پیش کرنے کو تیار ہو جاتے۔ ابھی کچھ دنوں قبل ایک رکشے کے پیچھے ایک تحریر لکھی دیکھی گئی جس میں غریب رکشہ ڈرائیور نے معذوروں اور ایسے افراد کے لیے اپنے رکشے کی مفت سہولت دینے کا وعدہ کیا تھا جن کو ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال جانے کی اشد ضرورت ہو، نیچے اس کا موبائل نمبر بھی جلی حروف میں تحریر تھا۔ کیا سکول مالکان اور پرنسپل کا ظرف رکشہ ڈرائیور جتنا بھی نہیں؟ تو یہ لوگ نوخیز بچوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں۔

کافی وقت ضائع کرنے اور بچی کی طبیعت انتہائی مخدوش ہو جانے کے باوجود بھی بد طینت انتظامیہ کا دل موم نہیں ہوا اور بیچاری کو لاوارثوں کی طرح رکشے میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں بتایا گیا کہ ہسپتال پہنچانے میں انتہائی تاخیر ہو چکی تھی اور یہ کہ بروقت ہسپتال منتقلی اور طبی امداد سے غریب کی قیمتی جان بچائی جا سکتی تھی۔

اسکی موت کی تصدیق ہونے کے بعد بھی بد نیت، بے پرواہ اور سنگدل مجرم سکول انتظامیہ کو توفیق نہیں ہوئی کہ ریسکیو 1122 یا دیگر متعلقہ اداروں کے حکام کو ٹیچر کی موت کی اطلاع دے دیتے۔ یہ سراسر بد نیتی پر مبنی معاملہ ہے جس کے لیے غفلت اور لاپرواہی جیسے الفاظ یقیناً بہت حقیر ہیں۔

رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ سکول ہذا کی رجسٹریشن کینسل کر کے اس کی انتظامیہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ اس رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ والدین سے بڑی فیسیں اینٹھنے والے یہ نجی سکول اپنے اسٹاف کو بہت کم تنخواہیں دیتے ہیں جو کہ ٹیچنگ پروفیشنلز کی توھین ہے۔ متوفیہ ٹیچر کو حکومت کی جانب سے متعین شدہ ”کم از کم تنخواہ کے نصف“ سے بھی کم ماہوار دی جاتی تھی جو سراسر غیر انسانی ہے۔ دیگر سفارشات کے علاوہ مذکورہ رپورٹ میں سکول کے اسٹاف اور طلباء کے لیے فسٹ ایڈ کی سہولیات کی ذمہ داری سکولوں کی انتظامیہ پر ڈالنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

ضرورت ہے کہ تمام نجی سکولوں کو لگام دی جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ سکول کی چار دیواری کے اندر تمام طلباء اور سٹاف سکول انتظامیہ کی ذمہ داری میں ہیں اور اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے اور مجرمانہ غفلت برتنے والے مالکان اور پرنسپلز کو عبرتناک سزا دی جائے گی۔

سوشل میڈیا، سول سوسائٹی اور ملتان کے دیگر شہری حلقے اس رپورٹ کی زبردست پذیرائی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک، کم از کم یہ رپورٹ تو صحیح مرتب ہوئی ہے اور اب شہری انتظامیہ کو اس پر حرف بحرف عملدرآمد بھی یقینی بنانا چاہیے۔ اور اس طرح وفات کے بعد تو معصوم عاصمہ کو انصاف پہنچایا جائے۔ غربت کے مارے اس کے ورثاء کہیں چمک کا شکار ہو کر کیس سے سبکدوش نہ ہو جائیں، اس کے لیے سرکار کی مدعیت میں ایف آئی آر کاٹ کر وکلاء اور سول سوسائٹی کو بھرپور موقع دیا جائے کہ اس کیس کی شفافیت کا خود جائزہ لیں۔ اور ضد، ہٹ دھرمی و جبر کے ذریعے ریسکیو ٹیم کال کرنے میں مجرمانہ رکاوٹ ڈالنے اور ضروری ریسکیو مشن کے لیے اپنی دستیاب گاڑی کے استعمال سے بھی روکنے جیسے اخلاقی جرم کے نتیجے میں ایک اندوہناک موت کا شکار ہونے والی شہری کے قتلِ عمداً کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا کا مشاہدہ کریں۔

اے کاش انصاف کا بول بالا ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).