قابلیت اور ذہانت میں فرق


ملک کے معروف دانشور اور عالم، آغا سلیم صاحب بڑی پتے کی بات کہا کرتے تھے کہ ”کوئی دور تھا، جب لوگوں کے پاس“ شعور ”تھا۔ اس کے بعد ہمارا (ان کا) دور آیا، جس میں ایک سطح کم ہوئی اور شعورمند لوگ تو کم ہوگئے، البتہ باعلم اور عالم لوگ پھر بھی تھے۔ یعنی لوگوں کے پاس علم باقی رہ گیا۔ مگر اب آپ لوگوں (ہمیں مخاطب ہوتے ہوئے کہا کرتے تھے ) کا دور آیا ہے، جس میں بس معلومات (انفارمیشن) ہی رہ گئی ہے۔ تم لوگ (ہم لوگ) معلومات کے پیچھے دوڑتے رہتے ہو۔

معلومات افزائی کے مختلف ذرائع استعمال کرکے، اس معلومات کو آگے بڑھا کر خود بھول جاتے ہو، اور وہ معلومات خود تمہاری شخصیت سازی تک میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی اور کچھ عرصے کے بعد وہ معلومات بذاتِ خود تم بھی بھول جاتے ہو! ”یہ بات جب وہ کہا کرتے تھے، تب بھی شدّت سے اس بات کا احساس ہوتا تھا، اور اب، جب آغا صاحب بذاتِ خود طبعی طور پر ہمارے بِیچ نہیں رہے، تب اس بات کا اور شدّت سے احساس ہورہا ہے۔

وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہم نوجوانوں کا وہ حلقہ، جس کو اس امر کا پتہ چلنے کے بعد اپنے نقصان کا احساس ہے، وہ اس ”بے حِس اکثریت“ سے بہتر ہے، جس کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے، کہ ہمارے پاس پہلے کیا تھا جو، اب نہیں ہے۔ گوکہ ہمارے پاس وسائل کے لحاظ سے اب ایسا بہت کچھ ہے، جو پہلے نہیں تھا، مگر موازنہ کیا جائے، تو اس ”سب کچھ“ پاس ہونے کے باوجود بھی ہم بہت سے شعبوں میں وہ کچھ نہیں کر پارہے، جو ان سہولیات نہ ہونے کے باوجود لوگ کیا کرتے تھے۔

کسی بھی مضمون میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جایا جائے، تو سب سے پہلے اس شعبے کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ ایسا دنیا بھر میں کیوں ضروری ہوتا ہے؟ کہ آئی ٹی کے ہر طالب علم کو کمپیوٹر کی تاریخ پڑہائی جائے کہ دنیا کا پہلا کمپیوٹر کب، کہاں، کس نے اور کن حالات میں ایجاد کیا؟ اور اس کی ہئیّت اور حیثیت کیا تھی؟ براڈکاسٹنگ پڑہنے والے ہر طالب اور طالبہ کو مارکونی کے ابتدائی اور اوائلی تجربات کے بارے میں کیوں پڑھایا جاتاہے کہ اس نے ریڈیائی لہریں کیسے دریافت کیں؟ اور ریڈیوٹرانزسٹر کیسے ایجاد کیا؟

یا ہر صحافی کو صحافت کی تاریخ، دنیا کے پہلے اخبار، پہلے جریدے اور اوائلی صحافیوں کے حالاتِ زندگی کیوں پڑھائے اور بتائے جاتے ہیں؟ ظاہر ہے، اس لئے کہ اگر کوئی بھی مسافر اپنے نقطہء آغاز یا سفرِ رفتہ سے باخبر نہیں ہوگا، تو اس کو حاصلات اور لاحاصل کا علم کیسے ہو سکے گا؟ اور اگر اس کو یہ علم نہیں ہوگا، تو وہ نئی چیزوں کو دریافت کیسے کر سکے گا! پھر یہ ہوگا کہ دریافتیں دہرائی جائیں گی اور تحقیق میں آگے بڑہنے کا عمل رک جائے گا یا سست رفتار ہو جائے گا۔

میں آج کل کے بہت سارے نوجوانوں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ ”مجھے تاریخ سے دلچسپی نہیں ہے“ یا ”مجھے تاریخ کا مضمون (سبجیکٹ) بور لگتا ہے۔ “ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی نئی نسلوں تک تاریخ کی اہمیت، افادیت یا اس کے کارآمد ہونے کا ادراک پہنچایا ہی نہیں! اور نہ ہی ہم نے بدلتے ہوئے دور کے جدید ترین تقاضوں کی مناسبت سے تاریخ کی تفہیم کا انتظام کر سکے ہیں۔ نتیجتاً ہمیں تاریخ ایک خشک مضمون لگنے لگا ہے۔

ہم اپنی ذات سے متعلق پرانی چیزوں کو تو سنبھال کے رکھتے ہیں اور اپنی ذاتی تاریخ کا ادارک تو ہمارے لئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے، مگر اپنی ہی اجتماعی تاریخ کا ذکر تک ہمیں خشک اور مشکل لگتا ہے۔ جس کی اہم وجہ، چیزوں کو بیان کرنے کے انداز میں فرق ہے۔ کسی بات کا علم ہونا اتنا اہم نہیں ہے، جتنا علم میں آنے والی بات کو دوسروں تک پہنچانے کا ہنر آنا ہے۔ بہت سے لوگ کسی موضوع پر انتہائی کم جانتے ہوئے بھی اسے بہت اچھے انداز میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں، جبکہ کئی لوگ کسی موضوع کے بارے میں بہت زیادہ جاننے کے باوجود بھی اسے دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنے کا فن نہیں جانتے۔

اسی لئے یہ حقیقت ہے کہ ادب پڑہانے والا ہر استاد بذاتِ خود ادیب نہیں ہوتا، یا سائنس پڑہانے والا ہر معلّم سائنسدان نہیں ہوتا۔ ماس کمیونیکیشن یا میڈیا سائنس پڑہانے والا ہر پروفیسر، صحافی نہیں ہوتا اور پولیٹیکل سائنس پڑہانے والا ہر استاد، سیاستدان نہیں ہو سکتا۔ اس حد تک کہ ادیب کے فن اور فکر کو جوہری کی طرح نقد کرنے والا، اس کی خوبیاں خامیاں بیان کرنے والا نقاد، ضروری نہیں کہ بذاتِ خود بھی ادیب ہو۔

”قابلیت“ اور ”ذہانت“ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ پہلے زمانوں میں ’علمِ لدَنی‘ عطا ہونے والی امّی شخصیات، رسمی تعلیمی قابلیت صِفر ہونے کے باوجود بھی ذہانت کے لحاظ سے ادوار اور اقوام کی نقیب بنیں۔ کئی بظاہر پسماندہ علاقوں سے متعلق لوگ، بزرگ، بڑِی بوڑھیاں، جو بظاہرکسی رسمی مکتب سے ایک جماعت بھی پڑھی ہوئی نہیں ہوتی تھیں (اب بھی کہیں کہیں موجود ہیں۔ کمیاب ہیں، نایاب نہیں ہیں ) ڈگری یافتہ اور علم کا دعویٰ کرنے والے کئی لوگوں سے زیادہ جانتے تھے اور ہیں۔

’لوک ذہانت‘ (فوک وِزڈم) سے مالامال لوگ آج بھی جانوروں کے مزاج، کیڑے مکوڑوں کی حرکت اور مٹّی کی خوشبو سے اچانک تبدیل ہونے والے موسمی حالات اور تغیّرات کا پتہ بتاتے ہیں اور ہم ہیں کہ اپنے جدید ترین آلات (گیجیٹس) کی کارکردگی پر کھوکھلے زعم کا شکار ہیں۔ سچ تو یہ ہے، کہ ان آلات نے اِس نسل کو مفلوج کر کے رکھا ہوا ہے۔ یہ ”گیجیٹس“ ہم جیسے ملک میں رہنے والی اقوام سے وابستہ لوگوں کے لئے ایسے ہتھیار کی طرح ہیں، جو بچّے کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہو، اور اب یہ اس کی صوابدید پر ہو کہ وہ یہ ہتھیار کس پر تانتا ہے اور کس کو اس سے مارتا ہے۔

ہم سوشل میڈیا کواپنے علم کے فروغ یا ذہانت کے حصول کے لئے کم، اور تفریح اور تخریب کے لئے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ شاید ہم یہ تک نہیں جانتے کہ ہم اس سے اپنی شخصیت سازی کا کس کس طرح سے کام لے سکتے ہیں۔ یہاں تو روایتی میڈیا کے باقی ذرائع کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ دنیا میں سیاست کے علاوہ بھی کئی موضوعات ہیں، جن پر بات کرنا، اور پروگرام نشر کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل تک شعوروآگہی کے تمام اسباق پہنچا چکے، اور اب پسِ شام بس مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان ٹاکرہ کروانا ہی باقی رہ گیا ہے۔

ایسے میں، جب نقطہء نظر بنانے والے ہی ایسے غیر ذمہ دار ہوں، تو مجھے آغا سلیم صاحب کے بیان میں ایک اور جملے کا اضافہ کرنے دیجئے کہ: ’اب ہم معلومات کی دوڑ میں بھی نہیں ہیں۔ اب ہم صرف (کبھی نا حاصل ہو سکنے والے ) اعداد وشمار کے پیچھے ہیں، چاہے وہ اعداد وشمار ”ریٹنگ“ کے ہوں یا پوسٹس کے ”لائکس“ اور ”ویوز“ کے۔ اور اس لاحاصل کی دوڑ میں ہماری کہی یا لکھے ہوئی ہر بات کی عمربس اتنی ہے، جتنا ہمارے سمارٹ فون پر ایک‘ امیج ’ (عکس) کو دوسرے‘ امیج ’تک اپنی انگلی کی جنبش سے آگے کردینے کا دورانیہ۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).