عورت کا اپنا آسمان


“ لڑکیوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرو، اعلی تعلیم دلواؤ، زندگی میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل بناؤ “

ابا اونچی آواز میں برس رہے تھے، بیٹی کی شادی کا نیوتا دینے والے مہمان سرجھکا کے بیٹھے تھے، اماں زیر لب مسکرا رہی تھیں اور ہم اپنی کتاب میں گم تھے۔

“ کیا کام آئے گا یہ سونے چاندی کا زیور۔ کیا ضرورت ہے چھوٹی عمر میں شادی کی۔ ارے پڑھاؤ انہیں، اپنے قدموں پہ کھڑا کرو انہیں۔ بھلے لڑکے پڑھیں یا نہیں، پروا نہیں۔ مزدوری کر کے بھی پیٹ پال لیں گے۔ پر بیٹی!

کیا کرے گی بیٹی اگر مشکل وقت آیا تو۔ ماں باپ سدا ساتھ نہیں رہتے۔ اگر خدا نخواستہ بیوہ ہو جائے، طلاق مل جائے، کیا کرے گی آخر؟

بھائی کی دہلیز پہ بے کسی کی زندگی گزارے گی کیا؟ بھابی کے ہاتھ کی طرف دیکھے گی کیا اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے؟

ارے اسے اپنا آسمان دو، اپنا آسمان”

یہ تھے میرے ابا!

میری زندگی کا پہلا مرد، میرا باپ اور انتہا درجے کا فیمینسٹ!

ہمارے دبلے پتلے، گورے چٹے ابا، پنجاب کے گاؤں کے رہنے والے، ایک چھوٹے زمیندار کی اولاد پر ایک راز بچپن میں ہی جان گئے، ترقی کے لیئے علم کی سیڑھی لازم۔

یہ سبق پڑھ کے اپنے گاؤں سے نکلے اور پھر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔ زندگی نے انہیں کئی اور سبق پڑھائے جن پر انہوں نے کامیابی سے عمل بھی کیا۔

ہمیں یہ نہیں معلوم کہ معاشرے کے چلن کے برعکس وہ عورتوں کے حقوق اور آذادی کے اتنے شدید حامی کیسے اور کب ہوئے لیکن بقول اماں کے کچھ تو شروع سے ہی زمین نم تھی کہ انہیں پڑھی لکھی اور با اعتماد عورت سے مکالمہ کرنا اچھا لگتا تھا جس کے پاس مرد کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے جواب دینے کا حوصلہ ہو اور جو کسی استحصال کا شکار نہ ہو۔

اور اس مزاج کے ساتھ جب انہوں نے اپنی سگی بہن کو کچھ عرصے کی شادی کے بعد بیوگی کی زندگی گزارتے ہوئے بھائیوں اور بھابیوں کا محتاج ہوتے دیکھا تو اپنی آئیڈیالوجی پہ ایمان مزید پختہ ہو گیا۔ ہمارا سید خاندان اور بیوہ کے ذمے خاندان کی عزت، کہ دادا کا یہی خیال تھا۔ ہمارے فیمینسٹ ابا اس کو ماننے سے انکاری سو باپ بیٹا ایک عورت کی خاطر آمنے سامنے۔

ابا نے اس سارے معاملے میں معاشرے کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دادا کے پرزور احتجاج کے باوجود اپنی بہن کی مرضی جاننے کے بعد ان کی دوسری شادی اور رخصتی اپنے گھر سے کی اور چشم فلک نے دیکھا کہ ہماری پھوپھی مرتے دم تک اپنے بھائی کی شکر گزار رہیں۔

لڑکی اور پڑھی لکھی، ان کی آنکھیں خیرہ کرتی تھیں۔ لڑکی کو ہر وہ چیز حاصل ہونی چاہیے جو اس گھر کے لڑکے کو ملے، چاہے وہ خوراک ہو، تعلیم ہو، آزادئ رائے ہو، وراثت ہو یا اپنی ذات کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق۔

ہماری بہن نے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ان کے انتہائی قریبی عزیز کے رشتے کو ٹھکرایا، کسی نے ایک شکن بھی ان کے ماتھے پہ نہ دیکھی۔ ہم نے غیر نصابی سرگرمیوں کے سلسلے میں پورا پاکستان گھوم لیا، ریڈیو، ٹی وی میں جھانک لیا، ان کو سب قبول ہوا۔

ہمیں میڈیکل کالج میں داخل کرواتے وقت ان کے وجود پہ فرحت و انبساط کی وہ کیفیت کہ بیان سے باہر۔ چہیتی بیٹی سے جدائی اور دوسرے شہر میں اکیلے رہنے کے خدشات، کچھ بھی آڑے نہ آیا۔ ہر مہینے ہمارے اکاؤنٹ میں سب لڑکیوں سے پہلے پیسے آتے۔ ہر ہفتے ان کی مخصوص لکھائی والا خط کا لفافہ اور یہ معمول جاری رہا پانچ برس۔

ڈاکٹر بن کے ہماری نوکری اور سپیشیلائزیشن میں وہ ہم سے بڑھ کے شوقین۔ ہمارے ہر امتحان پاس کرنے کا تحفہ پہلے سے تیار۔

شادی ہوئی تو طلاق کے نظریے کو اجاگر کرتے ہوئے، بلا مشروط محبت اور سپورٹ کی یاددہانی کرواتے ہوئے۔

اور یہ ایک مسوجنسٹ معاشرے کے مرد کا تحفہ تھا اپنی بیٹی کے لئے، غیر مشروط تحفہ!

بیٹی کو بوجھ سمجھے جانے والے معاشرے میں ایک سچ اور حق کی صلیب اٹھائے ہوئے مرد کا تحفہ!

اب ایسے فیمینسٹ ابا کا قرض کیسے ادا کرتے؟

لوگ بارہا پوچھتے ہیں کہ اپنے حقوق کی اتنی شدید آگہی اور سر بلند رکھتے ہوئے ان کے لئے اپنی آواز معاشرے میں پھیلانا، یہ کہاں سے سیکھا؟

کیسے بتاؤں کہ روشنی نے سفر کرنا ہی ہوتا ہے، روشنی اور آگہی فنا ہو نہیں سکتے۔ جو اس رستے پہ ایک دیپ جلاتا ہے اس کے پیچھے آنے والوں کو یہ چراغ روشن کرنے ہی ہوتے ہیں۔

ہم اپنے ابا کی محبت اور خود آگہی کے جس سبق کو پڑھ کے بڑے ہوئے تھے،اب ان چراغو ں کی لو تو بڑھانی ہی تھی نا کہ ایسے ہی سحر ہوا کرتی ہے۔ ایسے ہی ظلمت کے اندھیروں کو دور کیا جاتا ہے۔

سو یہ دیے روشن کیے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں اور علم کی چاہت کی شمع اس کے دل میں۔یہ پوری دنیا اس کے لیے خلق ہوئی ہے اور اس کی پرواز کا میدان ہے، کا سبق سکھا دیا۔

اور آج میرے سامنے وہ آہستہ آہستہ سٹیج کی طرف بڑھ رہی ہے۔کاسنی گاؤن پہن رکھا ہے، سر پہ مخصوص ٹوپی ہے اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک، نیو یارک یونی ورسٹی!

یہ براڈوے پہ بیکن تھیٹر کی عالیشان عمارت ہے۔ ایک طرف بینڈ دھنیں بکھیر رہا ہے۔ فضا میں سرور ہے، خوشی اور انبساط کی لہریں ہیں۔ گریجویٹس کے چہرے خوشی اور کامیابی کی لو سے دمک رہے ہیں۔ زندگی نے علم اور کامیابی کے پر عطا کر دیئے ہیں اور اب پرواز ہو گی شوق کی، چاہت کی جس کا کوئی انت نہیں۔

ہال میں بھانت بھانت کی دنیا ہے اور ستتر ملکوں کے طالب علموں کے ماں باپ ایک لمبی مسافت کے بعد یہاں موجود ہیں۔ سفر کی تھکان ماند پڑی جاتی ہے اس غرور سے، جس کے کارن دنیا کو علم کی روشنی سے بہتر جگہ بنانے کے لئے اپنا ایکٹ ان سب نے کھیلا ہے۔

آج اس دن کو یاد کر نے کا موقع ہے جب ان کی انگلی پکڑ کے ان ستاروں نے سفر کا آغاز کیا تھا، گو کہ یہ پیاس بجھنے والی نہیں پر ایک اہم سنگ میل ضرور پار ہونے کو ہے۔

سٹیج پہ فیکلٹی ممبران اپنے مخصوص لباس میں بیٹھے ہیں۔ فخر سے گردنیں تنی ہیں۔ پیغمبری پیشہ اختیار کرنےوالے فخر اور غرور کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک اور سال علم و آگہی پھیلانے کے سفر میں گزر گیا، زندگی نے ایک اور ورق پہ رنگ بکھیر دیئے۔

ہمیں مبارک دیجیئے، ہم نے پدرسری معاشرے میں ایک عورت کو پاؤں رکھنے کو زمیں دی ہے اور سر پہ آسماں!

(ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کو ہم سب گھرانے کے تمام لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی طرف سے دلی مبارک باد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).