پاکستان میں\”غداری\” کی تاریخ


\"muhammad-bilal\"غدار کا لفظ سامنے آتے ہی انسان کے ذہن میں چند باتیں گھومنے لگتی ہیں اور کوئی بھی عام انسان اس کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے لیکن اہل دانش اس لفظ کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس سے یہ شائبہ ملتا ہے کہ شاید ان کی نظر میر جعفر اور میر صادق بھی غدار نہیں ہوں گے ۔غداری ایک ایسا عمل جو کسی بھی ملک کے لئےقابل برداشت نہیں ہوتی لیکن الحمد للہ پاکستانیوں کا دل بہت بڑا ہے کہ یہ غداروں کو بھی تمغے دینے میں ماہر ثابت ہوئے ہیں ۔

غدار اور محب وطن کا فرق آسان لفظوں میں اتنا ہے کہ محب وطن وہ شخص ہے جو اپنے ملک و قوم سے محبت رکھے اوراس کا دفاع کرے ۔ غدار وہ شخص ہے جو اپنے ملک سے دھوکہ کرے اور اس کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دشمنوں کی بولی بولے اور ایسے موقع پر ملک کے خلاف آواز اٹھائے جب دشمن کی توپوں کا رخ ہماری طرف ہو ۔

پاکستان میں غداری کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن ہم کسی کو غدار کہنے میں اتنی دیر لگاتے ہیں وہ کم ازکم ہماری جڑوں کو اتنا کھوکھلا کر دے کہ ہم کو دوبارہ اس کی آبیاری کرنے میں کوئی بیس سال لگ جائیں ۔

الطاف حسین پچھلے بیس برس سے پاکستان کے خلاف جو کہتے رہے ہیں اس پر میرے جیسا عام انسان اس کوغدار ہی کہتا رہا ہے۔ لیکن اہل صحافت کو ہمیشہ اس بات پر مختلف دلیلیں گھڑتا دیکھا گیا ہے، چاہے وہ را کو مدد کے لئے ہی کیوں نہ پکار رہا ہو ہمارے احباب کو پھربھی وہ غدار نظر نہیں آتا بلکہ کوشش کی جاتی ہے اس کا دفاع کیا جائے۔ اس کا نقصان کیا ہوا، بیس سال میں جتنے لوگ کراچی میں مرے۔  اس \"bacha\"گناہ میں ہروہ شخص شریک ہے جو الطاف کو غدار کہنے والوں پر چڑھ دوڑتا تھا اور جو عدالت تک اس کا دفاع کرنے گئے، یا وہ رہنما جو اپنی حکومت قائم کرنےکے لئے الطاف کو محب وطن تک ثابت کرتے رہے۔ کیا ہمیں صرف اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ جب کوئی پاکستان کا جھنڈا جلائے یا پاکستان مردہ باد کا نعرہ میڈیا کے سامنے لگائے یا پھر میڈیا ہاؤسزپر حملے کرے تب ہی ہماری غیرت جاگتی ہے۔ ان ناسوروں کو اگر بیس سال پہلے ہیغدارکہہ دیا جاتا توآج کراچی ایسا نہ ہوتا لیکن ہماری دانش وری کا احسان ہے جو صرف انکے لبرل ہونے کو ان کے گناہوں کی معافی بنا کر پیش کرتے رہے ۔

یہ بیس سال کا تجربہ بھی دیکھ لیں اور اس کے نقصان بھی ، اب جناب محمود اچکزئی کو جب غدار کہا گیا تو پھر ہماری صحافت کو تکلیف ہوئی کہ ہم کون ہیں غدار کا فتوی لگانے والے ۔ جناب ہم کیوں بھول جاتے ہیں اچکزئی اس افغانستان کا وفادار ہے جو چند برسوں کے سوا کبھی ہمارا دوست نہیں رہا، جس نے ایمبیسیاں تک جلائیں، انڈیا کی حمایت میں ہمارا پرچم تک جلایا۔ ایسے وقت میں جب افغانستان اور انڈیا کا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ عروج پر تھا اچکزئی کا بیان کیا حب الوطنی تھا ۔ لیکن ہماری اس گھٹیا سیاست کو سلام جو اس کے بھائی کو گورنر تک بنا دیتی ہے صرف اپنے مفادات کے لئے۔ یادرکھیں اگر ہم نے بیس سال بعد اچکزئی پر غداری کے فتویٰ لگانے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ آج ہی ایسے لوگوں کی راہ میں رکاوٹ بنیں تاکہ جو تجربہ ہم نے کراچی میں کیا ہے وہ دوبارہ نہ کریں ۔

جب بھی بلوچ نیشنلسٹوں کو کوئی محب وطن غدارکہتا تھا تو پھر اہل صحافت کا اعتراض شروع ہو جاتا کہ وہ محرومی کی وجہ سے جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی جنگ کو جسٹیفائی تک کیا جاتا تھا ۔ جب بھی ان کو را کا ایجنٹ کہا جاتا تھا تو ہمارے مہربان اسکا ٹھٹھا اڑاتے نظر آتے لیکن کیا ہوا آج مودی اور قوم پرست ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ۔کئی برس کی جنگ میں ہم اپنی صحافت سے \”محرومی کا چورن\” بیچ کر ان کو نوجوان نسل کا ایندھن فراہم کرتے رہے ہیں اور آج ہم شرمندہ ہوکر کہتے ہیں کہ قوم پرست غدار نکلےتو یہ ہم نے پہلے کیوں نہ کہا کیا اس وقت ہماری زبانوں پہ تالے لگے ہوئے تھے ۔

پاکستان سے غداری کی تحریک بہت پرانی ہے اور اس گنگا میں کئی لوگوں نے ہاتھ دھوئے ہیں ۔ باچا خاں سے کون واقف نہیں ہے ان کی \"Achakzai\"پاکستان سے محبت کا عالم کس سے چھپا ہے۔ 1948 کی وزیرستان جنگ کی پلاننگ سے لیکر گریٹر پختونستان کا خواب گاندھی کو یہ کہنا کہ \”تم نے ہمیں بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا \” کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو محب وطن غدار کہنے میں دیری نہیں کرتے لیکن ہمارے اہل دانش کے لئے وہ پوتر ہیں۔ باچا خان کی زندگی میں افغانستان حکومت نے پاکستان کی ایمبیسیاں تک جلائیں اور بلا مبالغہ یہ فکر باچا کا ہی اثر تھا افغانستان کبھی ہمارے لئے ایک پر امن جگہ نہیں رہا سوائے چند برسوں کے ۔ لیکن کیا ہم نے کبھی ان کو غدار کہا، کیا اس کی غداری کے لئے کوئی الہامی دلیل چاہئے تھی کیا ، بھٹو صاحب کا فیصلہ اس معاملہ پر بہترین تھا جو انہوں نے باچا خان کی پارٹی کو بین کیا لیکن کیا ہوا آج اسی فکر کے لوگ معزز بن کے پھررہے ہیں ۔ باچا خان کالا باغ ڈیم کا دشمن تھا آج بھی اس کے پیروکار اس کے دشمن ہیں۔ یہی اے این پی کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے میں ایم کیوایم کے شانہ بشانہ رہی ہے ۔کیا وجہ ہے کہ ہم غداروں کو غدار کہنے میں اتنی دیر لگاتے ہیں ۔ ان کا اپنے نظریہ سے مخلص ہونا پاکستان کے لئے کہاں مفید ہوا جو ہم ان کی عزیمت کو ایسے پیش کریں کہ وہ ایک بہترین لیڈر تھے یقینا وہ اپنوں کے لیے مخلص ہوں گے لیکن پاکستان کہاں گیا۔ ان کو ایوارڈ ملا تو بھی بھارتی ، نظریہ ملا تو بھی بھارتی، ان کو ننگے نظر آئیں تو مسلم لیگی، ان کو بھیڑیے لگیں تو دو قومی نظریے کے حامی اور دم مرگ دو گز زمین بھی چاہیں تو افغانی بھلا پاکستان کہاں گیا۔ غداری یہ نہیں توکیا ہے؟

وارث میر صاحب ایک صحافی گزرے ہیں۔ موصوف عین اس وقت جب پاکستان انڈیا کے ساتھ جنگ کی آگ میں دہک رہا تھا، مکتی باہنی کی \"27\"بدمعاشیوں کوجھیل رہا تھا اور ٹوٹنے کے قریب تھا تو ہمیں اپنے سوکالڈ صحافتی ذمہ داری کا احساس ہوا اور ہم نے پاکستان کے خلاف لکھنا شروع کیا اور مجرم پاکستان فوج کو ٹھہرایا۔ خدا کا واسطہ ہے۔ ذرا سوچیں محب وطن کی تعریف یہی ہوتی ہے، غدار کسی کے ماتھے پر لکھا ہوتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ انسان کا عمل ہی اس کے لئے کافی ہوتا ۔ لیکن ہم نےکیا کیا اس پر۔ ہمارے دشمنوں نے 2013 میں اپنی آزادی کا \”ایوارڈ \” دیا جس کانام ہے \”جنگ آزادی کے دوست \” اور حیرانی کا عالم تو اس بات پر ہے کہ حکومت پاکستان نے بھی 2013 میں ہلال امتیاز سے نواز اور ان کے نام کے انڈر پاس بھی بنائے ۔ یہی ایوارڈ اندرا گاندھی کو بھی ملا اور کئی بھارتی نیتاؤں کو ملا حتیٰ کہ مودی جی واجبائی کا ایوارڈ گزشتہ سال لے کے آئے ہیں ۔ خدارا یہ بتائیں حامد میر اپنے باپ کے لئے یہ ایوارڈ لیتے وقت پاکستان کی نظریاتی اساس کا محب تھا یا غدار۔ غداری ماتھے پر نہیں لکھی ہوتی بلکہ انسان کے عمل سے ثابت ہوتی ہے ۔آپ ذرا سوچیں کیا الطاف بھائی کو بھی مستقبل میں ان کی موت کے بعد ہلال امتیاز مل سکتا ہے پاکستان میں؟ تو میرا جواب ہے ہاں مل سکتا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کی یہ روایت رہی ہے غداروں کو نوازنا۔

ذرا آگے چلیں محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحب جن کے والد کو یہی ایوارڈ بنگلہ دیش کی طرف سے دیا گیا ان کی پاکستان کی ریاست کےخلاف باتیں۔۔۔ کیا ان کو محب وطن کہا جائے۔ وہ الطاف بھائی کے کیس لڑیں؟ الطاف بھائی تو غدار لیکن عاصمہ جہانگیر ایک عظیم خاتون۔ میں ان سب لوگوں کو پاکستان کا غدار سمجھتا ہوں ، آپ کا اس سے اختلاف بجا ہے لیکن صرف اتنا کہوں گا غدار پہچاننے میں اتنی دیر لگانی چاہئے جتنی راشد منہاس نے لگائی تھی ناکہ اتنی جتنی ہمارے میڈیا ہاوسز لگاتے ہیں؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments