مودی‘ ہندو توا اور دو قومی نظریہ


فورٹ ولیم کالج کی خدمات کے نتیجے میں ہمیں انگریزی و سنسکرت کا بہترین ادب پڑھنے کا موقع ملا۔ فورٹ ولیم کی کوکھ سے دو قومی نظریہ ابھرا اور پھر بہت سے برسوں کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی قائم ہوئی۔ معلوم ہوا کہ زبان کو تقسیم کر کے کسی بھی آبادی کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مذہب ‘ ثقافت اور نجی زندگی کا اختلاف پہلے سے موجود تھا مگر جب دیو ناگری اور فارسی رسم الخط ہندو اور مسلمان کی شناخت بنے تو صدیوں کے تعصبات اور نفرتیں ابھر کر سامنے آنے لگیں۔

کانگرس قائم ہوئی تو سرسید نے اسی لئے مسلمانوں کو اس سے الگ رہنے کی تلقین کی۔ اردو ہندی تنازع اور تقسیم بنگال نے دو قومی نظریے کی پرورش کی۔

ستم یہ ہوا کہ بھارت میں ہندو توا کی ایک سیاسی شکل بی جے پی کی صورت میں تشکیل پا گئی مگر پاکستان میں دو قومی نظریے کی علمبردار مسلم لیگ اپنی بنیادی فکر سے دستبردار ہو کر شخصیات کی گرفت میں آ گئی۔

بی جے پی کے فکری اجداد میں لاہور کے ٹی بی ہسپتال والی گلاب دیوی کے فرزند لالہ لاجپت رائے کا ذکر اہم ہے۔ لالہ لاجپت رائے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ مسلمانوں سے جان چھڑانے کے لئے انہیں الگ علاقہ دیدیا جائے اور باقی حصے میں ہندو اکثریت اپنی مرضی کا نظام نافذ کرے۔ بعدازاں علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں الگ وطن کی بنیادیں استوار کیں۔ قائد کے فرامین سے الگ قوم کا تصور پختہ تر ہوا اور 1940ء میں قرار داد پاکستان کی منظوری نے قوم کے لئے الگ ملک کے حصول کو ایک مقصد قرار دیدیا۔

دو قومی نظریے کی بحث کے کئی پہلو ہیں۔ کچھ پہلو مسلسل زیر بحث رہے ہیں۔ کچھ پر نئے سرے سے بات ہو گی۔ نریندر مودی نے اپنی سیاست میں ایک بات کو ہمیشہ ترجیح دی کہ مسلمانوں کا بھارت میں کوئی سیاسی کردار نہ رہے۔ وہ بھلے وزیر اعظم بننے کے بعد اس بات کا کھل کر ذکر نہیں کرتے رہے مگر ان کے انتہائی قریبی تصور کئے جانے والے افراد کے بیانات‘ تقاریر اور طرزعمل بتاتا ہے کہ وہ پاکستان اور مسلمانوں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔

حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے جن چھ مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیا وہ سب کے سب ہار گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے اوپر اقلیت دشمن جماعت کے الزام کو بے اثر کرنے کے لئے یہ چند ٹکٹیں مسلمانوں کو دی گئیں۔ مسلمانوں کو گزشتہ پانچ سال کے دوران زبردستی ہندو بنانے‘ گائے کا پیشاب پینے اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سرراہ برقع پوش طالبات کو پائپ کے ذریعے بھگونے اور انہیں ہراساں کرنے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

ہولی کے موقع پر کرکٹ کھیلنے والے مسلمان افراد کے گھر پر درجنوں غنڈوں کا حملہ ثبوت ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو نہ کرائے پر گھر ملتا ہے نہ انہیں ہندوئوں کے علاقے میں گھر خریدنے کی اجازت ہے۔ گزشتہ برس بھارت کے ایک نامور مسلمان تن ساز کو جم سے نکال کر سڑک پر قتل کر دیا گیا۔ پلوامہ حملہ کے بعد ان ریاستوں میں کشمیری اور مسلمان طلبہ پر تشدد ہوا جہاں اس باربی جے پی کامیاب ہوئی۔

جس روز مودی کے دوبارہ جیتنے کی خبر نشر ہوئی اسی روز مسلمان میاں بیوی کو سڑک پر روک لیا گیا۔ میاں کو درخت سے باندھ کر تشدد کیا گیا اور پھر اسے مجبور کیا گیا کہ اپنی بیوی کے سر پر جوتیاں برسائے۔ بی جے پی اکثر ایسے واقعات میں تشدد پسندوں کی پشت پر آ کھڑی ہوتی ہے۔ چند ماہ پہلے سروے رپورٹس بتا رہی تھیں کہ اس بار مودوی با جماعت ڈوب جائیں گے۔ چھ ماہ پہلے راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ریاستی انتخابات میں کانگریس کو یکایک نمایاں کامیابیاں ملنے سے مودی کے زوال کی باتیں زیادہ شدومد سے ہونے لگیں مگر نتائج حیران کن ہیں۔

بی جے پی نے مغربی بنگال‘ کرناٹک‘ اروناچل پردیش اور دلی میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ ان چھ ماہ کے دوران مودی نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جس کو ان کی کامیابی کی دلیل کہا جا سکے۔ تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ پلوامہ میں 42 سکیورٹی اہلکاروں کی موت اور پھر پاکستانی حدود میں ایئر سٹرائیکس کو مودی نے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ ان دونوں واقعات کو ہندو توا کے سحر میں گرفتار بھارتیوں کے سامنے اس طرح پیش کیا گیا کہ مودی ایک دانشور اور ایسے دلیر لیڈر کے طور پر پینٹ کئے گئے جن کی دھمکی پر پاکستان نے ابھی نندن کو رہا کر دیا اور جن کے کہنے پر امریکہ نے پاکستان کی کئی تنظیموں کوکالعدم اور دہشت گرد قرار دیدیا۔

ہمارے ہاں نوجوان نسل نظریہ پاکستان کو پڑھتی ہے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کج فہمی کا ذکر الگ رہنے دیجیے۔ عام آدمی بھارت سے پرامن تعلقات برابری کی سطح پر چاہتاہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف بار بار بھارت سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں مگر بھارت ایسا نہیں چاہتا۔ ہم پاکستان کی بات کرنے والے کی فکر اور نظریات کا علمی چیر پھاڑ کر کے اسے پسپائی پر مجبور کرتے ہیں۔

بھارت آدتیہ ناتھ ‘پرگیا سنگھ ٹھاکر‘ تیجسون سوریا جیسے نوجوان لیڈر سامنے لا رہا ہے جو مودی سے بھی چار قدم آگے پاکستان اور مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ مودی نے سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں ملوث سادھوی کو ٹکٹ دیا جس پر دہشت گردی کے الزامات تھے اور کہا کہ اس کی جیت ہندو کو دہشت گرد کہنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہو گی۔

سادھوی جیت چکی ہے۔ ہندو توا کا نظریہ اور سیاسی شکل پوری طرح اجاگر ہو چکی ہے کیا خود کو مسلم لیگی کہلانے والے خاندان اور سیاستدان بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے دو قومی نظریے کی کیا شکل بنائی ہے؟ اور کیا آج پاکستان خطے میں تیز چلنے والی ہوا کے ہر تھپیڑے پر اگر لرزنے لگتا ہے تو اس کمزوری کا ذمہ دار کیا صرف بھارت اور اس کا حکمران مودی ہے؟

ہم ہندوتوا کے علمبردار واجپائی اور مودی کو جانتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے ان کی اولاد، بہن، بھائی، رشتے دار کیوں سیاست میں نہیں آئے۔ کیا وہ جانتے تھے کہ نظریہ اگر موروثی سیاست کے حوالے کر دیا جائے تو وہ مرجھا جاتا ہے۔ قوم کا نظریہ صرف اس کے ماضی کی نہیں مستقبل کی منصوبہ بندی کی علامت ہوتا ہے۔ نظریہ پاکستان فروخت ہوتا رہا، اس پر تنقید اور اس کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ اب اگر انتہائی مصروف قوم کو وقت ملے تو سنجیدگی سے سوچے کہ بھارت سے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).