غربت کا خاتمہ اور رٹگر بریگمین کی کتاب ”یوٹوپیا فار ریالسٹس“


کالج میں ‌ ایک کلاس لی تھی جو پیسے کو سمجھنے کے بارے میں ‌ تھی۔ پیسہ کیا ہے اور کہاں ‌ سے آتا ہے؟ اس سے میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ پیسہ ایک ہوائی خیال ہے جس کی آج کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ انسانوں ‌ کا تخلیق کیا ہوا ایک نظام ہے جس سے دنیا چل رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ لوگ سوچیں ‌ کہ سارا پیسہ آج ہی خرچ کرلیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی کچھ عرصے بعد کچھ اہمیت نہ رہے۔

میں : میں ‌ آپ کو افراط زر کے بارے میں یہ بتا سکتی ہوں کہ جب میں نو سال کی تھی تو میرے بڑے ماموں امریکہ سے کراچی آئے تھے۔ انہوں ‌ نے مجھے کہا کہ گڑیا، یہ سکہ ایک ڈالر ہے اور اس کی قیمت نو روپے ہے۔ آج ڈالر کی قیمت 150 روپیہ ہوگئی۔ اس سے اندازہ کریں ‌ کہ اگر آپ کی تنخواہ پچھلے پانچ سال سے 20 ہزار روپیہ ہو اور چیزیں مہنگی سے مہنگی ہوتی جائیں تو پیسے ہوتے ہوئے بھی آپ ان کو نہیں خرید سکیں ‌ گے۔

سوزن کوگن: کیا ایسا وقت آنے والا ہے جب مشینیں سب کچھ کریں گی اور انسانوں ‌ کے پاس کچھ کرنے کو نہیں ہوگا؟

ہال اسپیک: ہاں، رٹگر بریگمین نے بھی یہی لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وقت آئے گا کہ ایک مشین کے پاس ایک کتا اور ایک آدمی بیٹھے ہوں گے۔ آدمی کی جاب ہوگی کہ کتے کو کھانا دے اور کتے کی جاب ہوگی کہ آدمی کو مشین چھونے سے روکے۔

سوزن کوگن: جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ‌ ترقی ہورہی ہے ویسے ہی ہمارے کام میں ‌ بھی تبدیلی آئی ہے۔ میں ‌ اب ریٹائرڈ ہوں۔ میری والنٹیر جاب ہے اور اس کے علاوہ میں ‌ لکھتی بھی ہوں اور میرے کام میں ‌ میرا دل لگا رہتا ہے لیکن کافی سارے شعبے ہیں جن میں ‌ لوگ اچھی پوزیشن پر پہنچ کر بھی اپنی زندگیوں میں ‌ خوش نہیں ہیں۔

میں : جی۔ رٹگر بریگمین ان کو ”بل شٹ جابز“ کہتے ہیں۔ انہوں ‌ نے بینکرز اور کورپوریٹ لایرز کے سروے سے یہ معلوم کیا کہ وہ لوگ اپنے کام کو بے معنی محسوس کرتے ہیں۔ کیا آپ لوگوں ‌ نے ان تجربات کے بارے میں ‌ پڑھا جس میں نیویارک میں ‌ کوڑا جمع کرنے والے افراد نے ہڑتال کردی تھی؟ چھ دن میں ‌ حکومت نے گھٹنے ٹیکے اور ان کی تنخواہ میں ‌ اضافہ کیا کیونکہ ساری سڑکیں کوڑے سے لد گئی تھیں۔ اور بینکرز ایک مرتبہ ہڑتال پر چلے گئے۔ چھ مہینے گزر گئے اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ سارا نظام خود بخود چلتا رہا۔ لوگ پیسے کی جگہ ایک دوسرے کو کاغذ کے ٹکڑے پر ”آئے او یو“ یعنی مجھ پر آپ کا قرض ہے لکھ کر دے دیتے تھے۔ چھ مہینے بعد بینکرز خود ہی واپس آگئے۔

گلین: کیا آپ نے کیلیفورنیا میں اس تجربے کے بارے میں پڑھا ہے جس میں ‌ ڈاکٹرز نے ہڑتال کی تھی اور موت کی شرح‌ کم ہوگئی؟
میں : ہاہا نہیں! یہ تو بہت مزاحیہ بات لگ رہی ہے۔ میں ‌ اس بارے میں ‌ ضرور پڑھوں گی۔

نیڈین: لیکن کافی سارے لوگ ذمہ دار نہیں ہوتے۔ ہمیں ‌ کیسے پتا ہے کہ اگر ہم ان غریب افراد کو پیسے دیں ‌ تو وہ اپنے بچوں ‌ کے لیے کھانا یا کپڑے ہی خریدیں گے؟ کچھ لوگ جوا کھیلنے میں ‌ بھی یہ پیسے لٹا سکتے ہیں۔

گلین: کیا امیر یا پیسے والے افراد غلط فیصلے نہیں کرتے؟
نیڈین: جی وہ بھی کرسکتے ہیں۔

گلین: تو پھر اس بات کی فکر کیوں ‌ کریں ‌ کہ کچھ غریب بھی غلط فیصلے کریں ‌ گے۔ ہمیں ‌ مستقبل کے فائدے پر نظر رکھنی ہوگی۔

کلنٹ: میں ‌ نے کچھ عرصہ پہلے ایک تجربے کے بارے میں پڑھا تھا جس میں ‌ کچھ گاڑیوں پر ایک مزید مختلف زاویے کی لائٹ لگائی گئی تھی جس سے حادثات میں ‌ کمی واقع ہوئی۔ اس سے تحقیق دانوں ‌ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لائٹ لگانے سے حادثات کم ہوتے ہیں لیکن جب تمام گاڑیاں ایک جیسی بن گئیں ‌ تو لوگوں ‌ نے یہ فرق محسوس کرنا چھوڑ دیا۔ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تمام شہریوں ‌ کو بنیادی انکم فراہم کرنے سے کسی طویل عرصے کی بہتری ممکن ہے۔ یہ تمام تحقیقات مختصر عرصے کی ہیں۔

میں : ہاں میں ‌ کلنٹ کا نقطہ سمجھ رہی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ پچیس سال بعد، پچاس سال بعد، تمام افراد کی بنیادی ضروریات پوری ہونے کے بعد بھی ہمارے سامنے نئے مسائل کھڑے ہوں لیکن یہ بھی دیکھیے کہ انسانیت وقت کے ساتھ بہتر ہوئی ہے۔ اب ہم لوگوں ‌ کو مصلوب نہیں کرتے۔ حالانکہ اب بھی ہم امریکہ میں ‌ سزائے موت دیتے ہیں جس کو بدلنے کی ضرورت ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں ‌ کہ ان تمام اسٹڈیز سے جو نتائج سامنے آئے ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام مسائل تو شاید کبھی ختم نہ ہوں ‌ لیکن دنیا ذرا سی بہتر ضرور ہوسکتی ہے اور میرے خیال میں ‌ ہر نسل پر یہی ذمہ داری ہے کہ اپنے حصے کا کام کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2